مودی کا کشمیرسے ہزارسالہ غلامی کا انتقام (آخری قسط)

2.ہندوستان کے اس عمل سے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کے علاوہ ہندوستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدے بھی متاثر ہو گئے ہیں جن میں شملہ معاہدہ ، لاہور اور اسلام آباد ڈیکلریشن سر فہرست ہے – ہندوستان نے ان معاہدوں کو عملاًختم کردیا ہے ۔اب پاکستان کو اپنا موقف دنیا اور سلامتی کونسل پر واضح کر دینا چاہیے کہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور ہند و پاکستان باہمی معاہدوں کے ان حصوں کے علاوہ جن پر عملدرآمد ہوگیا ہے یا مسلسل ہورہا ہے ، باقی باطل ہو گئے ہیں جن سے پاکستان برأت کا اظہار کرے –

3-اب کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان کے دو طرفہ مسئلہ ہونے کی رٹ ختم ہو گئی ہے، CFL بحال ہو گئی ہے ، پاکستان مسئلہ کو سلامتی کونسل میں لے گیا ہے ،جس کے ایجنڈے پر یہ پہلے سے موجود ہے -ہندوستان اور پاکستان جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں ، کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں جس کے اثرات نہ صرف پاکستان پر پڑ رہے ہیں بلکہ دنیا بھر میں آباد کشمیریوں کے حوالے سے دنیا پر پڑ رہے ہیں ،جس سے دنیا بھر کے امن کو خطرہ ہے –

نیلسن منڈیلا نے درست کہا تھا Injustice some where is injustice every where . اب یہ ہندوستان کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ اس کی سرحدوں سے نکل کر دنیا بھر کو متاثر کر رہا ہے -کشمیر میں گزشتہ کئی دنوں سے کرفیو، مواصلات لاک ڈاؤن ، لوگوں کا گھر میں محصور رہنا، ہندوستانی مسلح افواج کا ظلم وستم ، کشمیریوں کو بالجبر ہندوستان بنانا ، مذہبی رسو مات پر پابندی ، کھانے پینے کی چیزوں کا قحط والی کیفیت ایسٹ تیمور سے زیادہ بد تر ہے ، اس لئے اُسی طرح کے ایکشن کی ضرورت ہے – سلامتی کونسل نے پاکستان کی درخواست پر سولہ اگست کو کشمیر کی صورت حال ہر بحث کے لئے اجلاس طلب کر لیا ہے جو بہت ہی خوش آئند ہے –

حکومت کو اپنا ہوم ورک مکمل کرنا چاہیے، دنیا بھر میں دوست ملکوں کی مدد اور اعانت کو یقینی بنانا چاہیے ، پس پردہ سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل ممبران سے بھر پور لابی کرنا ضروری ہے – اپنے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرکے آگے بڑھنا پڑے گا –

4-کشمیر ایک قانونی مسئلہ ہے جو تقسیم ہند کے قانون کی روشنی میں ہی حل ہو گا اور اس کے حل کے لئے سلامتی کونسل نے رہنما اصول مقرر کر دیے ہیں جو رائے شماری ہے – پاکستان کو بھی پورے کشمیر پر اپنا قانونی حق جتلانے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ہندوستان جتلا رہا ہے – اس پر proactive / Aggressive ہونے کی ضرورت ہے – پاکستان کو اپنے آئین کی دفعہ ایک میں ترمیم کرکے ’’ تابع نتائج رائے شماری ‘‘ پوری ریاست کو اپنا حصہ قرار دینا چاہیے تاکہ اس کا کلیم بھی ہندوستان کے برابر ہو، ورنہ ہندوستان ریاست کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر پاکستانی قبضہ کی حیثیت کو ایکسپلائٹ کرے گا –

5-آزاد کشمیر کو پوری ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت قرار دے کراس کو تسلیم کرنا بھی ایک اچھا آپشن تھا تاکہ اس کو اقوام متحدہ میں نمائندگی ملتی – لیکن یہ بھی قانونی طور ممکن نہیں تھا کیونکہ تخت برطانیہ کی طرف سے 8اکست کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا تھا کہ اگر کوئی ریاست خود مختاری کا اعلان کرے گی اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اگر کوئی ملک ایسا کرے گا وہ افسوس ناک ہوگا – 9 اگست کو دوسرے مراسلہ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ کوئی بھی ریاست سوائے دو مینینز Dominos کے براہراست کامن ویلتھ کے ساتھ رابطہ رکھنے کی مجاز نہیں ہوگی – بہ ایں ہمہ یہ موقعہ بھی کشمیری قیادت اور پاکستان نے چو بیس اکتوبر 1947 کی حکومت کے تشخص کو بحال نہ رکھ کر ضائع کر دیا ہے ، سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے بعد ایسا کرنا ممکن نہیں رہا کیونکہ ان قرار دادوں کی وجہ سے کشمیر کے مہاراجہ کے الحاق کو در خور اعتنا نہ لاکر سلامتی کونسل نے اس کو بالواسطہ رد کر دیا ہے ، جو ہماری سب سے بڑی فتح ہے، اس فتح کو جذباتی فیصلے کے زریعہ سلامتی کونسل کی قرار داد کی نفی کر کے دنیا کی ہمدردیاں ضائع کرنا عقلمندی نہیں –

تاہم حکومت پاکستان ، آزاد کشمیر کے صدر یا وزیر اعظم کو بہ لحاظ عہدہ کشمیریوں کا نمائندہ تسلیم کر کے دنیا بھر میں ان کوپاکستان کی طرف سے گشتی سفیر قرار دے اور اپنے سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کرکے تحریک کشمیر ان کے ذریعہ چلانے کا اہتمام کرے، مظلوم کی بات ہر کوئی سنتا ہے، دعویداروں کے ساتھ ویسی ہمدردیاں نہیں ہوتیں اور اگر دعویدار کمزور ہو، وہ تو مرگ مفاجات مقدرہے –

اس کے لئے آزاد کشمیر حکومت کو بھی آئین کے دیباچے اور دفعہ 11 کے تقاضے پورے کرنے کے لئے مشیر رائے شماری مقرر کرنا چاہیے-

گوکہ قانون آزادئ ہند اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت ہمارے پاس ہندوستان اور پاکستان کی صرف دو آپشن ہیں، لیکن پاکستان کے آئین کی دفعہ 257 کے تحت یہ گارنٹی موجود ہے کہ ’’اگر کشمیر ی پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں تو الحاق کی شرائط ان کی مرضی کے مطابق طے کی جائینگی‘‘ اس میں آزادی اور خود مختاری مضمر ہے – کشمیری مہاراجہ کے وقت کی طرح کاتعلق رکھ سکتے ہیں ، کنفریڈیشن بنا سکتے ہیں – ’’مرضی‘‘ اپنی ذات کے اندر ایک وسیع معنی رکھتی ہے – اس لئے یہ کوئی ایشو نہیں ہے-

6-آزاد کشمیر کی حکومت کشمیر لبریشن سل یا الیکشن کمیشن کے ذریعہ دنیا بھر میں آباد ریاستی باشندوں کی ڈائیریکٹری مرتب کرے ، ان سے رابطہ قائم کرکے ان کو متحرک کرے ، ہندوستان نے اگر پہل کرکے غیر ریاستی باشندوں کو ووٹر لسٹوں میں شامل کرکے ڈیمو گرافی تبدیل نہ کردی ہو، اس کے ذریعہ الیکٹرانک ریفرنڈم کرائے ، یہ ایک ارتعاش پیدا کردے گا –

ان حالات میں ایک آپشن یہ بھی ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں وادئ کشمیر، صوبہ جموں اور لداخ کے معروف نمائندوں پر مشتمل ریاست جموں کشمیر کی جلا وطن حکومت بنائی جائے جسے پہلے پاکستان تسلیم کرے پھراپنے دوست ملکوں سے تسلیم کرائے، جس کے ذریعہ سفارت کاری کرے – اس میں کشمیری ہندو، بدھ ، سکھ ، مسلمان شامل ہوں -یہ ایک بہت اچھی سفارت کاری ہوگی –

7-پاکستان کی سفارتکاری سے افغانستان امن عمل اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے، امریکی فوجوں کے نکلنے پر تقریباًاتفاق ہو گیا ہے لیکن اگر پاکستان کی اپنی سالمیت داؤ پر لگ گئی ،جس کا سیز فائر لائین پر نوے فیصد امکان ہے ، پاکستانی فوج کی توجہ ادھر منتقل ہو جائیگی کیونکہ اس کی پہلی ذمہ داری ملکی سرحدوں کا تحفظ ہے جس وجہ سے یہ عمل ختم ہو جائےگی- امریکہ پر واضح کر دینا چاہیے کہ جب تک ہندوستان سلامتی کونسل کی قرار دادوں، باہمی معاہدوں، اپنے آئین کے مغائیر ریاست کشمیر کی شناخت ختم کرنے والا قانون ختم اور فوجیں امن والی پوزیشن پر نہیں لے جاتا ، پورا افغان عمل معطل ہو جائیگا، امریکہ اپنی سفارتی اور سیاسی زمہ داری پوری کرے-

8-وزیر اعظم مودی کے کہنے پر صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش اب مشکوک ہو گئی ہے کیونکہ اس کے فوراً بعد اس نے کشمیر کی بین الاقوامی اور آئینی حیثیت ختم کردی ہے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقوں کو بھی یو نین ٹیریٹری قرار دیا ہے – اب ثالثی کا مطلب ان علاقوں کو ہندوستان کو واپس کرنا یا اسی پر گزارہ کرنا ہے – لہٰذا پاکستان ٹرمپ کو کہے کہ امریکہ خود یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں لے جائے ، مقبوضہ کشمیر کو یو این پیس کیپنگ فوجوں کے حوالے کرائے اور ایسٹ تیمور کی طرز پر وہاں استصواب رائے کرائے ، جس کے بعد یکسوئی سے افغان عمل کو جاری کیا جائے-

9- پاکستان اور آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں ملکی، قومی سلامتی ، سیاسی استحکام اور قومی ناموس کی خاطر بیرون ملک اپنی اپنی جماعتوں کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے بجائے صرف پاکستانی مفاد کی سیاست کریں – ہر کوئی سیاسی لیڈر بیرون ملک جانے پر کشمیر کے ایشو کے ہر پہلو پر تیار ہو کے جائے -کوئ پیغام لے کے جائے ، سب اس کی پذیرائی کریں، ملک کے اندر جس جماعت کے ساتھ چاہیں وابستگی رکھیں لیکن بیرون ملک جاتے وقت یہ سیاست ائیر پورٹ پر چھوڑ کر جائیں -بیرون ملک یہ جماعتیں جتنا زور ، توانائی، پیسہ اور وقت ایک دوسرے کی تذلیل، تحقیر اور توہین پہ ضائع کرتے ہیں ،وہ ہندوستان کو بے نقاب کرنے اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے پر لگائیں –

پاکستان بہتر سال سے جس بیانیہ پر چل رہا ہے اس سے آج تک کوئی بریک تھرو نہیں ہوئی ، بلکہ سراسر خسارہ ہی رہا – اب ہر محاذ اور ہر قدم پر aggressively proactive ہونا پڑے – لیکن اس سب سفارت کاری اور تیاری کے ساتھ ساتھ کشمیر کے ہر پہلو پر مسلسل ہوم ورک اور سمجھنے کی ضرورت ہے- اس کے پیچ وخم ، دنیا بالخصوص پاکستان اور ہندوستان کے لئے اس کی اہمیت، اس کے ہر خطے کے زمینی حقائق ، لوگوں کے رجحان ، ان کی روشنی میں اس کا ممکنہ حل پر ہمہ وقت غور کرتے رہنے اور پبلک کئے بغیر دستاویزی صورت میں محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ بوقت ضرور کام آئے-

(ختم شد)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے