مقامِ صحابہ…(حصہ اول)

دین کا مدار نقل و روایت پر ہے اور روایت کے مستند اور معتبر ہونے کے لیے ثقہ شہادت ضروری ہے‘ لہٰذا پورے دین کے قطعی اور لائقِ اعتبار ہونے کا مدار صحابۂ کرام کی ثقاہت ‘ عدالت ‘ صداقت اور دیانت وامانت پر ہے‘ یعنی صحابۂ کرامؓ دین کی پوری عمارت کے معتبر ومستند ہونے کے لیے خشتِ اول کادرجہ رکھتے ہیں۔صحابی اسے کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میںرسول اللہ ﷺ کو اُن کی حیاتِ ظاہری میں دیکھا ہو اور ایمان پر اُس کا خاتمہ ہواہو‘ خواہ رسول اللہ ﷺ کا یہ دیدار اور رفاقت وصحبت تھوڑے وقت کے لیے کیوں نہ ہو‘نجم نعمانی نے کہا ہے:
جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نُما‘ انوار کا عالَم کیا ہوگا
ہر کوئی فدا ہے بِن دیکھے ‘ دیدار کا عالَم کیا ہوگا

سو آج اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہے‘پس اگر وہ سچا ہے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے اور اگر وہ جھوٹا ہے‘ تواس کے لیے رسالت مآب ﷺ کی یہ وعیدبڑی سخت ہے”جس نے مجھے خواب میں دیکھا‘ تو اس نے درحقیقت مجھ ہی کو دیکھا‘ کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتااور جس نے قصداً مجھ پر جھوٹ بولاتو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے‘ (بخاری:110)‘‘۔ تاہم خواب میں سرورِ کائنات ﷺ کی زیارت سے کوئی صحابی ہونے کا اعزاز نہیں پاسکتا۔ صحابۂ کرام کا یہ اعزاز وافتخار اس لیے ہے کہ انہوں نے جاگتی آنکھوں سے رُخِ مصطفی ﷺ کا دیدار کیا‘ آپ کو جَلوت وخَلوت میں‘ سوتے جاگتے ‘ بزم میں رَزم میں ‘ کیفیتِ غَضب وجلال اور کیفتِ جمال میں ‘ الغرض ہر حال اور ہر انداز میں دیکھا۔

انہوں نے آپ پر وحیِ ربّانی اترنے کی کیفیات کو دیکھا‘ جبریلِ امین کو لباسِ بشری میں آپ ﷺ کے سامنے زانوئے تلمُّذ تہہ کرکے تعلیم ِ صحابہ کے لیے سوالات کرتے اور جوابات کی تصدیق کرتے ہوئے دیکھا۔یہ وہ مقدَّس ومبارَک نفوس تھے‘ جن کے دل ودماغ اور روح وباطن کا تزکیہ رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا تھا اور آپ ﷺ اُن کے براہِ راست مُرَبِّی تھے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۂ البقرہ :129میں دعائے ابراہیمی کی صورت میں ‘ سورۂ آلِ عمران:164میں بعثتِ مصطفی ﷺ کا اہلِ ایمان پربطورِاحسان ذکر فرما کراور البقرہ:151اور الجمعہ:2میں امرِواقعہ کے طور پر مقاصدِ بعثتِ رسالتِ کو بیان کرتے ہوئے ذکر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کو آیاتِ الٰہیہ پڑھ کر سناتے ہیں‘ اُن کے (باطن کا) تزکیہ کرتے ہیں اورا نہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے رسولِ مکرم ﷺ نے ایسا بے مثال اور باکمال تزکیہ فرمایا کہ تمام صحابۂ کرام اِن آیاتِ باری تعالیٰ کا مصداقِ کامل بن گئے:(1):”اللہ نے کسی آدمی کے لیے اس کے پہلو میں دودل نہیں بنائے( کہ کبھی اس کا دل رحمن کی بندگی سے سرشار ہواور کبھی شیطان کا ٹھکانا بن جائے)‘(الاحزاب:4)‘‘۔(2):”اہلِ ایمان میں سے کچھ مردانِ (باوفا) ایسے ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا‘ اسے سچا کردکھایا‘ اُن میں سے بعض نے (شہادت پر فائز ہوکر) اپنی نذرِ (وفا) پوری کردی اور بعض اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں‘(الاحزاب:23)‘‘۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اصحابِ رسول اللہ ﷺ کا مقامِ مدح میں شاندار انداز میں ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو اُ ن کے اصحاب ہیں ‘وہ کفّارپر نہایت سخت (اور ) ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی مہربان ہیں ‘ (اے مخاطَب! ) تو انہیں رکوع کرتے ہوئے‘ سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا ‘ وہ اللہ کا فضل اور رضا چاہتے ہیں ‘ اُن کی نشانی ان کے چہروں پر سجدوں کا نور ہے ‘ اُ ن کی یہ صفت تورات میں ہے اور انجیل میں ان کاوصف یہ بیان ہوا ہے: جیسے ایک کھیتی ہے ‘ اُس نے ایک باریک کونپل نکالی‘ پھر اس نے طاقت پکڑی ‘ پھر وہ موٹی ہوگئی ‘ پھر وہ (مضبوط ہوکر)اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی‘ کسانوں کو خوب بھلی لگی تاکہ (اس منظرسے ) کفّار کے دل جلیں ‘ اللہ نے ایمان والوں اوراُن میں سے نیک اَعمال کرنے والوں سے مغفر ت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ‘ (الفتح : 29)‘‘۔

یہاں کھیتی سے مراد صحابۂ کرام کے قلوب ہیں‘ بیج سے مراد ایمان ہے اور کاشت کار سے مراد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے کہ جنہوں نے اپنی دعوتِ حق کا ثمر بہت جلد صحابۂ کرام کی وفاواخلاص‘ ورع وتقویٰ ‘ صداقت وعدالت‘ دیانت وامانت اور عزیمت واستقامت کی صورت میں دیکھا اور روحانی وقلبی مسرت سے سرشار ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے اُن کے بارے میں یہ بھی قطعی فیصلہ فرما دیا :

(1)”اور مہاجرین وانصار (صحابہ) میں سے (ایمان لانے میں) سبقت کرنے والے اور اَوّلیت (کا شرف) حاصل کرنے والے اور وہ جنہوں نے (درجۂ) احسان میں ان کی پیروی کی‘ اللہ اُن(سب) سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور (اللہ نے) ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کررکھی ہیں ‘ جن کے نیچے دریا جاری ہیں ‘ وہ اُن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‘ یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘(التوبہ:19)‘‘۔

(2):”یقینا اللہ مومنوں سے اُس وقت راضی ہوگیا ‘ جب وہ(حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے‘(الفتح:18)‘‘۔ عربی زبان اور آج کل بھی قانونی دستاویزات میں عقود (Contracts) اور انشاء ات(قصداً کسی فعل کو صادر کرنا‘ جیسے نکاح ‘طلاق ‘ بیع وشراء وغیرہ) کو ماضی کے صیغے سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ اگر چہ یہ عقد یا ارادی عمل اب وقوع پذیر ہورہا ہے‘ لیکن یہ اتنایقینی امر ہے کہ گویا یہ پہلے ہی واقع ہوچکا ہے۔ اصحابِ رسول کو رضائے الٰہی کی قطعی اور یقینی نوید دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصحابِ رسول کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ پہلے ہی طے ہوچکا ہے کہ وہ اُن سے راضی ہے اور یہ اُس سے راضی ہیں ۔

قرآنِ کریم میں صحابہ کو معیارِ ایمان بتایا گیا ہے ‘رسول اللہ ﷺ کے عہدِ مبارک کے منافقین کے بارے میں فرمایا:(1) ”اور جب اُن سے کہاجاتا ہے :ایمان لائو جیساکہ لوگ ایمان لائے‘ (البقرہ:13)‘‘۔ یہ امر واضح ہے کہ اس آیت میں جن لوگوں کے ایمان کو معیار قرار دیا گیا ہے‘ وہ صحابۂ کرام ہیں۔ (2)”اور وہ لوگ جوایمان لائے اور انہوں نے (مکہ سے )ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اوروہ لوگ جنہوں مہاجرین کو(مدینہ میں )ٹھکانا فراہم کیا اور اُن کی نصرت کی ‘یہی وہ لوگ ہیں جوپختہ ایمان لانے والے ہیں‘ اُن کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے‘ (الانفال:74)‘‘۔ اس آیت میں بھی صحابۂ کرام کے مومنِ برحق ہونے کی شہادت ہے۔

انبیائے کرام اور رُسلِ عِظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی طرح صحابۂ کرام میں آپس میں درجہ بندی اور ایک دوسرے پر فضیلت ایک مسلّمہ امر ہے؛چنانچہ اوّلین درجہ ابتدائی مرحلے میں اسلام قبول کرنے والوں کا ہے‘ پھر اُن کا جو اُس وقت ایمان لائے جب مسلمانوں کی کل تعداد چالیس تھی ‘ پھراُن کا جنہوں نے راہِ خدا میں ہجرت کا شرف حاصل کیا۔ انصار میں سے وہ جو ”بیعتِ عقبۂ اولیٰ‘‘ اور ”بیعت عقبۂ ثانیہ‘‘ میں شریک ہوئے ‘ پھر اُن کا جو بدر میں شریک ہوئے ‘ پھراُن کا جن کو دونوں قبلوں (بیت المقدس وکعبۃ اللہ) کی طرف نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا‘ پھر وہ جو صلح حدیبیہ میں شریک رہے‘ پھراُن کا جو فتحِ مکہ میں شامل تھے‘ پھر وہ جوفتح مکہ کے بعد اسلام لائے ‘ انہیں ”طُلَقائ‘‘ کہا جاتاہے۔ پس صحابۂ کرام کی ایک دوسرے کے مقابل تفضیل کو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”تم میں سے کوئی ان کے برابر نہیں ہوسکتا‘ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے (اللہ کی راہ میں) مال خرچ کیا اور (کافروں سے) قِتال کیا ‘ اُن کا درجہ اُن (صحابہ) سے بہت بڑا ہے‘ جنہوں نے (فتح مکہ کے) بعد (اللہ کی راہ) میں مال خرچ کیا اور جہاد کیا‘ (مگر یاد رکھو) اللہ نے اُن سب سے اچھے انجام کا وعدہ فرمایا ہے‘(الحدید:10)‘‘۔

لہٰذا صحابۂ کرام کے مابین بعض شعبوں میں یا بحیثیتِ مجموعی فضیلت کا بیان کرنا تو جائز ہے‘ مگر کسی کی فضیلت کو بیان کرنے میں یہ انداز اختیار کرنا کہ دوسرے صحابہ کی تنقیص کا پہلو نمایاں ہو‘ رَوا نہیں ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”خبردار! میرے اصحاب کے بارے میں(کسی اہانت کا تصور کرتے ہوئے) اللہ سے ڈرو ‘ میرے بعد انہیں (اپنی ملامت کا) ہدف نہ بنانا ‘ سو جس نے اُن سے محبت کی‘ تو محض میری خاطرمحبت کی اور جس نے اُن سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کے سبب ایسا کیا اور جس نے انہیں اذیت پہنچائی تو اُس نے (درحقیقت) مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی تو اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت پہنچائی اور جس نے اللہ کو اذیت دی تو وہ یقینا اُسے اپنے (عذاب کی) گرفت میں لے گا‘(ترمذی:3862)‘‘۔

امت میں صحابۂ کرام کی عصمت کا کوئی بھی قائل نہیں ہے‘ وہ سب بشر تھے اور معصوم عن الخطاء نہیں تھے‘ لیکن رسول اللہ ﷺ کے نورِ نبوت کے فیضان اور آپ کی تربیت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں گناہوں سے محفوظ رہنے کی سعادت عطا فرمائی ۔

ایسی متعدد مثالیں احادیثِ مبارَکہ میں موجود ہیں اگر بشری تقاضے کے تحت اُن میں سے چند افراد سے خطا کا صدور بھی ہوا‘ تواللہ تعالیٰ کے کرم سے وہ جلد اِس پر متنبّہ ہوگئے‘ خوف وخشیتِ الٰہی کا اُن پر غلبہ ہوا‘ انہیں توبۂ مقبولہ مَرضِیَّہ کی سعادت نصیب ہوئی اور وہ گناہوں اور معصیتوں سے پاک ہو کر دارِ آخرت میں گئے۔ ایک بدری صحابی سے خطا ہوگئی ‘حضرت عمر ؓنے شدید ردِّعمل کا اظہار کیا ‘تورسول اللہﷺ نے فرمایا”یہ بدر میں شریک تھے اور آپ کیا جانیں کہ اللہ اہلِ بدر پر مطلع تھا‘ (اس کے باوجوداُن کے بارے میں) فرمایا: تم جو چاہو کرو‘ میں نے تمہیں بخش دیا ہے‘(بخاری: 3007)‘‘۔صحابۂ کرام کے اخلاصِ ایمان کی معراج یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے عہدِ مبارک کے بعد آنے والوں سے فرمایا” میرے صحابہ کی شان میں کوئی نازیبا بات نہ کہو ‘اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ کی راہ میں صدقہ کردے ‘تو وہ اُن کے ایک مُد یا نصف مُد (کھجور یا گندم یا جو )کے صدقے کے برابر اجر کا حقدار نہیں ہوسکتا‘ (مسلم:2541)‘‘۔

اب ظاہر ہے مقدار کے اعتبار سے تو اُحد پہاڑ کے برابر سونے اور چند کلو کھجور میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے ‘ لیکن صحابہ کا اخلاص اس درجے کا تھا کہ اُن کے قلیل عمل کا اجر بھی دوسروں کے کثیر عمل سے بے انتہا زائد تھا۔

[pullquote](جاری ) [/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے