ترکی میں‌ گزرے یادگارایام کی حسیں یادیں(آٹھویں قسط)

تین جولائی صبح گیارہ بجے ناشتہ وغیرہ کرکے دو ٹیکسیاں لیں ، جنہوں نے ائیر پورٹ جانے والے بس سٹینڈ پہنچا دیا – ترکی کے کسی شہر میں ٹیکسی میں چار سے زیادہ سواریوں کو نہیں بٹھاتے – یہ پہلی بار تھی جب ہماری پارٹی لیڈر نے ٹیکسی استعمال کرنے کی اجازت دی ورنہ جب یہ ساتھ ہوتی تو ہمارا سفر صرف بس، ٹرین یا ٹرام کے ذریعہ ہی ممکن تھا جو کم خرچ تو ضرور تھا لیکن وقت زیادہ لیتا تھا- بہر حال فضول خرچی سے بچ کر شیطان کا بھائی بننے سے بچ گئے، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے کہ “ فضول خرچ شیطان کے بھائی ہوتے ہیں“

ائیر پورٹ پہنچنے کے ساتھ ہی ہماری امیگریشن کا پراسس شروع ہو گیا – ہمارے پاس سامان قواعد کے مطابق تھا بلکہ فی کس 23 کلو کے دو بیگ کے بجائے ہمارے پاس پندرہ بیس کلو کے صرف 8 بیگ تھے – اس لئے بڑی آسانی اور امیگریشن کے منکر نکیروں کے سوال جواب کے بغیر ان کے ہی بھرپور تعاون سے ویٹنگ لاؤنج میں پہنچ گئے-

میں ایسے سفر میں وہیل چئیر پر ہوتا ہوں اس لیے سب لوگوں سے پہلے مجھے لاؤنج میں پہنچا دیا، باقی لوگ تقریبآ 45 منٹ بعد پیدل چل کر وہاں پہنچے- مجھے کافی پینے کا بہت دل کررہا تھا لیکن میرے پاس پیسے نہیں تھے – جب باقی لوگ بھی لاونج میں پہنچے تو ان کا بھی رونا تھا کہ ہماری ساری کی ساری جمع پونجی کارگو والے سامان کے بیگ میں چلی گئی ہے – کوئی بھی اپنا قصور ماننے کو تیار نہیں تھا-

میں نے پاکستان سے نکلنے سے پہلے اپنے بینک سے ویزا کارڈ انٹر نیشنل ٹرانزیکشن کے لیے ایکٹیویٹ کرایا تھا لیکن میرے بینک نے مجھے ہدایت کی تھی کہ اس کو استعمال نہ ہی کریں تو بہتر ہے کیونکہ اس پر دو بارسروس چارجز لگیں گی ، ایک بار انٹرنیشنل کیش نکالنے کے لیے دوسری بار اپنے بینک کی سروس کے ، اس وجہ سے نویدہ نے اس کے استعمال پر بین لگا دیا تھا – سب نے اپنے اپنے جیبوں اور پرسز کو ٹتولنا شروع کیا – لے دے کے اتنے پیسے ہوگئے کہ ہم نے سٹار بکس کا ایک ایک کافی کا کپ اور بچوں کے لیے جوس لیے-

اتفاقآ ہمارے ساتھ استنبول میں ہی لاھور کی ایک فیملی جو حطار ہری پور میں کاروبار کرتے ہیں، کے ساتھ تعارف ہوا جن کے سربراہ کا نام مظفر صاحب تھا – وہ عمرہ کرنے کے بعد انقرہ یو نیورسٹی میں اپنے بیٹے کے کانووکیشن میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے -انہوں نے جب یہ بات سنی کہ ہمارے پاس پیسے نہیں وہ کارگو والے بکس میں چلے گئے ہیں اور اسلام آباد میں ہی ملیں گے، انہوں نے ریال آفر کیے، بڑی لے دے کے بعد نویدہ نے ان سے صرف دو سو ریال لیے جن سے بچوں کو جوس، کافی، چپس ، چاکلیٹ وغیرہ لے کے دیے-

جب اسلام آباد ائیر پورٹ پر سامان وصول کیا تو بیگ سے ریال نکالے جو پانچ پانچ سو کے نوٹوں کے علاوہ ڈیڑھ سو الگ سے بھی تھے- نویدہ نے ان کو پانچ سو کا نوٹ دیا لیکن انہوں نے کہا ہمارے پاس تو ٹوٹے نہیں ہیں جبکہ نویدہ کے پاس ٹوٹے ہوئے صرف ڈیڑھ سو تھے، انہوں نے کہا یہی کافی ہیں ، پھر کبھی ملنے کے لیے ان کو عند الطلب بقیہ جات کے طور رہنے دیں — اللہ ان کا بھلا کرے- اس زمانے میں بھی انجانے لوگوں پر اعتبار کرنے والے موجود ہیں، جس کا مطلب ہے ابھی اللہ ہم سے مکمل ناراض نہیں ہے- اس عرصہ کے دوران چیک اِن ہوگیا اور ہم لوگ جہاز میں بیٹھ گئے-

یہ سعودی ائیر بس تھی جو استنبول سے براستہ ریاض اسلام آباد آئی- لمبی فلائیٹ ہونے کے باوجود نویدہ نے سستی ہونے کی وجہ سے یہی بک کرائی تھی کیونکہ ریاض سے اسی ائیر لائین کی دوسری فلائیٹ پانچ گھنٹے کے انتظار کے بعد اسلام آباد کے لیے آئی- استنبول سے جدہ تک کا سفر چار گھنٹے کا تھا اور اتنا ہی ریاض سے اسلام آباد کا-

ریاض والے جہاز میں لگتا تھا کہ ہم کسی ڈے کئیر والے سکول میں ہیں – ایک عرب مسافر کے پانچ بچے ،جن کے ساتھ دو فلپائینی خادم نما ، میرے خیال میں کنیزیں تھیں – خود شیخ صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ بزنس کلاس میں تھے جبکہ بچے اور خدام ہماری رائل تھرڈ کلاس میں بچوں اور خدام کے لیے اپنی پسند کی سیٹیں لینے کے لیے غل غپاڑہ کر رہے تھے –

جو سیٹیں ہمارے پاس تھیں وہ بزنس کلاس کے بالکل پیچھے دروازے کے ساتھ کھلی leg space والی تھیں ، جن کو ائیر لائین کی زبان میں Buckle head seats کہتے ہیں -۰اس عرب بھائی کا اصرار تھا کہ یہ سیٹیں ان کے بچوں اور خادماؤں کو دے دیں – ارے بھائی انصاف اور وہ بھی اسلامی انصاف کا تقاضا تھا کہ ان لوگوں کو بھی ساتھ بٹھاتا یا خود ان کی کلاس میں بیٹھتا ، لیکن نو دولتیوں کو نہ صرف سب غلام لگتے ہیں بلکہ اپنے غلاموں کے بھی غلام لگتے ہیں –

اللہ نے اپنی شان بے نیازی میں رزق بانٹا ہے جس میں مساوات قائم کرنے کا حکم انسانوں کو دیا ہے ، لیکن اس بات کو عرب لاکھوں پیغمبروں کے اسی دھرتی میں اترنے کے باوجود نہیں سمجھ سکے ، اور تیل کی دولت کے بعد سمجھنے کے امکانات تو معدوم ہوتے جا رہے ہیں ، ممکن ہے امریکہ ان کو یہ سمجھا دے کیونکہ اس کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں ، بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو بادشاہ سلامت کو کہہ بھی دیا ہے کہ اگر ہم آپ کا ساتھ نہ دیں تو آپ ہفتہ بھی نہیں نکال سکتے – عاقل کے لئے یہ اشارہ کافی ہے او ”عقلمندوں” نے عورتوں کو کھلی آزادی ، کلب، کیسلز ، سینما وغیرہ کھولنے شروع کر دیے ہیں –

فی زمانہ نو آبادیاتی نظام کی نوعیت بدل گئی ہے ، نظام نہیں بدلتا ، کام بدل دیے جاتے ہیں – بہرحال تمام تر حیل و حجت کے باوجود عملے نے صورت موقع satusqua بحال رکھنے کا فیصلہ سنایا ، لیکن ہم وہاں بیٹھ کے بھی پچھتا گئے- ان کے بچوں نے اتنا شور و غوغا ، رونا دھونا اور فلپائینی کنیزوں نے ان کی خاطر تواضع میں اتنی پھرتیاں دکھانا شروع کیں کہ ہم پچھتا ہی گئے- میں نے تو سیٹ بدل لی لیکن بچیوں نے وہیں گزارا کیا – بچوں کا شور شرابا فطری بات ہے، لیکن والدین بچوں سے دور رہ کر اپنے آرام کو یقینی بنائیں اور بچوں کو خدام کے حوالے کرکے مسافروں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں ، یہ ممتا کی بھی توہین ہے اور مسافروں کے لیے بھی اذیت کا باعث ہے–

لے دے کر کے چار گھنٹے کی فلائیٹ کے بعد ہماری جان ریاض ائیر پورٹ پہنچ کر اس ”کھچکیل” سے چھوٹی اور سکون کا سانس لیا- یہاں چار گھنٹے کے انتظار کے بعد اسلام آباد کے لیے اگلی فلائیٹ سے جانا تھا -انتظار کے چار گھنٹے اس وسیع وعریض ائیر پورٹ کے ہر کونے کھدرے ، کسٹم فری سٹالز کی ونڈو شاپنگ کی ، سعودیہ کی سوغات کھجوریں تو بہر حال لیں جو میرا پسندیدہ فروٹ ہے – ہر صبح چھ کھجوریں چینی کے بجائے قہوے کے ساتھ لیتا ہوں -جو کھجوریں پاکستان میں مجھے احترام ملحوظ خاطر رکھنے کے باوجود 2000 روپے فی کلو کے حساب سے ملتی ہیں ، وہ ائیر پورٹ پر بلا تعارف و احترام پاکستانی 1000 ہزار کے حساب سے ملیں -اگر نویدہ سودا بازی کرتی، جو اس معاملے میں فہمیدہ سے زیادہ ماہر ہے ، تو ممکن ہے ایک دو سو روپے کم ہو جاتے – اس سے اندازہ لگائیں ہمارے ساتھ تاجر اور ٹیکس والے کیا سلوک کرتے ہیں –

سعودیہ کے وقت کے مطابق دو ، جبکہ پاکستانی وقت کے مطابق چار بجے صبح ہم لوگ ریاض سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے- رات کا سفر میرے لیے بڑی کوفت کا باعث ہوتا ہے – سفر جہاز کا ہو یا گاڑی کا مجھے دوران سفر نیند نہیں آتی ، جس وجہ سے سر درد اور جسم ٹوٹتا ہے “ جیٹ لیگ “ اس کے علاوہ باعث کوفت ہوتا ہے – میں نے “ جیٹ لیگ “ کا یہ توڑ دریافت کیا ہے کہ ہر سفر کے بعد منزل پر پہنچ کر درد کی ، اور رات کو سونے کی گو لیاں لے کر طبعیت بحال ہو جاتی ہے –

پاکستانی وقت کے مطابق جہاز کے عملہ نے صبح چھ بجے کھانا سرو کیا- میں نے ائیر پوسٹس سے پوچھ کیا یہ ناشتہ ہے؟ اس کا جواب تھا نہیں سر It is late dinner and early breakfast – کھانے میں میری پسند کی مچھلی تھی ، ناشتہ سمجھ کر کھا لی بلکہ اہلیہ کے حصے کی بھی کھائی جو بغیر کڑم کے مچھلی کھانا پسند نہیں کرتی — جہاز نے پونے نو بجے اسلام آباد لینڈ کیا-حطار کے ہم سفروں کو خدا حافظ کہہ کے ہم لوگ اپنی گاڑیوں میں چکلالہ نویدہ کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے-

راولپنڈی اور استنبول کے موسم میں ہمارے مارچ جیسا فرق تھا، اس سے گرمی کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے – دم گھٹانے والی گرمی کا سامنا کرنا پڑا – دوائی میں نے جہاز میں ہی لے لی تھی- ساڑھے 10 بجے گھر پہنچتے ہی حسب توفیق ”لم یلیٹ” ہوگئے ، دو بجے جاگ کر ، نہا دھو کے فریش ہوئے، لنچ کیا- میں مظفر آباد اور فہمیدہ منگلہ روانہ ہوگئی- راولپنڈی سے مظفرآباد کا سفر عام حالات میں تین گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ، لیکن بے ہنگم ٹریفک رش اور جیم کی وجہ سے ہمیں گھر پہنچنے میں پانچ گھنٹے لگے- اللہ کا شکر ادا کیا کہ سیر ، سفر اور ہم سفر سب بخیر گزرا-

سیر کا لطف، علمی، جذباتی اور معلوماتی فوائد اپنی جگہ ، لیکن گھر کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے – اب لوگ مکانوں میں رہتے ہیں ، گھر کا تصور ماضی ہو گیا ہے – گھر کے حوالے سے کشمیری میں ایک مقولہ ہے :

“ گر وندۂ گر ساسا بر نیار ہئے نہ زہ “ اس کا مطلب ہے :

اےگھر تجھ پہ ہزاروں گھر قربان کردوں ، لیکن تیرا دروازہ کبھی نہ چھوڑوں“ وہ اس لیے کہ گھروں میں سکون ، پیار، خلوص ، پکے اور سچے رشتے ہو ا کرتے تھے، جو اب الفاظ کی صورت میں کتابوں میں ملتے ہیں، مکانوں اور فلیٹوں میں نہیں –

(جاری ہے . . .)

اس دلچسپ سفری روداد کی ساتویں قسط یہاں‌ پڑھیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے