کیا تم واقعی مجھ سے محبت کرتے ہو؟

یہ ڈھائی سو سال پرانی کہانی ہے۔

انوار نے احمد سے پوچھا ’’کیا تم نے کبھی محبت کی ہے؟‘‘ احمد بہت حیران ہوا اور بولا ’’نہیں، مگر وہ کیا چیز ہوتی ہے؟‘‘ انوار نے کہا ’’اس کی شکل مختلف صورتوں میں مختلف ہوتی ہے، وہ سوہنی ہوتی ہے، کالی کلوٹی ہوتی ہے، گوری ہوتی ہے، موٹی ہوتی ہے، اسمارٹ ہوتی ہے مگر وہ کسی بھی صورت میں ہو اگر تمہیں اس میں کشش محسوس ہونے لگے تو تم صرف اس کے ہو کر رہ جاتے ہو۔ دنیا و مافیھا سے تمہارا کوئی تعلق نہیں رہتا۔ اس رستے میں مشکلات بھی بہت آتی ہیں، کمزور دل اور کم ہمت لوگ تو بعض اوقات آدھے رستے ہی سے واپس ہو جاتے ہیں مگر محبت میں لذت بہت ہے‘‘۔

احمد یہ سن کر پریشان سا ہو گیا اور سوچنے لگا میرے پاس بہت کچھ ہے، بہادر بھی ہوں مگر مجھے علم ہی نہیں تھا کہ دنیا میں ایک اتنی بڑی نعمت ہے، جو میرے پاس ہونی تو کیا تھی، میں اس کے وجود ہی سے لاعلم ہوں!

انوار نے احمد کی پریشانی دیکھی تو اس نے احمد کو مخاطب کیا ’’ہماری بستی میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت لڑکی رہتی ہے، کئی نارمل صورت کی بھی ہیں، کیا تمہیں ان میں سے کسی ایک کی شخصیت میں بھی کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی، جو تمہارے لئے باعث کشش ہو؟‘‘ احمد نے بے بسی سے کہا ’’نہیں‘‘ انوار بولا ’’اگر کچھ ہوتا تو ممکن ہے تم ان میں سے کسی سے محبت کرنے لگتے اور یوں تمہیں وہ کچھ بھی مل جاتا جو سب کچھ ہونے کے باوجود تمہارے پاس نہیں ہے!‘‘ انوار نے ایک وقفے کے بعد احمد کو مخاطب کیا اور پوچھا ’’کیا تم محبت کرنا چاہتے ہو؟‘‘ احمد نے بے چینی سے جواب دیا ’’ہاں، تمہاری باتیں سن کر میں اس کیلئے بیتاب ہو گیا ہوں!‘‘

اس پر انوار نے چارپائی پر کہنیاں ٹیکتے ہوئے کہا ’’تو پھر سنو، یہ تم اپنے سامنے ہزاروں فٹ اونچا پتھریلا پہاڑ دیکھ رہے ہو؟‘‘ احمد نے جواب دیا ’’ہاں دیکھ رہا ہوں!‘‘ انوار بولا ’’اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت خوبصورت دوشیزہ رہتی ہے، اس نے بھی کبھی کسی سے محبت نہیں کی، اس کی بستی کے کئی جوانِ رعنا اس کیلئے اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں مگر اس کا دل کسی پر مائل نہیں ہوا، ہماری بستی سے بھی کئی جوان اس دوشیزہ کے حسن کی داستانیں سن کر اس کی طرف روانہ ہوئے مگر اس کے رستے میں حائل یہ بلند و بالا پہاڑ ان کی زندگیاں نگل گیا۔ کیا تم بھی اپنی زندگی دائو پر لگانا چاہتے ہو؟‘‘ احمد نے کہا ’’ہاں‘‘ اور پھر کوئی دوسری بات کئے بغیر پہاڑ کی طرف روانہ ہوگیا۔

بستی کی طرف جانے کیلئے اس پتھریلے پہاڑ پر نہ کوئی پگڈنڈی تھی اور نہ کوئی ہموار رستہ۔ رستے میں خوفناک جنگلی جانور بھی تھے جن سے احمد کی مڈبھیڑ ہوئی مگر وہ ان سب کو زیر کرتا ہوا ایک لاہوتی جذبے کیساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔ جب کئی برسوں کے بعد وہ اس بستی میں پہنچا تو وہ بھوک اور زخموں سے نڈھال تھا۔ اسے ایک نیک دل شخص اٹھا کر اپنے گھر لے گیا، اس کی مرہم پٹی کی، اسے خوب کھلایا، پلایا اور جب احمد چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو ایک دن گھر سے نکلا۔ اس نے دیکھا کہ بستی کے خوبصورت ترین نوجوان ایک ہجوم کی صورت میں ایک پری رخ کے گرد جمع تھے اور اس کی ایک ایک ادا پر دل و جان قربان کرتے نظر آتے تھے مگر وہ کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی تھی۔ احمد نے ایک نظر اسے دیکھا اور وہ اس پر عاشق ہوگیا، اس دوران اس پری رخ کی نظر اس اجنبی پر پڑی تو اس کے دل کو بھی ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ ناز و ادا سے چلتی ہوئی اس کی طرف آئی اور پوچھا ’’تم کون ہو اور اس بستی میں کیوں آئے ہو؟‘‘ احمد نے کہا ’’میں تمہارے حسن کی دھومیں سن کر ہزار مصیبتیں جھیل کر تم تک پہنچا ہوں اور اب تمہیں اپنا دل دے بیٹھا ہوں!‘‘

پری رخ کی جلترنگ سی آواز احمد کے کانوں میں سنائی دی ’’اے خوبرو نوجوان، میں بھی تمہیں اپنا دل دے بیٹھی ہوں، تم میرے ساتھ آئو!‘‘۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے جیتے اور مرتے تھے مگر وہ پری رخ ہر روز صبح اٹھتے ہی اس سے پوچھتی ’’کیا تم واقعی مجھ سےمحبت کرتے ہو؟‘‘ احمد اس کا یہ سوال سن کر غمزدہ ہو جاتا۔ اسے اس سوال سے اپنی محبت کی توہین کا احساس ہوتا تھا مگر وہ سب کچھ بھول کر کہتا ’’ہاں! میں اگر دنیا میں کسی سے محبت کرتا ہوں تو وہ صرف تم ہو‘‘ ایک دن صبح اٹھتے ہی اس نے احمد سے یہ پوچھا ’’کیا تم واقعی مجھ سے محبت کرتے ہو؟‘‘ احمد نے کہا ’’ہاں اے ماہ رخ! میں تم سے اور صرف تم سے محبت کرتا ہوں‘‘ یہ سن کر اس ماہ رخ نے کہا ’’مجھے تمہاری محبت کا کوئی ثبوت چاہئے!‘‘ احمد کو سمجھ نہ آئی، وہ اپنی محبت کا مزید کیا ثبوت پیش کرے؟، اس قتالہ نے احمد کو تذبذب کی حالت میں دیکھا تو کہا ’’میں چاہتی ہوں کہ میں ہمیشہ اسی طرح جوان اور خوبصورت رہوں، تم اس کیلئے کیا کر سکتے ہو؟‘‘ احمد نے اپنا دل اس کے پائوں میں رکھتے ہوئے کہا ’’وہ سب کچھ کر سکتا ہوں جس سے میں تمہیں اپنی محبت کا یقین دلا سکوں!‘‘ اس نے کہا ’’تم سامنے ایک پہاڑ دیکھ رہے ہو، اس کی دوسری طرف آبِ حیات کا چشمہ ہے، تم وہاں سے میرے لئے آب حیات لے کر آئو‘‘۔

احمد نے رختِ سفر باندھا اور پہلی جیسی صعوبتیں اور مشکلیں برداشت کرتا ہوا پہاڑ کی دوسری طرف اتر گیا، جہاں چشمہ آبِ حیات تھا مگر اس پر ایک جادوگر کا قبضہ تھا۔ احمد یہ پہاڑ عبور کرتے کرتے جوانی سے ادھیڑ عمری میں تبدیل ہو چکا تھا اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گیا تھا مگر اچانک اس نے اپنے جسم میں ایک برقی رو محسوس کی۔ اسے لگا کہ لاکھوں طاقتور نوجوانوں کی ہمت اور شجاعت اس کے جسم میں در آئی ہے۔ جادوگر نے اسے چشمے کی طرف بڑھتے دیکھا تو اس پر اپنے سارے طلسمی حربے ایک ایک کر کے آزمانا شروع کئے مگر وہ سب ناکام رہے۔ آخر میں وہ احمد پر اپنی طلسمی تلوار سے حملہ آور ہوا مگر وہ بھی کند ہوگئی۔ احمد نے اس کے ہاتھ سے طلسمی تلوار چھینی اس کے ساتھ ہی تلوار کی دھار واپس آگئی اور احمد نے اس ظالم جادوگر کو تہہ تیغ کر ڈالا! اور آب حیات حاصل کر لیا۔

وہ زخموں سے چور جب اسی دشوار گزار راستے سے واپس پہنچا تو بہت بوڑھا اور لاغر ہو چکا تھا۔ اس پری رخ نے آب حیات کے چند گھونٹ لئے اور وہ دوبارہ حسن و جوانی کا پیکر بن گئی مگر اس کے دیکھتے ہی دیکھتے احمد زمین پر گرا اور دم توڑ گیا اور اسے گائوں کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔

وہ پری رخ ڈھائی سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی حسن و جوانی کا پیکر ہے وہ روزانہ احمد کی قبر پر جاتی ہے اور پوچھتی ہے ’’کیا تم واقعی مجھ سے محبت کرتے ہو؟‘‘ مگر اب اسے احمد کی طرف سے صرف خاموشی سنائی دیتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے