ماحول دوستی: درخت لگانے کا شوق جب جنون بن جائے

‘مجھے لگتا ہے کہ ہم اپنے کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو پودوں میں کیوں نہیں؟ ‘

مریم لاہور کی ایک کامیاب بزنس وومین ہیں۔ انھیں قدرت سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے گھر میں سیکڑوں کی تعداد میں پودے اور درخت لگا رکھے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ انھیں بچپن سے ہی پودے لگانے کا شوق تھا۔

‘مجھے قدرت سے بہت محبت ہے۔ مجھے شوق ہے کہ میرے آس پاس سبزہ ہو، ہر چیز سبز ہو۔ ‘

بچپن سے ہی ان کا مٹی اور پودوں سے تعلق رہا ہے۔ وہ اپنے سکول میں بھی پودے لگایا کرتی تھیں۔ پھر جیسے جیسے بڑھتی گئیں ان کا شوق بھی ان کے ساتھ بڑھتا گیا۔

گذشتہ چند سال سے یہ شوق ان کے لیے جنون کی کیفیت اختیار کر گیا ہے۔

مریم کے گھر میں کچھ جگہ خالی تھی جہاں انھوں نے پودے لگانا شروع کر دیے۔ اب تک وہ اپنے گھر میں 500 سے زیادہ پودے لگا چکی ہیں۔

اتنے درخت لگانے کے باوجود مریم کے دل میں مزید پودے اگانے کی حسرت رہتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب بھی وہ ان پودوں کے باغ میں بیٹھتی ہیں تو سوچتی ہیں کہ یہاں دو تین اور درخت ہونے چاہیے۔

‘یہاں پر آپ بیٹھیں، آپ کو یہاں پر پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آتی ہیں۔ سارا دن اور شام یہاں بس یہی ہوتا ہے۔ ‘

[pullquote]ماحول دوست[/pullquote]

مریم چاہتی ہیں کہ وہ ماحولیاتی نظام کو مزید بہتر کریں۔ ان کا خیال ہے کہ ‘صرف باتیں کرنے سے آپ اپنے ماحول کو بدل نہیں سکتے، اسکے لیے آپ کو محنت کرنا پڑتی ہے۔ ‘

‘ہمارے ملک میں درختوں کی ضرورت ہے۔ بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ سے بچنے کا ایک اہم راستہ زیادہ سے زیادہ درخت لگانا ہے۔ ‘

وہ بتاتی ہیں کہ چیونٹیوں سے لیکر انسان، پرندے اور جانور سب کی زندگیاں درختوں سے جڑی ہیں۔ وہ اسی تعلق کو مضبوط بنانے کے لیے مزید درخت لگانا چاہتی ہیں۔

مریم کے گھر میں لگائے جانے والے تمام درخت دیسی ہیں۔ ان کے خیال میں دیسی درخت فضا میں موجود گیسز کو زیادہ جذب کرتے ہیں اور فضا کو صاف رکھتے ہیں۔ ان کے لگائے درختوں میں شہتوت، ششم، امرود د،فالسہ، کچنار، بوتل برش، جامن، لیموں، پیپل اور بہت سے دوسرے درخت شامل ہیں۔

ان کے مطابق لاہور کے موسم اور درجہ حرارت کے پیش نظر یہ درخت کافی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے گھر میں باہر لایا کوئی درخت نہیں لگایا۔

انھوں نے بتایا کہ ان دنوں پیپل کے درخت آسانی سے نہیں ملتے۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنے گھر میں بیسیوں پیپل کے درخت لگائے ہیں۔

[pullquote]پرندوں کا ٹھکانہ[/pullquote]

مریم نے بی بی سی کو بتایا کہ لاہور میں بڑھتی آلودگی اور درختوں کی کٹائی نے پرندوں سے ان کا مسکن چھین لیا جس کی وجہ سے روایتی پرندے یہاں سے منہ موڑ گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ وہ تمام پرندے جنھیں وہ اپنے بچپن میں دیکھتی تھیں اور شہر میں آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں، انھیں اب وہ اپنے درختوں پر دیکھتی ہیں۔

ان درختوں کی ٹھنڈک، گھنے سائے اور ان پر لگے پھلوں کی تلاش میں کئی قسم کے پرندے یہاں رونق لگاتے ہیں۔ خاص کر ان کے امرود کے درختوں پر دیسی طوطے آتے ہیں اور اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔

کوئل، ہدہد، بلبل اور دوسرے پرندے بھی یہاں کے سبزے کو دیکھ کر زیادہ مائل ہونے لگے ہیں۔

‘یہاں کئی اقسام کی چڑیاں آتی ہیں جو کافی بڑی ہوتی ہیں اور منھ سے عجیب و غریب آواز نکالتی ہیں۔ اور ایک بہت ہی چھوٹا سا پرندہ آتا ہے۔ جو شاید ہم نے کتابوں یا انٹرنیٹ پر دیکھا ہے یا ٹی وی پر۔ اب میں خود یہاں انھیں دیکھتی ہوں اور حیران بھی ہوتی ہوں۔ ‘

اسی سبزے میں گل مہر کے درخت بھی لگائے گئے ہیں۔ مریم بتاتی ہیں کہ ان درختوں کی جانب کافی شہد کی مکھیاں راغب ہوتی ہیں اور وہ شہد بھی خوب بناتی ہیں۔

[pullquote]””زیادہ درخت، زیادہ آکسیجن ””[/pullquote]

مریم کے ایک دوست بلال رضا کارانہ طور پر شہر کے اندر اور باہر ہونے والی شجر کاری کی مہم میں پودے فراہم کرتے ہیں۔

بلال نے ہی مریم کے گھر میں پودوں کا انتظام کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مریم کے گھر میں دیسی درخت اگانے کی ایک خاص وجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں ‘دیسی درخت زیادہ آکسیجن بناتے ہیں جو ہماری ضرورت کے عین مطابق ہیں۔ ‘

انھوں نے ایک اندازے کے مطابق بتایا کہ ایک درخت لگ بھگ 30 بچوں کے لیے آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ ‘جتنے زیادہ رخت ہوں گے، اتنی زیادہ آکسیج بنے گی۔ ‘

بلال بتاتے ہیں کہ انھوں نے مریم کے ساتھ مل کر زمین کو مختلف طریقوں سے ذرخیز بنایا اور پھر اس میں پودے لگائے ہیں۔

مریم شجر کاری کی مہم چلانے میں بھی خاصی سرگرم ہیں۔ وہ وقتا فوقتاً بلال کے ساتھ لاہور کے مختلف پارکوں اور خالی جگہوں پر پودے لگاتی رہتی ہیں۔

مریم بتاتی ہیں کہ وہ اپنا پورا دن اپنے گھر میں لگے جنگل میں اپنے بچوں کے ساتھ گزارتی ہیں تاکہ ان کے بچوں کا قدرت سے تعلق مضبوط ہوسکے۔ وہ انھیں درختوں پر لگے پھل توڑ کر کھاتی ہیں۔

مریم نے اسی جنگل میں اپنے بچوں کے لیے جھولے بھی لگا رکھے ہیں جہاں ان کے بچے اور وہ خود قدرت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

مریم کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کر رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ مستقبل میں وہ اپنے اس مقصد کو جاری رکھیں ‘اپنے لیے اور سب کے لیے۔ ‘

[pullquote]بشکریہ بی بی سی اردو[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے