اچھے مولوی کہاں پائے جاتے ہیں؟

واٹس ایپ پہ ایک فارورڈ میسج کسی نے بھیجا جس میں ڈیول نیشنیلٹی رکھنے والے بائیس ہزار سرکاری افسران کی لسٹ کے بارے میں بتانے کے بعد پوچھا گیا تھا کہ اس لسٹ میں کتنے مولوی ہیں،
لوگ کہتے ہیں کہ مولویوں نے ملک کو برباد کر دیا مولویوں کی وجہ سے ملک آج تک ترقی نہیں کر سکا وغیرہ وغیرہ۔

جہاں تک ایمانداری کی بات ہے تو بلاشبہ مذہبی عناصر میں دونوں انتہائیں موجود ہیں، اگر دیانت دار ہیں تو بے حد دیانت دار اور پروفیشنل اور اگر بد دیانت ہیں تو بھی انتہائی درجے کے۔۔۔ مضاربت سکینڈل سمیت دیگر کئی فراڈز میں مذہبی لوگوں کی ہی بنیاد پہ بے شمار لوگ عمر بھرکی جمع پونجی برباد کربیٹھے۔۔۔

لیکن وہیں دوسری جانب،دیانت دارمذہبی لوگوں کی بھی کمی نہیں۔ اسلام آباد میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والی بہترین اور پروفیشنل ترین سروس نیا ٹیل کے کرتا دھرتا مذہبی جماعت کے ہیں۔ نیا ٹیل استعمال کرنے والے لوگ جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ میں مسئلے کی شکایت موصول ہونے کے کچھ ہی منٹس بعد ان کی ٹیم حل کے لئے پہنچ جاتی ہے۔
میرے ایک دوست مفتی صاحب سندر کھدر کے نام سے کھدر کی بہترین کوالٹی آن لائن سیل کرتے ہیں اور پسند نہ آنے کی صورت میں بغیر کسی کٹوتی کے واپسی کی سہولت بھی دیتے ہیں اور واپسی کے لئے ڈاک خرچ پہ خود پے کرتے ہیں۔
ایک مولوی دوست اعلی کوالٹی شہد بیچتے ہیں، اور کسٹمر سپورٹ میں وہ بھی بغیر کسی کٹوتی کے واپسی کی سہولت دیتے ہیں۔ الغرض ہر طبقے کی طرح دیانتداری اور بددیانتی کی بے شمار مثالیں مولویت میں بھی موجود ہیں

جہاں تک بات ہےکہ مولوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، یہ اصل موضوع ہے میں یہ بات سمجھتا ہوں کہ مولویت کی دقیانوسیت پہ مبنی فتوی بازی اور بیانیہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔

اشتیاق احمد بچوں کے معروف ناول نگار تھے، ہم میں سے بہت سوں کے بچپن کے پسندیدہ ناول نگار۔۔ لیکن مولویت کے ہتھے چڑھنے کے بعد آہستہ آہستہ ان کے ناولز مذہبی تقریریں بن کے رہ گئے، انہیں ناولز کو فلمانے کی آفر ہوئی، انہوں نے جن مولویوں سے مشورہ کرکے اسے غیر شرعی عمل قرار دیتے ہوئے اس آفر کو رد کیا، بعد میں انہی مولویوں نے ایم آئی ایس سٹوڈیو کے نام سے فلمیں بنانا شروع کردیں۔ (جو کہ قدرتی مناظر کے بیانیے سے شروع ہو کے کارٹون کہانی تک پہنچ گئیں۔ ) لیکن اشتیاق احمد کو جب تک سوچنے سمجھنے کا وقت ملا، زندگی کی مہلت ختم ہوگئی۔

جاندار تصاویر کی بنیاد پہ دوسرے اخباروں کو غیر شرعی اخبارات کا فتوی دے کر، اسی بنائیے کی بنیاد پہ اسلامی صحافت کے معمار ہونے کا دعوی کرنے والے مفتیان کرام آج کل فیس بک لائیو پہ اپنی توندوں کے ساتھ تشریف فرما ہوتے ہیں ۔
اور بے شمار لوگوں کو تصویروں سے متعلقہ بزنسز کو حرام قرار دے کے ان کے بزنسز کو تباہ کرچکے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں کوئی مفتی صاحب یوٹیوب سے کمائی کو حرام قرار دے رہے تھے، کافی باصلاحیت نوجوانوں کو اس کام سے ہٹا کے کچھ عرصے بعد یوٹیوب سے خود کمائی کرتے نظر آئیں گے، تب سب حرام جائز ہو جائے گا۔

جنید جمشید کو گانوں سے ہٹا کے بہت سے مولویوں کے بیٹے ہاتھوں میں گٹار لئے پھرتے ہیں۔ جنید جمشید کو بھی مولویت کے اس فتوی مشین کی سمجھ آگئی تھی اسی لئے مذاق رات کے پروگرام میں اس نے اپنا پرانا گانا دوبارہ گایا تھا اور انڈسٹری کے لوگوں سے بھی میل جول شروع کردی تھی۔

مولویت کا مسئلہ دراصل یہ ہے، کہ جیسے ہی کوئی نئی چیز آئے، اپنے احساس محرومی کو چھپانے کے لئے احساس برتری کا خول قائم کرتے ہوئے اس کی نفی کرنا، شدت سے اس کی تردید کرنا، اس کو روکنا۔۔ اور ایک خاص عرصے بعد جب وہ چیز مضبوطی سے اپنی جگہ بنالے تو احساس کمتری کا شکار ہو کے اسی کے پیچھنے بھاگنا۔ وہ مولوی جو نئی نئی کیبل ٹی وی سسٹم آنے پہ رات کو تاریں کاٹ کے اپنی مسجدوں کے ہجروں میں رکھ لیا کرتے تھے کہ بے حیائی کو پھیلنے سے روکنا ہے وہی لوگ بعد میں کسی ٹی وی چینل میں پروگرام کرنے کے لئے ادھر ادھر بھاگتے نظر آتے تھے۔

من پسند فتوی کی مشین سے گزار کے باصلاحیت لوگوں کو دولے شاہ کے چوہے بنانا مولویت کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہیں۔۔۔!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے