سیلف اسٹڈی کا وبال

ہمارے معاشرے میں جب سے سیلف اسٹڈی کا زہر پھیلا ہے اس سے نہ صرف استاد و شاگرد کا رشتہ ٹوٹا ہے بلکہ انسان سے وہ عاجزی اور اخلاق تک چھین گیا ہے جو کبھی میوے سے بھری ہوئی شاخ کا گمان دیتا تھا ۔ وہ وصف جو استاد سے سلوک کی منازل طے کرکے آتا تھا _ کھوگیا ہے۔ حتیٰ کہ ایک کم علم یا معمولی تعلیمی سند والا سیلف اسٹڈی کی بنیاد پر اگر عزت پاجائے اور اسکو بالفرض استاد کا درجہ ملنے لگ جائے تو اسکا رویہ شکر و عاجزی کی بجائے متکبرانہ ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ اب علم رخصت ہوچکا اور علم کے نام پر معلومات کا انبار ہے ۔جس سے اچھے بھلے دیکھنے والے بھی علمی بدہضمی کا شکار ہیں۔ اسی سیلف اسڈی کی خباثت نے انکساری کی جگہ تکبر اور دوسرے کے لئے استہزاء اور ٹھٹہ لے لیا ہے۔

فیس بک قطعاً کسی بھی طرح کا علمی فورم نہیں۔ یہاں پر اسی سیلف اسڈی کی بنیاد پر جھوٹ بولنا اور خود کو عالم فاضل جتانا عام ہے۔ یقین جانیئے یہاں پر آپ کو کمپاؤنڈر سے لیکر پروفیشنل میچیؤر ڈاکٹرز تک مل جائیں گے۔

الیکٹیشن سے لیکر الیکٹریکل انجیئنرز تو مستری سے لیکر میکینکل اینجینئر یا پھر اختلافی مسائل پر دماغ میں بھرا مواد لیکر اختلاف اور مخالفت کا فرق بھلایا شخص اور ایک اعلیٰ پائے کا عالم بھی یا پھر رنگ چونے والے سے لیکر ایک پروفیشنل فائین آرٹیسٹ تک مل جائے گا۔

سیلف اسٹڈی کی برکت پایا طبقہ خود کو ببانگ دہل ڈگری یافتہ بتائے گا بلکہ اس سے بھی چار گنا آگے۔ لیکن انکے حقیقی شعبوں کا پتا انکے رویؤں سے ہی چلے گا۔ انکی دوستی دشمنی سے چلے گا۔

آپ کو اگر فیس بک پر کسی کی شخصیت جانچنا ہے تو اسکی وال اور ڈی پی ضرور دیکھئے۔ اسی لئے آج کل جب رشتے دیکھے جاتے ہیں تو فیس بک کی آئی ڈی بہت اسمارٹلی لے لی جاتی ہے جس سے انسان کی شخصیت اسکے رجحان کا ایک خاکہ سامنے آجاتا ہے کہ کس طرح کی سوچ رکھتا ہے اور کتنا ” فرصت سے فارغ ” ہے ۔ اور اسکی سوچ کس طرف ہے۔

مثلاً جس لڑکے کی ہر پوسٹ عورت کو ہی لیکر ہو یا وہ خود ساختہ پروفیسر جو تعلیم دے رہا ہو کہ عورت کیسے پٹائی جائے یا پھر جس عورت کی وال پر یا تو کھانے یا میک اپ کی تصویریں ہوں یا وہ لڑکی جو کہ ویڈیوز عشقیئہ شاعری اور سیلفی کی بھرمار رکھتی ہو یا پھر شگوفے چھوڑ کر کمینٹس میں ریپلائی میں ھی ھی ہاہا کرتی ہو تو ان کی شخصیت کا انداذہ آرام سے ہوجائے گا۔ لاکھ لڑکی کہے کہ میں تو بی حجن ہوں نہیں مانا جائے گا اور لاکھ لڑکا کہے کہ میں تو عورت سے کوسوں میلوں دور رہتا ہوں یا عورت میرے اعصاب پر سوار نہیں _ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اور جب ایسے ہی لوگ سیلف اسٹڈی کرتے ہیں تو انکا زعم علم انکے ایک ایک الفاظ و افکار سے چھلکا پڑتا ہے۔

اپنی عام معاشرت میں اپنے رویوں سے لوگوں کی ہتک کرنا اور لوگوں میں نفرت پھیلا کر تنہائی کا شکار ہونا پھر شکایتی رویہ اپنانا عام ہے۔ کیونکہ ایسوں سے پھر لوگ پناہ مانگتے ہیں اور کنی کترا جاتے ہیں۔ پھر ایسے ہی لوگ جب فیس بک پر آتے ہیں تو اپنی ان ہی عادات و روش کی بناپر اہل علم سے بلاک کھاتے ہیں۔

اپنے رویؤں کی جانچ کیجئے۔ اپنے ذوق کے مطابق سیلف اسٹڈی ضروری کیجئے لیکن کسی نا کسی کو استاد ضرور بنایئے۔

اس سے سوال جواب کیجئے۔ اور استاد بھی اس بات کو گرہ سے باندھ لیں کہ اگر کوئی شخص آپکو استادی کا منصب دے رہا ہے تو شاگرد کی عزت و احترام اور عزت نفس کو مجروح کرنا آپکی خود کی ذلت کا باعث ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے