سفر نامہ کومی کوٹ

ہفتہ کی صبح اسلام آباد سے براستہ موٹروے مظفرآباد کی جانب روانہ ہوئے ۔ میرے ہمسفر مولانا محمد خان عثمانی صاحب (جو کہ رشتے میں خالو ہیں ) سفر کے لئے گاڑی کے بجائے موٹر سائیکل کا انتخاب رہا اگرچہ موٹر سائیکل کا سفر بامشقت تھا لیکن قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے بہترین انتخاب رہا ۔

[pullquote]مقولہ مشہور ہے ” کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے ” [/pullquote]

بہر کیف مری کے قدرتی مناظر کو اپنے کیمرہ کی آنکھ میں قید کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ،جب کبھی وادئ نیلم کی طرف جانا ہو تو راستہ میں پانچ میل اور شاہدرہ کے درمیان ایک دیسی کھانوں کا ہوٹل ہے جہاں دیسی گھی میں چوری بنا کر دی جاتی ہے اور اسکے علاؤہ مکئی کی روٹی اور ساگ بھی میسر آتا ہے اگر آپ کو موقع ملے تو اس ہوٹل پر ضرور جائیں، میں تو ہر دفعہ چائے اور دیسی گھی اسی ہوٹل میں جا کر پیتا ہوں۔

[pullquote]کومی کوٹ [/pullquote]

اسلام آباد سے مظفرآباد جاتے ہوئے چھتر پلین The king Abdullah international university کے ساتھ ہی دائیں جانب ایک چھوٹی سی سڑک مڑتی ہے جو کومی کوٹ کی جانب جاتی ہے بل کھاتی ہوئی سنگل روڈ اور ایک طرف گہری کھائی جبکہ دوسری طرف سبز پہاڑی سلسلہ جوکہ نیلم کی پہاڑیوں سے ملتا ہے خوبصورت مناظر اور لطف اندوز ہواؤں کے جونکے اور ساتھ ہی بل کھاتی ہوئی چڑھائی سے بھرپور روڈ اور کھائی کا خوف بھی رہتا ہے۔

کومی کوٹ سطح سمندر سے قریباً 1150 فٹ اوپر ہے اسکی پہاڑیاں اونچائی میں مری کی پہاڑیوں کے برابر ہے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کومی کوٹ ایک ہی علاقہ کا نام ہے لیکن یہاں آکر پتا چلتا ہے کہ کومی ایک الگ وادی ہے اور کوٹ الگ وادی ہے کوٹ تین کونوں والی وادی کو کہتے ہیں جبکہ کومی کی وجہ تسمیہ سمجھنے سے قاصر ہوں یہ علاقہ خوبصورت قدرتی حسن اور میووں سے مالا مال ہے کئی طرح کے پھل یہاں میسر آتے ہیں لیکن عجب بات یہ ہے کہ یہاں کے پھل برائے فروخت نہیں ہیں۔

یہاں کے پھلوں میں خوبانی ، سیب ، ناشپاتی ، آلوچہ ، آڑو ،آلو بخارا ، اخروٹ آملوک (جاپانی) کے علاوہ کئی طرح کے پھل پائے جاتے ہیں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جو نعمت جس علاقہ میں زیادہ ہوتی ہے اسکی قدر و منزلت وہاں سے ختم ہو جاتی ہے اسی طرح یہاں بھی پھل کافی مقدار میں موجود ہیں لیکن اسکی قدر یہاں کے لوگوں کو اتنی نہیں ہے پھل آپ کو جابجا بکھرے نظر آئیں گے۔

اگرچہ یہ مظفرآباد شہر کے قریب ہے لیکن یہاں دیہی علاقہ جات کی رسم و رواج اب بھی باقی ہیں ،آج کل اکثر دیہی علاقوں میں خالص چیزیں خال خال ہی نظر آتی ہیں لیکن یہاں ملاوٹ سے پاک دودھ ، دہی اور خالص دیسی چیزیں بآسانی میسر آتے ہیں ۔

سہ پہر کو مولانا ظہور احمد صاحب کا ہاں پہنچے جوکہ یہاں کی ایک قدیم مسجد میں گزشتہ 25 سالوں سے دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں انتھک محنتوں کے باوجود یہاں کے لوگوں میں دین سے دوری دیکھنے کو ملتی ہیں، دیسی کھانوں سے مہمان نوازی ہوئی رات کو دیسی پھل اور سونے سے پہلے خالص دیسی دودھ بھی نوش کرنے کو ملا،میں رات بستر پر لیٹا آج سے 1440 سال قبل صحابہ کرام کی جرات اور بہادری کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ کتنے مضبوط اور توانا جسم کے مالک ہوتے تھے جسکی اصل وجہ یہی گاؤں کی دیسی چیزیں ہیں، آج کے معاشی حکمران ہمیں کیمیکل سے بنی اشیاء کھلا کر کمزور و ناتواں کر رہے ہیں ہم اپنی آبائی رسم و روایات اور دیسی اشیاء کو استعمال کرنا بھول گئے ہیں میرے خیال سے یہ بھی ایک منصوبہ ہے کہ ہمیں کمزور کیا جا رہا ہے تاکہ کل کو اگر کسی قسم کی کوئی جنگ ہوتی ہے ہم ایک ناکارہ جسم کے مالک ہوں۔

[pullquote]دوسرا دن[/pullquote]

فجر کی نماز با جماعت ادا کی اور پھر چہل قدمی کے لئے جنگل کا رخ کیا صبح صبح پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں گونج کر دماغ کو سکون پہنچا رہی تھی، سبز پتے، بڑے بڑے درخت ،ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے عجب سی ایک کیفیت دل میں تھی جو بیاں سے باہر ہے، 8 بجے تک واپس آکر دیسی اور خالص دودھ کی بنی چائے دیسی گھی ،شہد اور دیسی انڈوں کے ساتھ ناشتہ کیااور پھر مزید آگے جانے کے لئے روانہ ہوئے.

ایرا سے 30 منٹ کا سفر طے کرکے جھنڈ گراں پہنچے ،قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوئے مولانا منصور صاحب سے ٹیلیفونی رابطہ کی کوشش کی لیکن فنی خرابی کے باعث رابطہ نا ہوسکا پھر یہ تہہ کیا کہ ظہر کی نماز مولانا کے ہاں ادا کی جائے وہیں پر ملاقات ہوسکے گی چنانچہ ظہر کی نماز کے وقت مولانا کی مسجد میں پہنچے با جماعت نماز ادا کی اور انکی مرحومہ پھوپھی کے لئے دعائے مغفرت کی۔

پھر مولانا کے آشیانے پر ظہرانہ کے لیے گئے میں صبح سے سوچ رہا تھا کہ آج دیسی دہی کہیں سے میسر آئے تو پیوں گا، جب دسترخوان سجا تو دہی کا ایک کاسا بھی موجود تھا دل ہی دل میں خوشی سے ‘اللہ اکبر ‘کے نعرے بلند ہو رہے تھے ، پیدل چل چل کر پیٹ میں چوہے بھاگ رہے تھے اس لئے ہم کھانے پر ٹوٹ پڑے،کھانے سے فارغ ہوکر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور پھر مولانا ناشپاتی کے باغ کی جانب لے گئے، وہاں سے ناشپاتی کے دو توڑے بھرے اور کچھ وہیں نوش بھی کئے تاکہ کھانے کے بعد میٹھا کھانے کی سنت ادا ہو جائے ، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے ناشپاتی کے درختوں پر چڑھنے کی ناکام کوشش بھی نہیں کی بلکہ ظہیر اور ہمزہ جو ہمارے رہبر تھے انہیں کو اس کام کے لئے منتخب کیا توڑوں کو ظہیر بھائی اور ہمزہ کے کاندھوں پر لاد کر واپسی کا سفر شروع کیا راستے میں اپنی جوانی کو مانپنے کے لئے 30 کلو ناشپاتی اپنے ناتواں کندھوں پر لاد کرچلنے کی کامیاب کوشش بھی کی اسکے بعد یقین ہوگیا کہ مجھ میں جوانی کی طاقت ہے وگرنہ میں سمجھ رہا تھا کہ اسلام آباد میں رہ رہ کر فارمی مرغا بن گیا ہوں نا تو چل سکتا ہوں نا ہی کوئی وزن اٹھا سکتا ہوں۔

مولانا ہمیں الوداع کہنے بازار تک آئے ، مولانا منصور صاحب کو ایک بہترین مہمان نواز ، خوش مزاج شخصیت ،خندہ پیشانی سے پیش آنے والے ملنسار پایا اللہ تعالیٰ انکی عمر علم میں برکتیں عطاء فرمائے ۔آمین

عصر کی نماز بازار کی ایک مسجد میں پڑھی لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ اس پورے علاقے میں باوجود علماء کی محنت کے دین کی طرف لوگوں کا رجحان بلکل بھی نہیں ہے ، دین سے کوئی تعلق ہی نہیں مسجد کے امام صاحب سے لوگوں کے بارے میں کئی عجیب و غریب انکشافات سننے کو ملے مغرب کی نماز واپس آکر ماموں کی مسجد میں ادا کی اور پھر آپس میں گفتگو میں وقت گزرا ، عشاء کی نماز سے پہلے ہی کھانا تیار ہوا دیسی لوبیا میں ثرید اور مٹی کے پیالے میں دیسی دہی میرے پسندیدہ کھانا ہے جسے کھا کر مزہ دوبالا ہوا، عشاء کی نماز کے بعد پورے دن کی تصاویر دیکھتے رہے اور پھر دیسی دودھ پی کر رات کو 11 بجے نیند کی آغوش میں چلے گئے۔

[pullquote]تیسرا دن[/pullquote]

فجر کی نماز با جماعت ادا کی اور پھر واپسی کی تیاری شروع کی ناشتہ کر کے تیار ہوئے تو ہمیں ایک سیب کا توڑا اور ناشپاتی کا ایک توڑا اور دیسی دودھ اور لسی تھما دیئے گئے ، اب ایک بائیک پر اتنا لے کر آنا ممکن نا تھا دیسی دودھ اور لسی بائیک پر لے آئے باقی دو توڑے بس والے کے حوالے کئے تاکہ وہ اسلام آباد پہنچا دے ۔

واپسی پر کلیاں عثمانی ہوٹل پرکھانا کھایااور پھر سیدھا گھر کی راہ لی اور 1 بجے بخیر و عافیت گھر پہنچ گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے