مصنوعی انٹیلی جنس کا ایندھن

رواں سالوں میں گیان کے دو سب سے بڑے دروازے کتب اور اخبارات آخری ہچکیاں لے کر موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ شاید یہ کبھی مکمل طور پر مر تو نہ سکیں لیکن یہ موت سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر یعنی کوما کی حالت میں جا رہے ہیں۔ ہم سب ایسا ہوتا دیکھ رہے ہیں مگر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ کتب اور اخبارات بینی تو شروع دن سے ہی ایک مسئلہ رہا لیکن یہ سب بھی تیزی سے انٹرنیٹ پر منتقل ہو رہا ہے۔ ادھر انٹرنیٹ کا سب سے بڑا میدان سوشل میڈیا ہے جہاں علم کم اور معلومات زیادہ ہیں اور ان میں بھی جعلی اطلاعات یا فیک نیوز کی بھرمار۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں انسانی سوچ کا تعین باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی اگر سوچ پر قابو پالیں تو آپ انسان پر قابو پالیتے ہیں۔ تو یہ سوچ پر قابو پانے کا ہتھیار ہے۔ جانتے ہیں کیسے؟

دراصل کمپیوٹر سکڑ کر موبائل فون میں آچکے ہیں اور آپ کے زیر استعمال موبائل فون اور انٹرنیٹ پر استعمال کی جانے والی مختلف اپلیکیشنز سے آپ کی پسند ناپسند، سیاسی، مذہبی رجحانات، میل ملاپ دوستیاں، دشمنیاں، محبت نفرت سب جانچا جا سکتا ہے۔ یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ آپ روزانہ جاتے کہاں ہیں اور کس کس سے ملتے ہیں؟ یہ سب کچھ آپ خود اپنی جیب میں موجود انٹرنیٹ سے لیس موبائل فون کے ذریعے ٹیکنالوجی کی متعلقہ کمپنیوں کو بتا رہے ہیں۔ اپنی مکمل رضا اور خوشی کے ساتھ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تمام معاملات انسان کی ذاتی زندگی کے غیر علانیہ راز تھے جو اب ٹیکنالوجی انٹرنیٹ پر افشا کر دیتی ہے۔

کسی بھی فرد یا گروہ کے بارے میں اوپر بیان کی گئی تمام معلومات انٹرنیٹ پر موجود ڈیٹا کے تجزیے کے بعد حاصل کرنے کی تکنیک میں مصنوعی ذہانت یا Artificial Intelligenceشامل ہے یعنی معاشرے کی بنیادی اکائی‘ انسان کے بارے میں معلومات روزانہ کی بنیاد پر ٹیکنالوجی کمپنیوں کے پاس ڈیٹا کی صورت منتقل ہو رہی ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، اس وقت دنیا میں سب سے بڑا انٹیلی جنس ڈیٹا کسی خفیہ ادارے کے پاس نہیں بلکہ ان ٹیکنالوجی کمپنیوں کے پاس ہے جن کے صارفین دنیا بھر میں اربوں کی تعداد میں پہنچ چکے ہیں۔ ظاہر ہے ان کمپنیوں میں فیس بک، گوگل، ٹویٹر اور وٹس ایپ وغیرہ سرفہرست ہیں۔

مصنوعی انٹیلی جنس صرف کسی خطے، ملک، معاشرے یا گروہ کے بارے میں مخصوص معلومات کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ہی نہیں بلکہ ان معلومات کی بنیاد پر افراد کے رجحانات کو تبدیل کرنے کے طریقہ کار کو بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لئے اب ریاستوں کی توجہ کا اصل مرکز مصنوعی انٹیلی جنس ہے کیونکہ یہ بیک وقت آپ کو معلومات سے بھرپور ڈیٹا اور ذہنی رجحانات بدلنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ شرط صرف یہ کہ متعلقہ فرد یا گروہ کے پاس انٹرنیٹ پر کام کرتا ایک موبائل کنکشن ہو۔ ابتدا میں انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا نے سال 2011میں مصر میں تبدیلی کو یقینی بنایا تو سال 2016میں ترکی میں فوجی بغاوت کچلنے میں منتخب صدر طیب اردوان کی مدد بھی کی لیکن مصنوعی انٹیلی جنس کی اصل طاقت کو سب سے پہلے روس نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

اس حوالے سے امریکہ میں ہونے والے سال 2016کے انتخابات کی مثال ہی لے لیجئے۔ امریکہ میں عام تاثر یہی ہے کہ روس نے امریکی انتخابات میں مبینہ مداخلت کی اور ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کے بارے میں اسی مصنوعی انٹیلی جنس کے ذریعے ووٹروں کے رجحانات تبدیل کر دیئے، نتیجے میں ٹرمپ امریکی صدر بن بیٹھے۔ امریکی انتخابی نظام میں غیر ملکی مداخلت کے الزامات نے شدت پکڑی تو امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشنز یعنی ایف بی آئی کے طویل عرصہ تک سربراہ رہنے والے رابرٹ میولر کو اس معاملے کی تحقیقات سونپی گئیں۔ میولر نے اپنی تحقیقات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے روس کے ساتھ کسی گٹھ جوڑ کو تو مسترد کر دیا لیکن انتخابات میں روسی مداخلت کی کوشش کا انکشاف کیا۔ یہ دنیا کے بظاہر سب سے طاقتور ملک کی طرف سے مصنوعی انٹیلی جنس کے میدان میں روسی برتری کا اعتراف بھی تھا۔

امریکہ کی مثال سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اب طاقت کا توازن اسی کے حق میں ہوگا جس کے کنٹرول میں سوشل میڈیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں ہوں گی۔ یہ کمپنیاں چاہیں تو کسی بھی وقت کسی کے حق یا مخالفت میں بازی پلٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ظاہر ہے ان کمپنیوں سے ڈیٹا اور مصنوعی انٹیلی جنس کی سب سے بڑی صارف ریاستیں یا امیر ترین لوگ ہی ہوں گے۔ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو اظہار کی طاقت دی ہے اور بہت سے مسائل بھی حل کیے ہیں مگر اس نے دور بیٹھے لوگوں کو ہمارے نزدیک اور قریب بیٹھوں کو دور بھی کر دیا ہے۔ شخصی اور انفرادی جذبات کی مدوجزر اپنی جگہ اس پلیٹ فارم نے سب سے بڑا نقصان جمہوری معاشروں کو پہنچایا ہے۔ جہاں عقل و خرد اور دلیل کی دستک ہوتی تھی، وہاں مصنوعی انٹیلی جنس نے اشتعال اور نفرت کو ہوا دے ڈالی ہے۔

رواں صدی کی دوسری دم توڑتی دہائی بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں مصنوعی انٹیلی جنس دراصل انسانوں پر کنٹرول کے ایک نئے دورکا آغاز ہے۔ ڈیٹا پر مبنی مصنوعی انٹیلی جنس نے دنیا میں اگر کسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے تو وہ صدیوں کے ارتقا کے بعد وجود میں آنے والے طرزِ حکمرانی کو پہنچایا ہے اور چند سیاسی مفادات کی خاطر انسانوں کے درمیان نفرت کو مزید ہوا دی ہے۔ ممکن ہے ارتقا اس مسئلے کو حل کر ڈالے مگر آج یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور ہم سب اس کھیل کا حصہ ہیں وہ بھی ایسے مصنوعی انداز میں کہ ہمیں خود اس کا پتا نہیں۔ یہی ڈیٹا اور مصنوعی انٹیلی جنس کی طاقت ہے اور ہم سب اس کا ایندھن ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے