پہلے تحریک آزادی کشمیرکا رُخ ٹھیک کریں

بھارتی سرکار کی طرف سے ریاست کی خصوصی حثیت کے خاتمے کے بعد کی صورتحال سے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ کہ دہلی سرکار کے اس عمل میں تخت اسلام آباد پوری طرح شریک اور معاون ہے اور درپردہ الحاق کی حامی جماعتوں کی سیاسی قیادت وزیراعظم آزاد کشمیر اور موجودہ اسمبلی بھی تقسیم کشمیر کی سازش میں پوری طرح شریک ہے.

تحریک آزادی کے کاروبار سے منسلک طبقات نے ستر سالہ روایتی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوئے بے نتیجہ اور پراکسی وار طرز کے حامل احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جبکہ آزادی پسند محب وطن طبقہ بھی درست سمت کے تعین کے بغیر بھارتی اقدام کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے.

بھانت بھانت کی بولیوں میں مختلف تجاویز پیش کی جا رہی ہیں. جبکہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم پاکستانی سیاست دانوں کے ترلے کر رہے ہیں کہ وہ آزاد کشمیر کا دورہ کریں اور وزیراعظم ان کا استقبال کر کہ "چراغ بیگ” کی یاد تازہ کریں یعنی ریاست کے وزیراعظم سمیت تمام روایتی سیاسی جماعتیں اس صورت حال کو سمجھنے سے قاصر ہیں.

اب اس صورتحال میں جموں کشمیر کے باسیوں کو 70 سالہ پراکسی وار کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے "مشترکہ قومی بیانیہ” دینا ہو گا.دنیا اب دہرے معیار کو تسلیم نہیں کرتی ، ایک طرف آپ بھارت سے آزادی کامطالبہ بھی کر رہے ہیں اور دوسری طرف بھارت کے ساتھ خصوصی تعلق بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں، یہ دہرہ معیار کیوں؟

ایک طرف گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز ختم کرکہ اسے پاکستان کے پانچویں صوبے کی حثیت دیتے ہیں اور دوسری طرف ریاست میں یہی کام بھارت کرے تو قبول نہیں کیا جاتا جب ساری ریاست متنازع ہے تو صرف بھارتی حصے کی بات کیوں؟ گلگت بلتستان آزاد کشمیر میں دوہرا معیار کیوں؟

میری آزادی پسند جماعتوں کی قیادت، کارکنان اورایسے تمام محب وطن افراد سے اپیل ہے کہ جو اپنی ریاست بچانا اور اسے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں پوری ریاست جموں کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ قانون کی اصل شکل میں بحالی کی بات کرنا ہو گی اور 1947 میں موجود ہری سنگھ کی ریاست کی وحدت کو بحال کرنے کی بات کرنی ہو گی.

جہاں تک احتجاج کا تعلق ہے تو اب جو لوگ تحریک آزادی کے” کاروبار” سے منسلک رہے ہیں، جن میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم، ممبران اسمبلی،حریت کانفرنس کی لیڈرشپ،ریاستی بیوروکریسی اور ان سب کے آقا پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی قربانی کا وقت ہے۔ ان سب کی نسلیں بھی جنت میں جانے کا حق رکھتی ہیں.غریب کشمیری ریاست کے تینوں حصوں میں ستر سال سےقربانیاں دے رہا ہے .اب ریاستی عوام کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اور مکمل آزادی کیلئے ان طبقات سے قربانی دینے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

اگر پھر بھی احتجاج کا ہی شوق ہے تو ریاستی اسمبلی کے ذمہ داران ،حریت کانفرنس کے خلاف احتجاج کیا جائے کیونکہ انہوں نے اپنے حقیر مفادات کیلے ریاست کو تقسیم کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے اپنی شناخت کے حصول کی خود جدوجہد کی بجائے دیگرلوگوں کو اپنا وکیل بنایا جس کے نتیجے میں‌ ریاست کی جبری تقسیم کی راہ ہموار ہوئی.اب بھی ہماری سمت درست نہ ہوئی تو ہماری داستان تک بھی نہیں ہو گی داستانوں میں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے