عالمِ اسلام پر رونا نہیں ہنسنا سیکھیے

جو جو نریندر مودی کو متحدہ عرب امارات کا اعلی ترین سول ایوارڈ ’آرڈر آف زید‘ عطا ہونے پر بل کھا رہا ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہی آرڈر آف زید پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کو جنوری 2007 میں عطا کیا جا چکا ہے۔

جو جو اپریل 2016 میں مودی کو اعلی ترین سعودی ایوارڈ ’آرڈر آف کنگ عبدالعزیز‘ دیے جانے پر معترض تھا شاید اس کے علم میں ہو کہ اگرچہ کسی پاکستانی سویلین عہدیدار کو یہ ایوارڈ نہ ملا ہو مگر چھ پاکستانی جرنیلوں کو پاک سعودی عسکری تعلقات کے استحکام کے اعتراف میں یہ اعلی ترین اعزاز عطا ہو چکا ہے۔

ان میں جنرل پرویز مشرف، جنرل راحیل شریف، جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے دو سربراہ جنرل طارق مجید اور جنرل زبیر محمود حیات، فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان اور نیول چیف ایڈمرل زکا اللہ شامل ہیں ۔یہ سب اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب کشمیر کا انسانی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے، متحدہ عرب امارات اور بحرین کو بھارتی وزیرِ اعظم کو اعلی ترین اعزاز دینے کا فیصلہ پاکستان کی نفسیاتی تشفی کی خاطر کچھ عرصے کےلیے موخر کر دینا چاہیے تھا۔

اس کے ردِ عمل میں پاکستانی سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے متحدہ عرب امارات کا دورہ احتجاجاً منسوخ کر کے ریاست کی علامتی ناراضی کا بھی اظہار کر دیا ہے۔

مگر پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ وہ پچھلے بہتر برس سے اس عالمِ اسلام کی یکطرفہ محبت میں گرفتار ہے جس کا کوئی وجود نہیں۔ یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کہ یہ عالمِ مفادات ہے، جسے نظریاتی، تہذیبی، تاریخی و جغرافیائی رشتوں کے ریشم میں عارضی طور پر لپیٹ دیا جاتا ہے۔

پاکستان نے شاید پہلی بار 1990 میں کویت پر عراقی قبضہ چھڑوانے کی اتحادی مہم میں سعودی خواہش کے برعکس مؤثر فوجی ساتھ دینے سے معذرت کی۔ پھر اپریل 2015 میں یمن کی لڑائی میں خلیجی اتحاد میں شمولیت سے انکار کیا اور اب ایران کے خلاف خلیج میں جو نئی صف بندی ہو رہی ہے اس میں بھی پاکستان اسلامی ممالک کے کاغذی فوجی اتحاد میں علامتی شمولیت، بلاواسطہ دباؤ اور براہِ راست ترغیبات کے باوجود جس حد تک غیر جانبداری نبھا سکتا ہے نبھا رہا ہے۔

اس تناظر میں اگر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات یا دیگر خلیجی ممالک انڈیا کے ساتھ اقتصادی و سٹرٹیجک پارٹنر شپ بڑھا رہے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو پاکستان کی عینک سے نہیں دیکھ پا رہے تو اس پر جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ خارجہ پالیسی کو کسی ایک پلڑے میں نہ رکھنے کی قیمت ہے اور تیزی سے بدلتے علاقائی اتحادی نقشے کے اعتبار سے یہ پالیسی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان کا نام نہاد عالمِ اسلام سے جذباتی رشتہ اس لیے بھی دوسرے مسلمان بالخصوص خلیجی ممالک کی سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان سے انھیں ایسا کیا مل سکتا ہے جس کی مجبوری میں وہ پاکستان کے خارجہ و داخلہ جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اپنی انڈیا پالیسی بنائیں ۔

پاکستان سے خلیجی ممالک نے عسکری و غیر عسکری شعبوں میں جو کچھ بھی لیا وہ قیمتاً لیا۔ اسی طرح پاکستان نے امریکہ اور چین کے لیے جو خدمات انجام دیں یا دے رہا ہے وہ بھی فی سبیل اللہ تو نہیں۔ جیسا کام ویسی اجرت، اللہ اللہ خیر صلا۔ اس میں جذباتی رشتہ کہاں سے آ گیا۔

لہذا آنکھوں میں دھوکہ کھانے والی حسینہ کے آنسو بھرنے کی بجائے کچھ ایسا کیا جائے کہ پاکستان بہت کچھ بیچنے اور خریدنے کے قابل ہو اور لینے والا ہاتھ دینے والے ہاتھ میں بدلتا چلا جائے۔

جس طرح ایک کنبے میں کماؤ پوت کی سب عزت کرتے ہیں اسی طرح عالمی کنبے میں بھی عزت کا یہی معیار ہے۔ اگر مذہبی و ثقافتی رشتے میں اتنی جان ہوتی کہ وہ مادی مفادات پر غالب آ سکتا تو پھر تو کسی مسلمان کو کسی مسلمان سے لڑنا ہی نہیں چاہیے۔ جو کلیہ آپ اپنے خاندان اور پڑوس پر لاگو نہ کر پائے وہ کلیہ بین الممالکی تعلقات پر کیسے لاگو کر سکتے ہیں۔

اچھی بات ہے کہ آپ شیوخ کو تلور کے شکار کی سہولت دیتے ہیں۔ جب وہ تشریف لاتے ہیں تو ان کی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہیں اور ان کی راہ میں قالین کی جگہ خود بچھ جاتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اس مہمان نوازی کے بدلے کسی سے یہ توقع رکھیں کہ وہ انڈیا سے سو ارب ڈالر کی تجارت کو اہمیت نہ دے یا نریندر مودی کو اپنا پیارا بھائی کہتے ہوئے گلے میں اعلی ترین اعزاز نہ ڈالے اور کچھ ہمارے جذبات کا بھی فی الحال خیال کر لے۔

پلیز بڑے ہو جایے اور کھڑے ہو جایے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے