واز شریف اور جنرل ضیاالحق کی میراث

جنرل ضیاالحق کو دنیا سے رخصت ہوئے اکتیس سال ہو گئے۔ کیا مرحوم کے بارے میں تاریخ نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا؟

میں نے زندگی میں جو چند بڑے اجتماعات دیکھے ہیں، ان میں سے ایک جنرل ضیاالحق مر حوم کا جنازہ بھی ہے۔ خلقِ خدا اس طرح سے امڈ آئی تھی کہ تا حدِ نظر انسانی سروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ لوگ زار و قطار رو رہے تھے۔ رونے والوں میں ایک میں بھی تھا‘ جو اُس وقت اسلامی انقلاب کے قافلے کا ایک نا قابلِ ذکر ہم سفر تھا۔ بائیس سال کا ایک نوجوان جو یہ خیال کر رہا تھا کہ میرِ کارواں رخصت ہوا۔ اب کون لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گا؟ اس کے خواب بکھر گئے تھے۔

پھر میں نے اُن کے مرقد کو بھی دیکھا۔ کئی بار۔ حسرت کی بولتی تصویر: ‘نوحہ خواں نہ سہی فاتحہ خواں ہی سہی!‘ چراغ اور پھول تو خیر دور کی بات، معلوم نہیں کتنے عرصے بعد کوئی بھولا بھٹکا راہ گیر یہاں سے گزرتا اور مغفرت کے لیے اپنا ہاتھ اٹھاتا ہو گا۔ اب ایسا نہیں کہ یہ قبر کسی ویرانے میں ہے۔ یہ اسلام آباد کا وہ مقام ہے جہاں شب و روز انسانوں کا ہجوم رہتا ہے۔ یہ سیر گاہ بھی ہے اور عبادت گاہ بھی۔ فیصل مسجد کے ساتھ بلکہ اس کے ہمسائیگی میں۔

قبر تو خیر کیا ہے، مٹی کا ڈھیر۔ کبھی مٹ بھی جاتی ہے۔ اس ڈھیر پر انسانوں کا اکٹھ کسی کی عظمت کو ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ خلقِ خدا کا ہجوم کہیں بھی جمع ہو جاتا ہے۔ برسی یا عرس کے اجتماع کسی کی عظمت کی نشانی ہیں نہ مغفرت کی۔ اللہ تعالیٰ کبھی لوگوں کے دلوں کو بھی مزار بنا دیتا ہے جہاں یاد کا دیا ہمیشہ روشن رہتا ہے۔ یا یہ کہ کوئی تاریخ کے ایک مستند حوالے کے طور پر مجالس اور کتب میں زندہ رہتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ضیاالحق مرحوم کا معاملہ یہ بھی نہیں۔ جو ان کے نام لیوا تھے، اب ذکر سے بھی گریزاں ہیں۔ کوئی خود کو ان کا جانشین نہیں کہتا، وہ بھی نہیں جن کو مرحوم نے دعا دی تھی کہ ان کی عمر انہیں لگ جائے۔

یہ سب کیا ہے؟ فراموشی کا یہ عالم کیوں؟ کیا ان کی کوئی سیاسی میراث نہیں؟ اگر ہے تو پھر وارث کون ہے؟ وہ رونے والے کہاں گئے؟ جنازے کے کاروان کے مسافر کیا ہوئے؟ سیاست ان کے ذکر سے خالی کیوں ہے؟ یہ کیسا المیہ ہے کہ ان کے نام لیوا آج بھٹو کا حوالہ تو دیتے ہیں، ان کا نام تک نہیں لیتے؟ کیا یہ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ انہیں فراموش کر دیا جائے؟ قلم زد!

جنرل ضیاالحق کی میراث کیا تھی؟ افغانستان کی جنگِ آزادی جسے جہادِ افغانستان کہا گیا۔ پاکستانی معاشرے کی تشکیلِ نو، ریاست کی اسلامی تشکیل اور نواز شریف۔ میں نواز شریف سے آغاز کرتا ہوں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے مزاج میں فسطائیت تھی۔ اس نے ان کے مخالفین کی فہرست کو طویل تر کر دیا تھا۔ اس میں اسلامی انقلاب کے علم بردار تھے اور سوشلسٹ انقلاب کے داعی بھی۔ میاں طفیل تھے اور معراج محمد خان بھی۔ ولی خان تھے اور اچکزئی بھی۔ اگر نعیم صدیقی ان کے زخم خوردہ تھے تو حبیب جالب بھی۔ پیر پگاڑا جیسے جاگیردار تھے تو میاں شریف جیسے صنعت کار بھی۔ صلاح الدین اور الطاف حسن قریشی ہی نہیں، حسین نقی بھی ان کے ستم گزیدہ تھے۔ اپنے دورِ اقتدار میں بھٹو صاحب دریا دلی کے ساتھ اس فہرست کو طویل سے طویل تر کرتے گئے۔ مخالفت کے دیگر اسباب اس پر مستزاد تھے۔

اس کے باوجود ‘نئے پاکستان‘ میں جو 1970ء کے بعد وجود میں آیا تھا، وہ سب سے مقبول راہنما تھے۔ کسی سیاسی قوت کے بس میں نہیں تھا کہ تنہا ان کا مقابلہ کر سکے۔ مخالفین نے یہ رازجان لیا اور اپنے نظریاتی اور گروہی اختلافات بھلا کر ان کے خلاف متحد ہو گئے۔ 1977ء کے انتخابات میں ان کی توقعات کے بر خلاف ایک عجیب الخلقت اتحاد وجود میں آ گیا جسے ‘پاکستان قومی اتحاد‘ کا نام دیا گیا۔

اس اتحاد کا سر اگر سبز رنگ کا تھا تو دم سرخ تھی۔ کمر کسی اور رنگ کی تھی اور ٹانگیں کسی اور رنگ کی۔ جنرل ضیاالحق جب بھٹو صاحب کو ہٹا کر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو ان کی عوامی قوت سے خوف زدہ تھے۔ انہیں یہ بھی اندازہ تھا کہ بھٹو صاحب کو اگر آزادانہ سیاسی سرگرمیوں کا موقع دیا گیا تو ان کا برسرِ اقتدار رہنا مشکل ہو جائے گا۔

یوں انہوں نے ایک طرف بھٹو صاحب کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا اور دوسری طرف ان کے مخالفین کو ایک لیڈر کے زیر سایہ جمع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سیاست پیسے کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ان کی نظرِ انتخاب میاں شریف مرحوم کے صاحب زادے نواز شریف صاحب پر پڑی۔

شریف خاندان کے پاس پیسہ تھا اور یہ بھٹو صاحب کے زخم خوردہ بھی تھے کیونکہ بھٹو عہد میں ان کی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ وہ پاکستانی کلچر کا ٹھیٹ نمونہ تھے جنہیں ایک عام آدمی آسانی سے قبول کر سکتا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے موزوں آدمی ہو سکتے تھے۔ یوں نواز شریف کی ذات میں بھٹو مخالف جذبات کی سیاسی تجسیم ہو گئی۔ اسلامی جمہوری اتحاد جیسے سیاسی اتحادوں نے انہیں موقع فراہم کیا اور تمام بھٹو مخالف طبقات ایک چھتری تلے جمع ہو گئے۔ جماعت اسلامی سمیت، تمام بھٹو کی مخالف جماعتیں دھیرے دھیرے اپنے ووٹ بینک سے محروم ہوتی چلی گئیں۔ اب ان کے سیاسی راہنما نواز شریف تھے۔

افغانستان کو سوویت یونین سے آزادی دلانے کے لیے جو جنگ لڑی گئی، اس کے نتائج بھی جنرل ضیاالحق کی وراثت ہے۔ اس باب میں دو آرا ہیں کہ یہ پاکستان کو روس کی توسیع پسندی سے بچاؤ کی تدبیر تھی یا امریکہ کو واحد عالمی قوت بنانے کی سازش۔ نتیجہ اس کا امریکہ کا بلا شرکتِ غیرے عالمی اقتدار ہی نکلا۔ اس کی قیمت ساری دنیا بھگت رہی ہے اور ہم بدرجہ اولیٰ۔

اس جنگ کے لیے جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے پاکستان کو تہذیبی، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر برباد کر دیا۔ مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، سماجی روایات کی بربادی، فساد‘ اور مذہب کی توہین، وہ چند بڑے نتائج ہیں‘ جو اس پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ یہ ایک ایسی غلطی تھی جس کے انڈے بچے پورے ملک میں پھیل گئے۔ چالیس سال گزر جانے کے بعد بھی ہم خود کو اس کے اثرات سے نکال نہیں پائے۔ ضیاالحق صاحب نے پاکستانی سماج کی تشکیلِ نو کر دی۔

ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ اور اس طرز کے چند دوسرے اقدامات کی حقیقت بھی اب کھل چکی۔ یہ اقتدار کے دوام کے لیے عوام کے مذہبی جذبات کے استحصال کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس عمل کے نتیجے میں انہوں نے مذہبی طبقات کو سیاسی و معاشی رشوت دی اور یوں مسجد و محراب کے تقدس کو مجروح کیا۔ ان کے اقدامات نے دینی مدارس کے سماجی تعارف ہی کو بدل ڈالا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کے بعد مذہب آج تک اپنا سماجی و اصلاحی کردار ادا نہیں کر سکا جس طرح ہماری روایت میں کرتا آیا ہے۔ اب مذہب فرقہ واریت کا موضوع ہے یا سیاسی بیانیوں کا عنوان۔ مذہب کے ساتھ ہمارا رومانوی تعلق بری طرح مجروح ہوا۔

یہ جنرل ضیاالحق کی کل میراث ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے، ان سوالات کے جواب تلاش کیے جا سکتے ہیں، جو میں نے کلام کے آغاز میں اٹھائے ہیں۔ میرے نزدیک اگر اس میں سے کچھ مثبت برآمد ہوا تو وہ نواز شریف ہیں۔ وہ بھی اُس وقت جب وہ مرحوم کے سیاسی اور مذہبی تصورات سے آزاد ہوئے۔ آج وہ مذہبی ہم آہنگی، تہذیبی احیا، جمہوری اقدار، علاقائی امن کی علامت ہیں۔ آج ان کی بیٹی کو بھٹو کا نام لیتے ہوئے تکلف نہیں ہوتا‘ جب جمہوریت کی بات ہوتی ہے۔

آج نواز شریف کا ذکر آتا ہے تو لوگ 1980ء کے دور میں جا نکلتے ہیں۔ وہ اس ارتقا کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو اس دوران میں ہو چکا۔ وہ فرشتہ ہیں نہ مثالی لیڈر لیکن لمحۂ موجود میں ان اقدار کی علامت ہیں، جن کو اپنانے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔ نواز شریف ضیاالحق کی میراث ضرور ہیں‘ لیکن لمحۂ موجود میں، اس کی تلافی بھی ہیں۔ اکتیس سال بعد تھیسس سے اینٹی تھیسس پیدا ہو چکا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے