غزوہ ہند کا فسانہ !

غزوہ ہند والی روایت سند کے لحاظ سے بھی کمزور ہے اور متن کے لحاظ سے غریب سمجھ لیں بلکہ عجیب و غریب ـ اگر تو یہ امت کا معاملہ تھا تو ہمیں یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتانی چاہئے تھی اور بر سر منبر جمعے کے خطبے میں بتانی چاہئے تھی یا صحابہ کے مجمع عام میں اور اس کا راوی ایک نہیں درجنوں تو ضرور ہی ہونے چاہئئے تھے ،یہ ثوبانؓ کا ذاتی معاملہ نہیں تھا کہ ان کے کان میں بتا دیا جاتا کہ آپ کی بکری کو اس دفعہ میمنا ہو گا ،، پھر غزوہ ہمیشہ اس جنگ کو کہا جاتا تھا جس کی قیادت رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہو جبکہ جو لشکر ترتیب دے کر بھیجا گیا ہو اس کو سریہ کہا جاتا تھا ،، یہ ھند میں کس نبی کی قیادت میں غزوہ ہو گا ؟

پھر ھند پر باہرسے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر نے 44 ھجری میں یلغار کی تھی ،، مگر اس کو اس کا مصداق اس لئے نہیں سمجھتے کہ ابوھریرہؓ کی روایت میں یہاں سے مسلمان فارغ ھو کر واپس پہنچیں گے تو عیسی علیہ السلام کا نزول ہو چکا ہو گا اور وہ ادھر شام ان کے لشکر کے ساتھ جا ملیں گے ،، دوسری جانب عیسی علیہ السلام کے نزول اور دجال کے خروج کا وقت فتح قسطنطنیہ بخاری شریف میں بیان کیا گیا ہے ، تیسری جو منظر کشی کی گئ ہے کہ غلاموں اور لونڈیوں کو زنجیریں پہنا کر لایا جائے گا تو وہ اب ناممکن ہے البتہ فتح قسطنطنیہ کے زمانے میں ہی ممکن تھا نیز حضرت ابوھریرہؓ نے رسول اللہ سے فرمایا کہ میں جب عیسی علیہ السلام سے ملونگا تو ان کو بتاؤں گا کہ مجھے آپ کی صحبت ملی ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کھکھلا کر ہنس دیئے اور فرمایا کہ ھیہات ھیہات ـ پھر محمد بن قاسم بھی غزوہ ھند کر گیا ہے اور محمود غزنوی بھی ۱۷ کر گیا ہے ،غوری بھی کر گیا ہے ،شیر شاہ سوری کر گیا ہے احمد شاہ ابدالی اور پتہ نہیں کون کون آ کر اس کو تاراج کرتا رہا ہے لونڈیاں اور غلام بناتا رہا ہے ، آخر وہ اس نام نہاد بشارت کے مصداق کیوں نہ ہوئے جبکہ وہ ہم سے زیادہ متقی تھے ؟ پھر ہماری انڈیا سے لڑائی تو خانہ جنگی شمار ہوتی ہے کیونکہ ہم کوئی باھر سے ھند پر تو حملہ آور نہیں ہوئے ، ہم بھی ھند میں بھی رہتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے زمانے کا ہند تو پاکستان اور بنگلہ دیش بھوٹان اور نیپال حتی کہ برما تک شمار ہوتا تھا ،، پاکستان کو نکال کر صرف انڈیا کا نام ہند تو رسول اللہ ﷺ نے نہیں رکھا تھا ،،

دین کو لوگوں نے الف لیلی کی داستان سمجھ لیا ہے ، جس کا نام دین ہے اس کو پہنچانا محمد رسول اللہ ﷺ کا فرضِ منصبی تھا ، وہ کبھی بھی کسی ایک بندے پر منحصر نہیں ہو سکتا ، جیسا کہ قرآن کے معاملے میں کوئی قریب ترین صحابیؓ بھی نہیں کہہ سکتا کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی آیت اس کے کان میں بیان کر کے چھوڑ دی ہو بلکہ ہمیشہ اس کو لکھوایا ، اور بار بار نمازوں میں اس کو پڑھا ، دوسروں کے کاپی کرنے کا اہتمام کیا یہانتک کہ آج قرآن کا کوئی ایک راوی نہیں پوری امت راوی ہے ، اسی طرح قرآن کے عملی پہلو کا بھی اہتمام فرمایا اور اپنے عمل سے اس کو سنت بنا کر چھوڑا اور یہ سنت بھی عملی طور پر پوری امت لے کر چلی ـ اگر دین لوگوں تک پہنچا کر رب کے حضور حاضر ہونا ہے تو یہ یقینی بنانا بھی ضروری ھے کہ وہ پہنچا یا نہیں پہنچا ؟ میدانِ عرفات میں جو گواہی لی گئ تھی،الا ھل بلغت ؟ کیا میں نے دین پہنچا دیا ؟ قالو بلی، قد بلغت الرسالہ و ادیت الامانہ ونصحت الامہ و کشفت الغمہ ،، اس کے ساتھ ہی آیات نازل ہوئیں الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا ، آج تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا گیا ہے اور تم پر نعمت کا اتمام کر دیا گیا ہے اور اسلام کو تمہارے لئے بطور نظامِ حیات پسند کر لیا گیا ہے ـ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ابھی تو آدھے سے زیادہ دین گم تھا جو بعد میں اونٹ سواروں نے صحراؤں اور قصبوں دیہاتوں سے جا کر دریافت کیا جس کی تصدیق کرنے کو نبوت موجود نہیں تھی پھر بھی وہ دین تھا اور اس طرح دین تھا کہ نہ صرف نبوی دور کے احکامات کو منسوخ و معطل کر سکتا تھا بلکہ خود قرآن میں بھی کمی بیشی کر سکتا تھا ؟

رسول اللہ ﷺ نے جو گواہی لی اور صحابہؓ نے جو گواہی دی اور اللہ پاک نے جو ان دونوں گواہیوں کی تصدیق فرما دی اس کے بعد بھی دین وکی لیکس کی طرح ٹکڑوں میں دریافت ہوتا رہا ؟ کیا یہ ممکن تھا کہ ثوبان سے ایک بات دین کی کر دی اور ثوبان گھر پہنچ کر فوت ہو گئے تو ان کے ساتھ ہی دین کا وہ حصہ بھی فوت ہو گیا کیونکہ اس کا کوئی دوسرا شاہد ہی نہیں ؟،، یا ابوھریرہؓ سے جنگل میں کسی دیوار کے پیچھے بیٹھ کر فرما دی ، کوئی تیسرا گواہ نہیں ،ابوھریرہؓ کو خدانخواستہ جنگل میں موت آ لیتی تو دین کا وہ حصہ بھی ان کے ساتھ شھید ہو جاتا ،، دین اگر ھر صحابیؓ سے کی گئ بات کا نام ہوتا تو سب سے زیادہ روایتیں ابوبکر صدیقؓ بیان کرتے جن کے ساتھ 62 سال کا ساتھ تھا ، انہوں نے ٹوٹل ۳۰ باتیں بیان فرمائیں اور وہ بھی اس وقت جب کوئی مسئلہ درپیش ھوا تو رسول اللہ ﷺ کا ریفرنس دے کر اس کو عمل کی شکل دے دی ، دورہ حدیث نہیں کروایا ،، احادیث کو رواج دینے کے لئے مدراس نہیں بنائے گئے نہ ہی ان کو جمع کرنے کا حکم دیا گیا ، اس لئے کہ یہ روایتیں مختلف لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی ذاتی باتیں تھیں جو ہر زندہ انسان اپنے دوست و احباب سے ان کے مزاج کے مطابق کرتا ھے اور ان کے ذاتی مسائل یا کسی نفسیاتی مسئلے کا حل بیان کرتا ہے ، کیا رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر صدیقؓ سے ساری زندگی بس تیس جملے ہی بولے تھے ، عمر فاروق سے بس ۷۰ باتیں ہی کی تھیں ؟

انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی سالوں کی بات چیت اور گفتگو Conversation کو دین بنا کر کیوں پیش نہیں کیا ؟ اس لئے کہ وہ دین اور اس کی فارمیشن کو بخوبی جانتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتی گفتگو الگ چیز ہے اور بطور دین آپ کا فرمان ایک الگ چیز ہے [ ایک چیز ہے ملکی قانون، جو پورے ملک کے لئے ہے اس کے بارے میں پرویز مشرف سال میں ایک دو آرڈی نینس نکالتا تھا ، مگر گفتگو تو وہ دن رات کرتا رہتا تھا ، اپنے ڈرائیور سے بھی، اپنے گارڈ سے بھی اپنی بیوی اور دوست و احباب سے بھی کیا وہ ساری گفتگو قانون بن گئ ہے اور کیا اس کو تمام عوام پر لاگو کیا جا سکتا ہے ؟ قانون یعنی دین بننے کا ایک پروسیجر ہے اس پروسیجر سے گزرے بغیر وزیر اعظم کا اٹھایا گیا کوئی قدم بھی قانون نہیں کہلا سکتا ،یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے،] دین وہی ھے جس کو بطور دین مجع عام میں بیان کیا گیا ، اورامت کو مخاطب بنا کر اس کی ذمہ داری بنا کر بیان کیا گیا کہ تمہیں کیا کرنا ہو گا ِ باقی سب دستی بم ہیں جو امت کا تراہ نکالنے اور اپنے درجات بلند کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ـ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے