کشمیر اور خدا کی لاٹھی

مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے، کیا ہم خدا کی لاٹھی کے متحرک اور دعاؤں کے مستجاب ہونے کا انتظار کریں گے؟
ریاست اور حکومت کا وظیفہ یہی ہے کہ وہ درپیش مسائل کا حل عالمِ اسباب میں تلاش کرے۔ اگر وہ بھی آسمان کی طرف دیکھنے اور ماورائے اسباب کسی غیبی مدد کا انتظار کرنے لگے تو پھر اس کی بے بسی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا کی لاٹھی حرکت میں آتی ہے لیکن انسانوں کو اپنے حصے کا کام خود کرنا پڑتا ہے۔ ہم خدا کے ارادوں کو نہیں جانتے کہ وہ کب اپنی لاٹھی کو حرکت میں لاتا ہے۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟

مسئلہ کشمیر موجودہ حکومت کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ اِس کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ ستر سالہ مسئلے کو چشمِ زدن میں حل کر دے۔ حکومت کو عالمِ اسباب کے دائرے ہی میں قدم اٹھانا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے باب میں بھارت کے اقدام نے ایک نئی صورتِ حال کو جنم دیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ماضی کی طرح، یہ حکومت بھی اہلِ کشمیر کی ‘اخلاقی اور سفارتی حمایت‘ جاری رکھتی اور کوئی اضطراب پیدا نہ ہوتا۔ اس نئی صورتِ حال میں پاکستان کو ایک نیا موقف اختیار کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ موقف کیا ہونا چاہیے؟

میرے نزدیک یہ موقف کچھ اس طرح ہونا چاہیے: ”کشمیر کو اقوامِ متحدہ نے ایک متنازعہ علاقہ قرار دیا ہے۔ بھارت کا تاریخی موقف بھی یہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق، اس مسئلے کا مستقل حل استصوابِ رائے ہے۔ بھارت نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔ علاوہ ازیں، شملہ معاہدہ اور اعلانِ لاہور جیسے باہمی معاہدوں میں بھی کشمیر کو متنازعہ علاقہ مانا گیا ہے؛ تاہم گزشتہ ستر سالوں میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں یک طرفہ طور پر ناجائز آباد کاری اور دیگر پالیسیوں سے خطے کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔

بھارت کے یہ اقدامات اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور باہمی معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزی ہے۔ پاکستان پہلے بھی ان اقدامات کے بارے میں عالمی برادری کو متوجہ کرتا آیا ہے؛ تاہم 5 اگست کا اقدام اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ بھارت نے بین الاقوامی یقین دہانیوں اور باہمی معاہدوںکو یک طرفہ طور پر مسترد کردیا ہے اور بالفعل ان معاہدوں سے نکل چکا ہے۔ یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کو اس پر مجبور کرے کہ وہ بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرے اور باہمی معاہدوں کی پاسداری کرے۔ بصورتِ دیگر پاکستان کے پاس اخلاقی اور سفارتی جواز ہو گا کہ وہ بھی باہمی معاہدوں سے نکل جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا وقت آنے سے پہلے بین الاقوامی ادارے اور برادری اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ امن کے لیے اقوامِ متحدہ اور عالمی قوتوں کا بروئے کار آنا ناگزیر ہے۔ مظلوم اقوام کے حقِ رائے دہی کے لیے اقوامِ متحدہ کا غیر مؤثر ہونا، عالمی امن کو خطرات میں ڈال دے گا‘‘۔

یہ موقف دو امور کا اظہار ہو گا۔ ایک یہ کہ پاکستان اپنے تاریخی بیانیے پر قائم ہے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان نے مستقبل میں اپنے لیے سب امکانات کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ ان امکانات میں جنگ بھی شامل ہے۔ جنگ کے بارے میں یہ واضح ہے کہ اس کے لیے شرعی اور سفارتی دونوں حوالوں سے باہمی معاہدوں کا اعلانیہ خاتمہ ضروری ہے۔ اس موقف سے کشمیریوں کو بھی یہ پیغام ملے گا کہ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ بھارتی تسلط کی قبولیت ہی واحد راستہ نہیں ہے۔

اس موقف کی آبیاری کے لیے پاکستان کو ایک موثر حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ میرے نزدیک اس کے دو اجزا ہیں۔ ایک اخلاقی اور دوسرا مادی۔ 5 اگست کے بھارتی اقدام نے پاکستان کو ایک اخلاقی برتری دلا دی ہے۔ پاکستان کو اسے برقرار رکھنا ہے۔ اس کے لیے ایک تو یہ ضروری ہے کہ پاکستان ایک مثالی جمہوری ریاست بنے جس میں انسانی آزادیٔ فکر و عمل کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان تب ہی کشمیریوں کی آزادی کا علم بردار بن سکتا ہے جب اس کے اپنے شہریوں کو یہ آزادی پوری طرح میسر آئے۔ اگر پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر قدغن ہوگی۔ اقلیتوں کے بارے میں شکایات ہوں گی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی تو عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ کمزور ہو گا۔
دوسرا ہے پاکستان کا معاشی استحکام۔ اگر کل اسے کوئی بڑا معرکہ لڑنا پڑے تو مادی اسباب کی کمی آڑے نہ آئے۔

بھارت کو بھی معلوم ہو کہ پاکستان معرکہ آرائی کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ اب بہ آسانی جانا جا سکتا ہے کہ کون سا ملک کتنے دن کی جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے۔ معاشی استحکام، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ موجودہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی استحکام کے امکانات مسلسل معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاسی استحکام حکومتی ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں۔ ایسی حکومت کبھی کوئی بڑا معرکہ نہیں لڑ سکتی۔

سیاسی استحکام کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ قومی ادارے متنازعہ نہ بنیں۔ اگر ان میں کشمکش کا تاثر ہو گا تو بیرونی دشمن کا سامنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر ملک کو کسی خارجی جارحیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو لازم ہے کہ پوری قوم اپنی سپاہ کی پشت پر کھڑی ہو۔ اس بات کو رومان کے بجائے حقیقت کی نظر سے دیکھنا ہو گا۔

سب سے اہم کشمیریوں کا ردِ عمل ہے۔ کشمیر کی سیاسی قیادت کو سوچنا ہو گا کہ فی الحال انہیں اپنا مقدمہ تنہا لڑنا ہے۔ اس کا واحد راستہ سیاسی جدوجہد ہے۔ کشمیری قیادت کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ انسانی جانوں کا مزید ضیاع نہ ہو۔ بھارت نے کشمیریوں کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ متحد ہو جائیں۔ سرِ دست انہیں دو نکات پر سیاسی اتحاد بنانا چاہیے۔ ایک سیاسی سرگرمیوں کی بحالی اور دوسرا بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35A کے مقدر کو مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی رائے سے مشروط کرنا۔ بھارتی آئین بھی یہی کہتا ہے۔ ان دونوں جائز مطالبات کے لیے پاکستان کو ان کی بھرپور اخلاقی اور سفارتی مدد کرنی چاہیے۔

لگتا ہے کہ پاکستان نے سلامتی کونسل میں جانے کا فیصلہ عجلت میں کیا ہے۔ اس اقدام سے پہلے یہ کوشش کی جانی چاہیے تھی کہ سلامتی کونسل کے زیادہ سے زیادہ ارکان پاکستان کی تائید کریں۔ اس وقت تو مستقل ارکان میں سے چین کے علاوہ کسی کی حمایت کا امکان کم ہی دکھائی دے رہا ہے۔ غیر مستقل ارکان میں بھی کوئی ایک ایسا نہیں ہے جو پاکستان کو بھارت پر ترجیح دے۔ کیا انڈونیشیا؟ کیا کویت؟ اگر پاکستان کو یہ اندازہ ہو کہ اسے زیادہ ارکان کی حمایت نہیں مل سکتی تو پھر سلامتی کونسل جانے سے گریز کرنا چاہیے۔

پاکستان کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ عالمی برادری بھارت کا یہ اقدام کم ازکم سفارتی سطح پر مسترد کر دے اور ‘سٹیٹس کو‘ برقرار رہے۔ اس کے ساتھ وہ ایک بھرپور معرکے کے لیے خود کو تیار کرے۔ اس کے لیے مادی اور اخلاقی برتری ضروری ہے۔ یہ سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ اخلاقی برتری اسی قوم کو مل سکتی ہے جس کی سیاسی قیادت اخلاقی مطالبات کو اہم سمجھتی ہو۔ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ معرکہ ہمیں تنہا ہی لڑنا ہو گا۔ امت مسلمہ جیسے واہموں سے اب ہمیں باہر آنا ہے۔ طالبان نے بھی اشارہ دے دیا ہے کہ وہ پاک بھارت محاذ آرائی میں فریق نہیں اور افغانستان کے امن کو اس کا یرغمال نہیں بننے دیں گے۔

میں نے یہ تجویز یہ فرض کرتے ہوئے دی ہے کہ پاکستان کو ایک ناگہانی صورتِ حال کا سامنا کر نا پڑا ہے اور اس نے اب اپنے سفارتی موقف کا دفاع کرنا اور اسے زندہ رکھنا ہے۔ اگر معاملہ اس سے مختلف ہے۔ بھارت، عالمی برادری اور پاکستان کسی حقیقت پسندانہ حل کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں تو پھر ہمیں وہی کچھ کرنا چاہیے جو ہمارے وزیر خارجہ کہہ رہے ہیں۔ ہمیں انتظار کرنا چاہیے کہ کب خدا کی لاٹھی حرکت میں آتی ہے اور کب ہماری دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے