اگر دوغلے پن کے مزاج میں کچھ کمی آسکے

کچھ باتیں سمجھنے کی ہیں۔ مستقبل قریب میں معاشی حالات میں بہتری کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ یہ تو علاج کی شروعات ہیں اور بہت سارے امتحانات باقی ہیں۔ کوئی خوش قسمت ہی ملک ہو گا جو آئی ایم ایف کے نسخہ جات کے بعد مکمل طور پہ صحت یاب ہوا ہو۔ لیکن اس بحث کو رہنے دیجیے، قیاس کی باتوں کا فائدہ کیا۔ سیاسی حالات میں البتہ ایک استحکام آ چکا ہے اور آئے بھی کیوں نہیں جب سویلین حکومت اور دوسرے ادارے ایک ہی صفحے پہ ہوں اور اُن میں بیشتر معاملات پہ مکمل یگانگت ہو۔

اسی لیے اپوزیشن لیڈران کی پیشیوں سے کوئی بھونچال پیدا نہیں ہو رہا۔ نون لیگی قیادت یا اندر ہے یا ضمانتوں پہ۔ قومی اور پنجاب اسمبلی اُن کے ممبران سے بھری پڑی ہے لیکن قیادت کو اس کا کیا فائدہ جب ان ممبران نے ریوڑوں کی طرح چپ سادھی ہوئی ہے اور احتیاط کو ہی بہترین حکمت عملی سمجھا ہے۔ جہاں تک مستقبل کی دوربینی کی جاسکتی ہے‘ قومی سیاسی حالات ایسے ہی رہیں گے۔ حکومت کی کمزوریاں اپنی جگہ لیکن جب دائیں بائیں سے سہارے مل رہے ہوں تو کمزوریوں پہ بھی پردہ پڑ جاتاہے۔

حاصلِ کلام یہ کہ معاشی محاذ اور سیاسی میدان میں تقریباً جمود کی حالت طاری ہے۔ دونوں محاذوں پہ تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ نہ صرف یہ کہ جمود ہے بلکہ اس جمود کو توڑنے کا بھی کوئی طریقہ نہیں۔ معاشی حالت تو تب تبدیل ہو جب اس میں بہتری آئے۔ اس کے فوری امکانات نہیں۔ سیاسی محاذ پہ تبدیلی آئے اگر بادلوں میں گرج چمک پیدا ہو اور اپوزیشن پارٹیوں میں کہیں سے توانائی آئے۔ اس کا بھی کوئی امکان نہیں۔

ایک زاویہ البتہ ہے جہاں مؤثر اور مثبت ہلچل پیدا کی جا سکتی ہے‘ اور وہ ہے قوم کے ذہنوں میں۔ اگر مہنگائی اور معاشی پسماندگی کے عذاب بدستور جاری ہوں توپاکستانی ذہنوںپہ پڑی زنجیروں کو توڑا نہیں جاسکتا؟ مثال کے طور پہ جو سانحہ اس قوم کے ساتھ 1977ء میں رونما ہوا اس کے اثرات مٹائے نہیں جاسکتے؟ بھٹو صاحب الیکشن پہ چلنے والی تحریک کی وجہ سے دباؤ میں تھے اور اُن کے اہم مشیر و وزیر مذہبی امور مولانا کوثر نیازی نے مشورہ دیا کہ مولویوں کو ٹھنڈا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ظاہری قسم کے اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں۔ قوانین کیا تھے، اُن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، بس قدغنوں کا ایک جامع نسخہ تھا جس کے نفاذ سے پاکستانی معاشرہ بہتر تو نہ ہوا لیکن سو سال پیچھے چلاگیا۔ روشنیاں پہلے بھی اس ملک میں زیادہ نہ تھیں لیکن مولانا صاحب کے تجویز کردہ قوانین کے باعث جو روشنیاں تھیں وہ بھی بجھ گئیں۔ بھٹو صاحب کے خلاف تحریک نہ تھمی۔ اثر اُلٹا ہوا کہ مولویوں نے سمجھا کہ بھٹو بھاگ رہاہے۔ اس تاثر سے تحریک نے اور زور پکڑا۔ مولویوں کا تو کچھ نہ ہوا لیکن پاکستانی معاشرے کو ایسی لات لگی جس کے اثرات سے وہ ابھی تک نہیں نکل سکا۔

معاشرے میں پارسائی کو فروغ ملتا اورپاکستانی مسلمان اوربہترمسلمان ہوجاتے تو بات اورتھی۔ لیکن جو واضح اثر اِن اقدام کا ہوا وہ منافقت اور دوغلے پن کے فروغ کی شکل میں ہوا۔ نہ ثواب کا وزن بڑھا نہ گناہ کم ہوئے؛ البتہ بہت کچھ جو سامنے ہوا کرتا تھا وہ پس پردہ چلاگیا۔ پرانے وقتوں میں جب دوغلے پن کا اتنا زور نہ تھا تو غریبوں کا بھی گزارہ ہو جاتا۔ جب پردے کے پیچھے چیزیں چلی گئیں تو جو غریبوں کے ہاتھ میں تھوڑا بہت تھا وہ بھی چلاگیا کیونکہ جہاں منافقت رائج ہو وہاں ہر چیز کے دام بڑھ جاتے ہیں۔ یہی پاکستانی معاشرے کے ساتھ ہوا۔ گناہ ختم نہ ہوئے بس مہنگے ہو گئے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ اچھے بھلے پلازے نہ ہوں تو آرزوئیں، آرزوئیں ہی رہتی ہیں اُن کا کچھ بن نہیں پاتا۔

پاکستانی معیشت بہت حد تک سکڑ چکی ہے اور ریکوری کے کوئی جلد آثار نہیں۔ مہنگائی تو چھوڑئیے اس کا تو سب رونا رو رہے ہیں مزید ماتم کرنے سے کیا فائدہ۔ نوکریاں مل نہیں رہیں۔ شہروں سے لے کر دیہات تک بے روزگاروں کے ہجوم ہیں جن کے سامنے کوئی امید کی کرن نہیں۔ فیملی پلاننگ تو ہمارے ہاں ویسے بھی گناہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کی تو کوئی بات بھی نہیں کرتا۔ مذہبی عناصر نے ویسے ہی نہیں کرنی اور حکومت کے پاس بھی اس بارے میں نہ سوچ ہے نہ ہمت۔ لہٰذا کوئی عجوبہ نہیں کہ پاکستان کی آبادی کی بڑھوتری کا ریٹ دنیا میں نمایاں ہے۔ دیگر چیزوں میں ہم آگے ہوں یا نہ ہوں اس بڑھوتری میں ہمارے سے کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ بنگالیوں کے بارے میں ہمارا طعنہ تھا کہ سوائے بچے پیدا کرنے کے اُنہیں کچھ اور آتا نہیں۔

ہم بنگالیوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ اگر ایسی صورتحال ہے، یعنی نہ معاشی جمود ٹوٹنے کے آثار نہ سیاست میں تبدیلی، تو ذہنوں پہ پڑی زنجیروں کا تو کچھ کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو پسماندگی اور اس کے اوپر فرسودہ خیالات کا زور اور راج۔ مطلب یہ نہیں کہ عمران خان بڑے ریفارمر بن جائیں۔ وہ ایسا کر نہیں سکتے۔ کمال اتا ترک ہر ایک نہیں بن سکتا اور عمران خان جو بھی ہوں کمال اتا ترک کی تقلید کرنے سے قاصر ہی رہیں گے۔ لیکن 1977ء میں نافذ قوانین کے بارے میں تو وہ کچھ کر سکتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو تھوڑی یہ تحقیق کر لیں کہ جام صادق علی جب سند ھ کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے سندھ میں کیسے نئی راہیں تلاش کیں۔ ایسا پورے پاکستان میں ہو جائے اور پنجاب کے چیف منسٹر سردار عثمان بزدار تھوڑا سا جام صادق علی کے راستے پر چل سکیں تو اس جکڑے ہوئے معاشرے کا ماحول یکدم تبدیل ہو جائے۔

یہ صرف نفسیاتی تبدیلی نہ ہو گی بلکہ اس کے معاشی فائدے بھی ہوں گے۔ آج لاہور، فیصل آباد، ملتان اور راولپنڈی کا ماحول تھوڑا سا کھل جائے تو ہوٹل انڈسٹری کو اتنا فائدہ پہنچے اور اتنی نوکریاں پیدا ہوں کہ لوگ تبدیلی کو محسوس کریں۔ یہ تجربہ کہیں کامیاب نہیں ہوا کہ معاشی پسماندگی بھی ہو‘ ساتھ ساتھ ذہنوں پہ تالے بھی لگے ہوں اور پھر آپ سوچیں کہ حالات میں بہتری آ جائے۔ ایسے کہیں نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے۔ آزادیاں بڑھانے اور منافقت کم کرنے سے معاشی مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ سیاحت ہوا میں نہیں بڑھتی جب تک کہ معاشرے میں آزادی کا فروغ نہ ہو۔ معاشی تباہی تو اور ملکوں میں بھی آئی ہے۔ کمیونزم کے زوال کے بعد روس کی کیا حالت ہو گئی تھی؟ لیکن روسی مرد و خواتین نے اور مواقع تلاش کیے اور جہاں جا سکتے تھے‘ وہاں انہوں نے حصولِ معاش کی جستجو کی۔ اکیس کروڑ کا ہمارا ملک ہے۔ اس کی اپنی مارکیٹ ہی بہت بڑی ہے۔ یہاں پہ 1977ء میں لگائی گئی پابندیاں نرم کی جائیں تو سیاحت، سیروتفریح اور ہوٹلنگ کے اتنے مواقع پیدا ہوں کہ لوگ اپنی آج کی مجبوریاں بھول جائیں اور آگے کو دیکھنے لگیں۔

ہم تو سمجھتے تھے کہ عمران خان میں ایسے اقدامات کی ہمت ہو گی۔ اقتدار میں آتے ہی بہت کچھ کر ڈالیں گے۔ اُن کے بارے میں یہی خیال تھا کہ دبنگ کرکٹ کے کپتان تھے اور اسی دلیری سے وہ حکومت چلائیں گے۔ لیکن ان سے پلاسٹک شاپروں پہ قابو نہیں پایا جا رہا۔ ایک سال کے اقتدار کے بعد اب پھسپھسا سا فیصلہ ہوا ہے کہ شاپروں پہ پابندی اسلام آباد سے شروع کی جائے۔ کچھ کینیا اور روانڈا جیسے ممالک سے سبق سیکھ لیں۔ یہ جو ہمارے ماحولیات کے مشیر ہیں امین اسلم صاحب ہر روز ایک نہ ایک ماحولیات کے بارے میں بیان داغ دیتے ہیں۔ انہیں فوری کینیا کے دورے پہ بھیجنا چاہیے تاکہ دیکھ سکیں کہ جب کچھ کرنا ہو تو کیسے کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں زیادہ مؤثر طریقے سے پابندی نافذ ہو نہیں رہی پورے ملک کا کیا بنے گا۔

شاپروں کا یہ حال ہے تو ذہنی آزادیوں کے بارے میں خان اعظم نے کیا کرنا ہے۔ جو کچھ جام صادق نے سندھ میں کیا اس کیلئے انہوں نے کوئی ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کیے تھے۔ بس جو اختیارات تھے انہی کو بروئے کار لائے۔ ایسا سارے ملک میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ بھول جائیں آئی ایم ایف کی تھیوریاں۔ اس ایک اقدام سے، یعنی 1977ء کی پابندیوں کو ختم کرنا، اپنی موجودہ مشکلات کے باوجود قوم کے چہرے پہ ایک نکھار آ جائے گا۔ آنکھوں میں چمک آ جائے گی۔ معاشی مواقع پیدا ہوں گے۔ معاشی بحث جو آج کل مہنگائی کے گرد گھومتی ہے تبدیل ہو جائے گی۔ ایسا کرے گا کون؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے