بھکاری کے جوتے۔۔۔

ڈیفنس کی ایک گلی میں ایک بھاگتا ہوا لڑکا داخل ہوا۔ میلا کچیلا لیکن صحت مند لڑکا، لمبا لڑکا، جو شاید کئی دن سے نہایا نہ ہو یا جس کے پاس پہننے کے لیے ایک ہی جوڑا ہو اور جسے زندگی نے بڑے دنوں سے یہ جوڑا دھونے کا موقع نہ دیا ہو۔

لڑکا بھاگتے بھاگتے پیچھے مڑ کر دیکھتا جیسے کوئی دشمن اس کے تعاقب میں ہو۔

ڈیفنس کی گلیوں میں لوگ عام طور پر بھاگتے نہیں۔ پیدل بھی صرف مزدور ملازم ہی چلتے نظر آتے ہیں۔ ڈیفنس کے باسی کو دوسری گلی میں بھی جانا ہو تو ڈرائیور کو کہتے ہیں گاڑی نکالو اور اے سی چلا دو۔

ڈیفنس کی گلیوں میں حادثے بھی کم ہی ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی دھت ڈرائیور کسی بھولے بھٹکے رکشے پر گاڑی چڑھا دیتا ہے یا کوئی چودہ پندرہ سال کا لونڈا ریس ڈرائیور بننے کے شوق میں کسی پیدل چلنے والے کو روند دیتا ہے۔

ایسے حادثے کے بعد گھر کے ایک ملازم کو قربانی دینی پڑتی ہے اور چند برسوں کے لیے جیل جانا پڑتا ہے تاکہ مستقبل کا ریس ڈرائیور اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔

جس وقت بھاگتا ہوا، میلا کچیلا لڑکا میری گلی میں داخل ہوا میرے ایک ہاتھ میں شریف سے کتے کی زنجیر تھی، دوسرے ہاتھ میں ایک شرارتی بچے کا ہاتھ۔ ہم ڈیفنس کی پُرسکون گلیوں کی سیر کو نکلے تھے۔

جس طرف سے لڑکا آیا تھا ادھر سے ایک گاڑی لپکی، پولیس کی گاڑی لیکن پیلے رنگ کی۔ لڑکے نے جیسے ہی گاڑی کو گلی میں داخل ہوتے دیکھا اس نے بھاگتے بھاگتے اپنی چپل عین سڑک کے بیچ میں پھینکی، بھاگنے کی رفتار بڑھائی، اگلی گلی کے بیچ میں مڑا یہ جا، وہ جا۔

کراچی میں بھکاریوں کے انسداد کا ایک چھوٹا سا محکمہ ہے۔ تعاقب کرنے والی گاڑی کی سائیڈ پر بڑے حروف میں لکھا تھا ’ہم نے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنا ہے۔‘

گاڑی بھاگتے لڑکے کے تقریباً برابر آگئی، لڑکا رکا نہیں اور ایک ساتھ والی گلی میں گھس کر میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں اور میری سیر کرنے والی ٹیم سڑک کے عین بیچ میں پڑی چپل کی رکھوالی کے لیے کھڑے ہوگئے۔

میں یہ بھی سوچتا رہا کہ چند سیکنڈ پہلے میرا دل اس لڑکے کے ساتھ کیوں بھاگ رہا تھا اور چاہ رہا تھا کہ پولیس اسے نہ پکڑ پائے۔ چور سپاہی کے مقابلے میں ہم جبلی طور پر چور کی سائیڈ کیوں لیتے ہیں اور اگر چور پکڑا ہی گیا ہے تو سڑک کے عین بیچ پڑے اس کے جوتوں کا کیا کرنا چاہیے۔ مجھے تقریباً یقین تھا کہ لڑکے کے پاس جوتوں کا دوسرا جوڑا نہیں ہو گا۔

بھکاری گشتی پولیس کی گاڑی واپس آئی۔ اس دفعہ آہستہ چلتے ہوئے میں نے ہاتھ دے کر گاڑی کو روکا، گاڑی چلانے والے حوالدار سے کہا کہ وہ جو لڑکا آپ لوگوں نے پکڑا ہے اس کے جوتے یہاں پڑے ہیں لے جاؤ۔

اس نے بیزاری سے ربر کی چپل کی طرف دیکھا اور کہا وہ لڑکا نہیں پکڑا گیا، بھاگ گیا۔ دل میں ہلکی سی خوشی محسوس ہوئی، دل نے یہ بھی کہا کہ یہ خوشی قانون سے بغاوت ہے۔

میں نے کہا بھاگا کیسے، آپ نے تو گاڑی اس پر تقریباً چڑھا دی تھی۔ اس نے کہا چوکیداروں نے اسے کسی گھر میں چھپا لیا ہے۔ مجھے تھوڑی تسلی ہوئی کہ صرف میری ہمدردی ہی قانون سے بھاگنے والوں کے ساتھ نہیں ہمارے ڈیفنس کے چوکیدار بھی ان کے سہولت کار ہیں۔

بھکاریوں کو پکڑ کے ان کا کیا کرتے ہو۔ میں نے معصوم صحافی کی ادا سے پوچھا۔ ایف آئی آر کاٹتے ہیں اور جیل بھیج دیتے ہیں۔

اور پھر؟ اب میں نے عظیم صحافیوں کے سٹائل میں پوچھا۔ دس پندرہ دن جیل میں رہتے ہیں پھر چھوڑ دیتے ہیں اور پھر؟

میں نے اپنی جارحانہ صحافت جاری رکھی۔

پھر کیا، ادھر ہی۔ اس نے ہاتھ ہوا میں اٹھا دیے جیسے کہہ رہا ہو تم جیسے ڈیفنس والوں اور تمھارے چوکیداروں کے ہوتے ہوئے ہم کیا کر سکتے ہیں، اس نے گاڑی آگے بڑھائی اور بھکاریوں کے انسداد کے ناممکن مشن پر روانہ ہو گیا۔

جوتے سڑک کے بیچ میں پڑے تھے۔ میں کچھ لمحے تذذب میں رہا کہ جوتوں کی رکھوالی کی جائے یا سڑک چھاپ صحافت جاری رکھی جائے اور چوکیداروں سے انٹرویو کیا جائے کہ انھوں نے اس میلے کچیلے لڑکے کو پناہ کیوں دی۔

اچانک وہی لڑکا لمبے لمبے قدم اٹھاتا، دائیں دیکھتا، بائیں دیکھتا، پیچھے دیکھتا گلی سے نمودار ہوا اور اپنے جوتوں کی طرف لپکا۔ میں نے اپنی تحقیقاتی صحافت اس پر آزمانی چاہی۔

میں نے کہا کیوں پکڑ رہے تھے تمھیں۔ اس نے کندھے اچکائے۔ اسے آزاد صحافت یا ڈیفنس کی گلیوں میں کتے اور بچے کے ساتھ چہل قدمی کرتے صحافی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

میں نے کہا یہ تو بھکاریوں کو پکڑتے ہیں اور پھر ڈرتے ڈرتے کہا یا نشہ کرنے والوں کو پکڑتے ہیں۔ تم نے کیا کِیا تھا۔ میں مزدوری کرتا ہوں اس نے کہا نہ بھیک مانگتا ہوں نہ نشہ کرتا ہوں۔

یہ پورا محکمہ ہی غریبوں کو تنگ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ وہ دائیں، بائیں اور پیچھے کو دیکھتا سمندر کی طرف چل پڑا۔

یومِ آزادی مبارک

یومِ سیاہ مبارک

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے