سلامتی کونسل کا آج کا اجلاس۔ معاملہ بہت گنجلک ہے

عوامی جمہوریہ چین کا شکریہ۔ ہمارا حقیقی دوست ہوتے ہوئے اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مجبور کردیا ہے کہ پاکستان کی اس درخواست پر غور کے لئے ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے جس کے ذریعے مودی سرکار کی جانب سے بھارتی آئین کے آرٹیکل370کے یکطرفہ خاتمے کے باعث اُبھرنے والی صور تحال کو زیر بحث لانے کا مطالبہ ہوا ہے۔ یہ کالم چھپنے کے دن یعنی 16اگست بروز جمعہ کو مطلوبہ اجلاس بلالیا گیا ہے۔مذکورہ اجلاس کا ہنگامی بنیادوں پر بلائے جانا یقینا ہمارے اطمینان کا باعث ہونا چاہیے۔ اگرچہ وہ مصرعہ بھی ہر صورت ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ’’…وہ منزل ابھی نہیں آئی۔‘‘میرے خدشات کے عین مطابق فرانس نے مذکورہ اجلاس کو ہنگامی بنیادوں پر بلانے کی مخالفت کی۔ سفارت کاری کے تمام تر ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے کوشش کی کہ یہ اجلاس اگست کے چوتھے ہفتے کے کسی دن منعقد ہو۔

کشمیر کا مسئلہ وہاں بھی ’’متفرق‘‘ یا "Any other Business”شمار کرتے ہوئے بند کمرے کے اجلاس میں "Informal”یعنی گپ شپ کے انداز میں زیر بحث آئے۔ فرانس کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ 16اگست کا اجلاس البتہ میڈیا کی نگاہوں سے بچاکر ’’بند کمرے‘‘ میں منعقد ہوگا۔اس اجلاس کو کتنے وقت کے لئے چلانا ہے اسے طے کرنے کا اختیار سلامتی کونسل کے موجودہ صدر کے پاس ہے۔ ان دنوں یہ منصب پولینڈ کے پاس ہے۔پولینڈ کسی زمانے میں کمیونسٹ کیمپ کا اہم ترین ملک شمار ہوتا تھا۔ کمیونزم کے خلاف عوامی بغاوت کا آغاز بھی لیکن اس ملک میں بندرگاہ کے مزدوروں کی ایک تحریک سے ہوا تھا۔ اسے کچلنے کے لئے مارشل لاء لگادیا گیا تھا۔سردجنگ کے اختتام کے بعد پولینڈ یورپ سے کہیں زیادہ امریکہ کالاڈلا ہوچکا ہے۔پولینڈ میں ان دنوں کی حکومت ٹرمپ کے نظریات کی بہت گرویدہ ہے۔

اپنے ہاں بھی مسلم دشمنی اور نسل پرستی کو فروغ دے رہی ہے۔میری ناقص رائے میں لہذا سلامتی کونسل کا موجودہ صدر ہماری جانب سے پیش ہوئی درخواست پر غور کے لئے وہی انداز اپنائے گا جس کا ’’مشورہ‘‘ واشنگٹن کی جانب سے آئے گا۔اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹھوس حقائق تک رسائی کے بغیر میں ربّ سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے باضابطہ انداز میں رجوع کرنے سے قبل ہمارے سفارت کاروں نے وائٹ ہائوس سے رابطے استوار کرلئے ہوں گے۔ امریکی صدر کو پیغام پہنچادیا گیا ہوگا کہ حال ہی میں 22جولائی کے روز پاکستان کے وزیر اعظم کو دائیں ہاتھ بٹھاکر اس نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی امید دلائی تھی۔آرٹیکل 370کے یک طرفہ خاتمے نے جنوبی ایشیاء کو تباہ کن جنگ سے بچانے کے لئے بین الاقوامی کردار کی اہمیت اجاگرکردی ہے۔

پولینڈ پر اپنا اثرورسوخ بروئے کار لاتے ہوئے امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں متحرک بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔امریکہ سے اقوام متحدہ کے تناظر میں دوستانہ کردار کی توقع رکھتے ہوئے اگرچہ میں اس حقیقت سے بے خبر نہیں کہ ٹرمپ اس ادارے کو ہرگز کوئی وقعت نہیں دیتا۔وہ کسی عالمی ادارے کے بجائے بذاتِ خود ’’ثالث‘‘ بننے کا شوقین ہے۔سفارت کاری کے ضوابط اور بندھے ٹکے طریقہ کار کو وقت کا زیاں تصور کرتا ہے۔ہمیں مگر ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ اسے ثالثی کاوعدہ مستقل یاد دلاتے رہنا چاہیے۔چین کی حمایت کا دل وجان سے شکریہ ادا کرتے ہوئے ہمیں یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ ان دنوں ڈونلڈٹرمپ کے امریکہ نے ہمارے یار پر تجارتی جنگ مسلط کررکھی ہے۔تجارتی جنگ کے علاوہ تازہ ترین قضیہ ہانگ کانگ میں دس ہفتوں سے جاری ہنگاموں کی صورت بھی نمودار ہوچکا ہے۔

ہانگ کانگ کئی دہائیوں تک برطانیہ کی نوآبادی رہا۔ عوامی جمہوریہ چین نے بہت صبر سے جاری رکھی سفارتی جنگ کے ذریعے بالآخر اسے ’’آزاد‘‘ کروایا۔ ہانگ کانگ کو اپنی تحویل میں واپس لیتے ہوئے مگر وعدہ کیا کہ وہاں کئی دہائیوں سے قائم سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھا جائے گا۔چین کا Mainlandکمیونسٹ رہے گا لیکن ہانگ کانگ کو ’’خصوصی حیثیت‘‘ یا نپی تلی ’’خودمختاری‘‘ میسر رہے گی۔

آج سے دس ہفتے قبل مگر 70لاکھ کی آبادی والے ہانگ کانگ میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ امن وامان کا جزیرہ مشہور ہوئے ہانگ کانگ میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے۔ پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے ذریعے ان پر قابو پانا چاہا تو مشتعل نوجوانوں نے اس پر ’’مزاحمتی حملے‘‘ شروع کردئیے۔ اس ہفتے کے آغاز میں مظاہرین نے ہانگ کانگ کے ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیا۔وہاں اوسطاََ روزانہ 150پروازیں لینڈ کرتی تھیں۔ ایک جہاز بھی لیکن اُترنہ پایا۔ نہ ہی مظاہرین نے وہاں سے کسی جہاز کو پرواز کی اجازت دی۔فضائی روابط کو روکنے کے بعد مظاہرین نے ہانگ کانگ میں پبلک ٹرانسپورٹ کے جدیدترین اور قابلِ رشک نظام کو بھی مفلوج بنادیا۔دو دن قبل ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے مظاہرین کو سختی سے کچلنے کا فیصلہ کرلیا۔مظاہرین پر گولیاںبھی برسائی گئی ہیں۔ دُنیا بھر میں یہ خوف پھیلا ہوا ہے کہ اگر ہانگ کانگ کی پولیس مظاہرین پر قابو پانے میں ناکام رہی تو چین بالآخر اپنی افواج وہاں اُتارنے پر مجبور ہوجائے گا۔

عوامی جمہوریہ چین کا سرکاری میڈیا چند امریکی سفارت کاروں کے باقاعدہ نام لے کر مسلسل الزام لگارہا ہے کہ ہانگ کانگ میں پھوٹے حالیہ ہنگاموں کو ’’سامراجی پشت پناہی‘‘ حاصل ہے۔ ڈونلڈٹرمپ مذکورہ الزام کو نظرانداز کرتا رہا مگر گزشتہ دودِنوں سے اپنے ٹویٹس کے ذریعے اپنی ’’معصومیت‘‘ اور غیر جانب داری کا دعویٰ کرنا شروع ہوگیا۔ اب اس نے ہانگ کانگ کی تازہ ترین صورت حال پر ’’تشویش‘‘ کا اظہار کرنا بھی شروع کردیا ہے۔

ہانگ کانگ کی تازہ ترین صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی سفارت کار اب بہت لگن سے اس کوشش میں مصروف ہوگئے ہیں کہ 16اگست کو طلب کئے جانے والے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال زیر بحث لانے کے علاوہ عوامی جمہوریہ چین سے ہانگ کانگ کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جائیں۔مذکورہ اجلاس فقط آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد اُبھرنے والی صورت حال تک محدود نہ رہے۔ کشمیر کے ساتھ ہانگ کانگ پر بھی تفصیلی بحث ہو۔پاکستانی سفارت کاروں کا فوری چیلنج اب 16اگست کو طلب کئے جانے والے اجلاس کو مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال کو زیربحث لانے تک محدود رکھنا ہوگا۔

امریکہ کا کردار اس تناظر میں ایک بار پھر کلیدی ٹھہرے گا۔ چین کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کے موسم میں امریکہ اور اس کے حواری ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ کے تحفظ کے لئے کشمیر کے مقابلے میں ہانگ کانگ میں ’’بنیادی حقوق‘‘ کی مبینہ پائمالی کے بارے میں آواز بلند کرنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔نام نہاد ’’فری مارکیٹ‘‘ کا تحفظ سرمایہ دارانہ نظام کے لئے ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔ برطانیہ کو بھی یورپی یونین سے نکلنے کے بعد ہانگ کانگ کی ’’تاریخی اہمیت‘‘ اور اس سے استوار ہوئے نوآبادیاتی رشتے یاد آجائیں گے۔ فرانس کا بھارت کی جانب جھکائو تو اب عیاں ہوچکا۔ چین کے علاوہ ہمیں اب روس کے بھرپور تعاون کی بھی ضرورت ہوگی۔ روس کو مگر حال ہی میں بھارت نے جدید ترین میزائل فراہم کرنے کا آرڈر دیا ہے۔ اربوں ڈالر کا سودا ہے اور ان میزائلوں کی بھارت میں تنصیب امریکہ کوبھی پسند نہیں آئے گی۔

معاملہ بہت گنجلک ہے۔ دُنیا بھر میں آپادھاپی کا ماحول ہے۔ ہر ریاست عالمی سطح پر دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے تقریباََ ’’مقدس‘‘ شمار ہوتے اصولوں کو بھلاکر فقط اپنے مفادات کو قوم پرستی کی عصبیت میں ترجیح دے رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے لہذا ضرورت سے زیادہ توقعات نہ باندھی جائیں۔ مقبوضہ کشمیر پر نازل ہوئی حالیہ قیامت سے نبردآزما ہونے کے لئے ہمیں ایک طویل سفارتی جنگ لڑنا ہوگی۔ سکیورٹی کونسل کا بند کمرے میں ہوا فقط ایک اجلاس اس کا مداوا نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے