عیدالاضحی اور یومِ آزادی

سب سے پہلے تمام پاکستانیوں کو جہاں بھی ہوں گزشتہ عید اور یومِ آزادی کی دلی مُبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ پاک آپ سب کو حفظ و امان میں رکھے، عمر دراز کرے اور ہر شر اور نظربَد سے محفوظ رکھے۔ آمین

ہر سال کی طرح اس سال بھی پہلے حاجیوں کی تیاری اور روانگی اور حسبِ معمول PIAکی پروازوں کے شیڈول میں گڑ بڑ اور حسبِ معمول عیدالاضحی کے موقع پر جانوروں کی منڈیاں اور مالدار لوگ کئی کئی لاکھ کے جانور خریدتے نظر آئے۔ ہم مسلمانوں کو اللہ نے بڑا فراخدل بنایا ہے۔ غریب کو 5ہزار روپے دے کر اس کی عید منانے سے کتراتے ہیں لیکن لاکھوں روپے کے جانور خرید کے قربانی کرتے ہیں اور پورا گوشت ڈیپ فریزر میں رکھ لیتے ہیں اور پورا سال مہمانوں سے فخریہ کہتے ہیں کہ یہ تبرک کا گوشت ہے، قربانی کے وقت کا ہے۔

اِدھر ہمارے ملک میں اور دنیائے اسلام میں لوگ دل کھول کر جانوروں کی قربانیاں کر رہے تھے اور ہمارے لخت جگر، ہمارے بھائی بہن مقبوضہ کشمیر میں اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے تھے۔ وہ ایک طویل قید خانے میں بند ہیں، نہ کھانے کا سامان ہے اور نہ پینے کا پانی۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ حجاج بن یوسف نے ایک مسلمان خاتون قیدی کی فریاد پر اپنے نوجوان عزیز محمد بن قاسم کو سندھ بھیج کر راجہ داہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ مسلمان ہمیشہ سے ڈپلومیسی میں طفلِ مکتب رہے ہیں۔ ہم نے مصر، عراق، شام اور لیبیا اور پاکستان کے حکمرانوں کی پالیسیاں دیکھ لی ہیں۔ ہمیشہ وقت گزار کر پالیسیاں بناتے ہیں۔

ہمیں 1962میں سنہرا موقع ملا تھا۔ چین نے مشرقی ہندوستان میں بھارتی فوجوں کو خاک چٹا دی تھی اور منی پور پر قبضہ کرلیا تھا اگر اس وقت کے حکمراں چین سے مل کر درخواست کرتے کہ وہ کلکتہ کی جانب پیش قدمی جاری رکھے تو ہم ایک ہفتہ میں کشمیر آزاد کرا لیتے۔ موقع سے فائدہ اُٹھانے کے برعکس ہمارے حکمرانوں نے امریکہ اور مغربی ممالک کے حکم پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ اپنی فوجیں پاکستانی سرحدوں سے ہٹالے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں گے۔

اس وقت تک ہمارے مقابلہ میں ہندوستان کمزور تھا اور ہم بہ آسانی کشمیر آزاد کرا سکتے تھے۔ چین سے جنگ کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے ہندوستان کو بہت ہتھیار مہیا کئے اور اس کی فوجی قوت میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ دیکھئے آپ بھول جائیے کہ کوئی آپ کو کشمیر پلیٹ پر رکھ کر دے گا، بزورِ قوت کشمیر نہیں لیا جا سکتا۔ اس لئے جنگ کا نہ سوچیں، بعض لوگوں کا خیال ہے حکمراں اور سیاستدان کشمیر کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔ لوگوں کی توجہ مہنگائی اور بیروزگاری سے عارضی طور پر ہٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں مگر جب کشمیر کی زبانی جنگ بند ہو جائے گی تو پھر عوام حکمرانوں کا گریبان پکڑیں گے۔ ریلیاں نکالنا اور ہاتھوں سے زنجیریں بنانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔

آپ نے اگر تاریخ پڑھی ہو تو مصطفیٰ کمال پاشا کی مثال دیکھئے، اس وقت ترکی کو یورپ کا بیمار، کمزور ملک کہا جاتا تھا۔ انگریز، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی فوجوں نے گلی پولی (Gallipoli)پر حملہ کیا۔ دوسری طرف سے یونان، آرمینیا، جارجیا وغیرہ نے حملہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ’مرے‘ ہاتھی کا گوشت و ہڈیاں بانٹ لیں۔ مصطفیٰ کمال اور ان کے بہادر افسران و جوانوں نے باری باری سب کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، سب کو ترکی کی سرحدوں سے باہر نکال دیا۔ گلی پولی پر مغربی ممالک کے 70ہزار سے زیادہ سپاہی مارے گئے تھے۔ اسی طرح احمد بن بیلا نے الجیریا کو فرانس سے آزاد کرانے میں لاکھوں ساتھیوں کی قربانی دی۔ کینیا نے بھی اسی طرح انگریزوں کو خون دے کر آزادی حاصل کی۔ کشمیر کا معاملہ ڈپلومیسی سے حل ہوگا، ہندوستان سے ایسا معاہدہ کرلیں کہ کشمیریوں کو اندرونی خودمختاری اور آزادی مل جائے اور دونوں اطراف کے کشمیری آزادی سے IDکارڈ سے آجا سکیں اور تجارت کرسکیں۔

14اگست 1947کو پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ اس کی ہم نے بہت بڑی قیمت ادا کی۔ لاکھوں لوگ مارے گئے گھر اجڑ گئے اور لوگ بے عزّت و خوار ہوئے۔ یہاں جو لوگ نااہل تھے وہ بادشاہ و حکمران بن گئے اور خاص طور پر تمام من و سلویٰ ایک ہی طبقے کی قسمت میں آیا۔ راتوں رات چپراسیوں، کوچوانوں، ڈرائیوروں سے جاگیردار، وزیر، حکمراں بن بیٹھے۔ ایک دن ہی میں سب بڑے صاحب بن گئے۔

بہت سے لوگوں کو مولانا ابوالکلام کی باتیں بُری لگتی ہیں مگر وہ عالم تھے، جہاندیدہ تھے۔ ہندو اس وقت مسلمانوں پر ظلم اس لئے کررہے ہیں کہ ان کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ ہم بھوپال میں بمشکل 30,25فیصد مسلمان تھے مگر مجال تھی کہ کوئی ہندو آنکھ اُٹھانے کی جرأت کرسکے۔ صوبہ سرحد، بلوچستان، سندھ، پنجاب، بنگال، آسام اور مسلمان ریاستوں کے پاس اس قدر طاقت تھی کہ ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ اب ہندوستان کے مسلمان بے چارے بے سہارا ہیں، کوئی مددگار نہیں ہے، آپ ان لوگوں کی مایوسی کا اندازہ نہیں کرسکتے، باتیں ہمارے حکمراں جنت کی سناتے ہیں اور حقیقتاً جہنم میں جھونک دیتے ہیں۔ چین، ملائیشیا اور ترکی کو دیکھیں انھوں نے اپنے ملکوں کو کہاں لا کھڑا کیا ہے یہاں مدینہ کی ریاست تو بن رہی ہے مگر رہائش پذیر مسکین و فقیر ہیں۔ زکوٰۃ لینے والے ہیں دینے والے نہیں۔ اللہ پاک ہی ہماری رہنمائی فرما سکتا ہے، انسان کی قوّت سے اب یہ باہر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے