اسماعیلی فرقے کےاختلافات اور سلسلہ امامت

اسماعیلی اور شیعہ کیمونٹی کے مطابق امام نبی کے حقیقی وصی کو کہا جاتا ہے۔ اسلام کے دوسرے بڑے فرقے اہل تشیع کے دوسرے بڑے گروہ اسماعیلی میں ناطق، وصی اور امام کی اصطلاح نہایت اہم ہے۔ یہ ایک الہی عہدہ سمجھا جاتا ہے۔

اپنے ہر امام کو اسماعیلی فرقے اہل بیت کی ایک فرد سمجھتے ہیں اور ان کو الہی فیض کا سر چشمہ جانتے ہیں۔ صرف پہلے چھ اماموں تک اثنا عشری شیعوں سے ان کا اتفاق ہے۔ ان میں امام ظاہر اور امام مستور کا نظریہ ہے۔

[pullquote]اسماعیلی اور شیعہ اثنا عشر یہ ان چھ آئمہ کو مشترکہ طور پر مانتی ہے .[/pullquote]

علی بن ابی طالب
حسن بن علی
حسین بن علی
زین العابدین
محمد باقر
جعفر صادق

[pullquote]یہاں سے اسماعیلی اماموں کا آغاز ہوتا ہے۔ [/pullquote]

اسماعیل بن جعفر

محمد بن اسماعیل سبعیہ یا ہفت امامی اسماعیلی، ان کو آخری امام جانتے ہیں اور ان کی غیبت کے قائل ہیں۔

وفی احمد پہلے داعی (اسماعیلی کے داعی سلسلہ کا آغاز) تقی محمد دوسرے داعی جبکہ حسین زکی تیسرے داعی ہیں .محمد المہدی چوتھے داعی اور پہلے فاطمی خلیفہ ہیں جنہوں نے علی الاعلان خود کو امام کہا۔

محمد قائم بامرالله
اسماعیل منصور
المعزلدین الله
ابومنصور نزار العزیز بالله
حاکم بامرالله چھٹے فاطمی خلیفہ جو سال 1021ھ میں اچانک ہی غائب ہو گئے و دروزیہ کا عقیدہ ہے یہی مہدی موعود ہیں جو غائب ہو گئے ہیں .

علی ظاہر
معاذ مستنصربالله
یہاں سے اسماعیلیہ کے دو گروہ ہو گئے ایک گروہ نے نزار بن معاذ کو اگلا امام جانا اور دوسرے گروہ نے اگلے فاطمی خلیفہ احمد مستعلی کو امام بنا لیا اسی لحاظ سے نزاریہ اور مستعلیہ کہلائے۔

[pullquote]ائمہ مستعلیہ[/pullquote]

یہاں سے مستعلیہ فرقہ نمودار ہوتا ہے جو خود کو دعوت قدیم والا کہتے ہیں۔

احمد مستعلی
امیر بن مستعلی
طیب ابوالقاسم

[pullquote]یہاں سے مستعلیہ کے دو گروہ ہو گئے۔[/pullquote]

ایک گروہ مستعلیہ طیبیہ ہے اور دوسرا مستعلیہ حافظیہ ہے۔
مستعلیہ طیبیہ کے داعی مطلق
مستعلیہ طیبیہ وہ ہیں جو طیب ابوالقاسم کو اپنا آخری امام جانتے ہیں اور ان کی غیبت کے قائل ہیں۔ اور ان کے نائبین داعی مطلق کہلاتے ہیں۔ ان کو بوہرہ جماعت بھی کہتے ہیں۔ آج کل تمام مستعلیہ، مستعلیہ طیبیہ یا بوہرہ ہی ہیں۔ یہ یمن اور بھارت میں رہائش پزیر ہیں۔

تمام بوہروں کے 26 داعی مطلق مشترکہ ہیں۔ جن کو سب مانتے ہیں۔ بعد میں ان کا داعی مطلق میں اختلاف ہو گیا تو یمن میں ان کو سلیمانی بوہرہ کہا جاتا ہے۔ اور بھارت میں داؤدی بوہرہ کہا جاتا ہے۔ اور جو سنی ہو گئے وہ صغیری بوہرہ کہلاتے ہیں۔

[pullquote]داؤدی بوہرہ کے داعی مطلق[/pullquote]

داؤدی بوہرہ کے ایک بہت چھوٹے گروہ علوی بوہرہ کو 1980 ء سے ضیاء الدین صاحب بطور 44 ویں داعی مطلق گجرات کے علاقہ برودہ میں چلا رہے ہیں۔ داؤدی بوہرہ کے 29 ویں داعی مطلق کے انتخاب پر علی بن ابراہیم کے اختلاف پر اس گروہ کو علوی بوہرہ کہا جاتا ہے۔

[pullquote]مستعلیہ حافظیہ کے ائمہ[/pullquote]

مستعلیہ حافظیہ وہ ہیں جو امامت کو اگلے تخت نشین فاطمی خلفاء میں ہی جاری سمجھتے تھے۔ یہ گروہ فاطمی خلفاء کے ختم ہوتے ہی اختتام پزیر ہو گیا۔

الحافظ
الظافر

[pullquote]ائمہ نزاریہ[/pullquote]

یہاں سے نزاریہ فرقے کا آغاز ہوتا ہے۔ جو ابومنصور نزار بن معاذ المصطفی لدین الله کو خلیفہ مانتے تھے۔ یہ دعوت جدید والے کہلاتے ہیں۔ ان کے مخالفین ان کو (حشاشین) کہتے ہیں۔

نزار بن معاذ
ہادی بن نزار
مہتدی منصور
حسن قاہر
علی ذکره السلام
اعلا محمد
جلال الدین حسن
علاء الدین محمد
رکن الدین خورشاه
شمس الدین محمد

یہاں نزاریہ کے دو فرقے ہو گئے ایک گروہ مؤمنیہ کہلایا جو شمس الدین کے بڑے بیٹے مؤمن کو امام مانتے ہیں۔ دوسرا قاسمیہ جو شمس الدین کے دوسرے بیٹے قاسم شاہ کو امام مانتے ہیں۔ مؤمنیہ کے بقیہ امام یہ ہیں

[pullquote]ائمہ نزاریہ مؤمنیہ[/pullquote]

مومن بن محمد
محمد بن مومن
رضی الدین بن محمد
طاہر بن رضی الدین
رضی الدین دوم بن طاہر
طاہر بن رضی الدین دوم
حیدر بن طاہر
صدر الدین بن حیدر
معین الدین بن صدر الدین
عطیۃ اللہ بن معین الدین
عزیز بن عطیۃ اللہ
معین الدین دوم بن عزیز
محمد بن معین الدین دوم
حیدر بن محمد
محمد بن حیدر (امیر باقر)
یہاں مؤمنیہ نزاریہ کی امامت کا سلسلہ امام محمد بن حیدر امیر باقر، چالیسویں امام پر سنہ ١٢١ ٠ ھ میں رک گیا۔

[pullquote]ائمہ نزاریہ قاسمیہ[/pullquote]

لیکن قاسمیہ نزاریہ کا (یعنی جو قاسم شاہ کو امام مانتے ہیں) امامت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

قاسم شاه
اسلام شاه
محمد بن اسلام شاه
منتصر بالله دوم
عبدالسلام شاه
غریب میرزا
ابوذر علی نورالدین
مراد میرزا
ذوالفقار علی
نورالدہر علی
خلیل الله اول
شاه نزار
سید علی شاه نزار
حسن علی شاه نزار
قاسم علی سید جعفر
ابوالحسن علی باقرشاه
شاه خلیل الله دوم

اور آج کل نزاریہ کے اس بڑے گروہ (یعنی قاسمیہ نزاریہ) کو ان کے آخری چار اماموں کی وجہ سے بعض ممالک میں آغا خانی کہا جاتا ہے۔

[pullquote]آغا خان اول[/pullquote]

[pullquote]آغا خان دوم[/pullquote]

امام علی شاہ آغاخان اوّل ١٢٩٨ھ بمطابق ١٨٨١ء میں ممبئی میں پیدا ہوئے۔ آپ آغاخان ثانی کے نام سے بھی معروف تھے۔ آپ کی پیدائش محلات(ایران )میں ١٢٤٦ھ /١٨٣٠ء میں ہوئی تھی۔آپ کی والدہ ماجدہ کا نام ” شہزادی سرور جہان بیگم تھا "جو ایران کے بادشاہ فتح علی شاہ قاچار کی بیٹی تھی ۔

[pullquote]آغا خان سوم[/pullquote]

سر سلطان محمد شاہ بن امام آغا علی شاہ آغا خان دوم اسماعیلیہ فرقے کے اڑتالیسویں امام تھے۔ آپ نے تقریباً ستر سال امامت کی ہے جو اسماعیلی اماموں میں کسی بھی امام کی امامت سے طولانی امامت ہے۔

[pullquote]آغا خان چہارم[/pullquote]

ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان 13 دسمبر 1936ء کو سوئٹزرلینڈ کے مشہور شہر جنیوا میں پیدا ہوئے۔ 1957ء میں آغا خان سوم کی رحلت کے بعد پرنس کریم آغا خان کو امام بنایا گیا۔ شاہ کریم الحسینی آغا خان چہارم اسماعيلى مسلمانوں کے سب سے بڑے گروہ نزاریہ قاسمیہ جو اب آغا خانی یا اسماعیلی کہلاتے ہیں کے امام ہیں۔ شیعوں کا دوسرا بڑا فرقہ اسماعیلیہ ہے۔ اسماعیلیہ کی سب سے بڑی شاخ آغا خان کے پیروکار نزاری اسماعیلی ہے جو تقریباً دو تہائی اسماعیلیوں پر مشتمل ہے۔

اسماعیلیوں کا دوسرا بڑا گروہ بوہرہ جماعت ہے جن میں امامت کی بجائے داعی مطلق کا سلسلہ ہے۔ اور وہ آغا خان کو امام نہیں مانتے۔ آغا خان چہارم اسماعیلیوں کے 49 ویں امام ہیں اور اغاخان شاہ کریم الحسینی کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ امام آغاخان کو شریعت کی تعبیر و توضیح کے وہ تمام اختیارات حاصل ہیں، جو ان کے پیش روؤں کو حاصل تھے۔ آغا خان کے بارے میں کہاجا سکتا ہے کہ وہ کسی مخصوص قطعہ زمین پر تسلط نہ رکھنے کے باوجود ایسے حکمران ہیں،جو اپنے پیرو کاروں کے دِلوں پر حکومت کرتے ہیں۔ ان کی ہدایت حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے اور اسماعیلی حضرات و خواتین خود کو اس پر عمل کرنے کا مکلف سمجھتے ہیں۔ وہ دورانِ تعلیم میں ہی وہ جانشین بن گئے تھے اور امامت (اسماعیلی) کی اہم ذمہ داری اسی زمانے میں ان کو سونپ دی گئی۔ لیکن 1958ء میں انہوں نے دوبارہ تعلیم حاصل کرنا شروع اور بی، اے کیا . انہوں نے کئی موضوعات پر تحقیقی مقالہ جات بھی تحریر کیے .

اکتوبر 1969ء میں سلیمہ نامی لڑکی سے شادی کی، جن سے تین بچے پیدا ہوئے : (1)زہرہ آغا خان۔ (2)رحیم آغا خان۔ (3)حسین آغا خان۔ 25 سال کے بعد انہوں نے سلیمہ آغا خان کو طلاق دے دی . سلیمہ 2005 کے زلزلے کے دوران اسلام آباد آئی تھیں اور میں ان کے ساتھ کشمیر بھی گیا . دوسری شادی پرنس کریم آغاخان نے 1998 میں بیگم انارہ سے کی جس سے ان کا ایک بیٹا علی محمد آغا خان پیدا ہوا۔ مگر پھر چند سال بعد بیگم انارہ کو بھی طلاق دیدی۔

ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان دنیا بھر میں لوگوں کی مالی، معاشی اور علمی حوالوں سے مدد کرتے رہتے ہیں . ان کا بنایا ہوا ادارہ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے مشہور ہے اور بیک وقت کئی زیلی اداروں کی سرپرستی کرتا ہے۔ پرنس کریم آغاخان کو بین الاقوامی زبانوں میں عبور حاصل ہے۔ وہ انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی زبانیں روانی سے بولتے ہیں۔ مگر عربی اور اردو اٹک اٹک کر بولتے ہیں۔ ان کے مشغلے گھوڑ دوڑ اور اسکیٹنگ، فٹ بال، ٹینس اور کشتی رانی ہیں۔ ایک قول کے مطابق وہ کسی زمانے میں ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے اسکیٹنگ کے اولمپک چمپین بھی بنے تھے۔

سبوخ سید

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے