’’اوقات‘‘ سے پابندیٔ اوقات تک

حالات نے اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ ہم لوگ ہیں ڈنڈے کے یار ہی اور یہ جمہوریت وغیرہ ڈھونگ، ڈرامے، نوٹنکی سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے ملک کا سب سے بڑا اور پڑھا لکھا شہر کراچی ہے جسے پورٹ سٹی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور اسے شہرِ قائد بھی کہتے ہیں۔کراچی میں ہر روز ایک نیا تماشا دیکھنے کو مل رہا ہے اور تھیٹر کا یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ایک دوسرے کے گریبانوں سے یوں کھیل رہے ہیں جیسے آوارہ بچے کانچ کی گولیوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ گریبان دھجیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو ایک دوسرے کی پگڑیوں کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیتے ہیں اور جب پگڑیاں بھی لیروں میں بدل جاتی ہیں تو ایک دوسرے کے ’’ملبوسات جمہوری‘‘ پر طبع آزمائی شروع ہو جاتی ہے۔

شاعر نے کہا تھا ’’جہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے مے خانہ کہتے ہیں‘‘ میں نے تو دنیا بھر میں ایسا دیوانہ مے خانہ نہیں دیکھا جہاں رند اس طرح دست و گریباں رہتے ہوں اور یہ سب دھینگا مشتی اور فری اسٹائل ریسلنگ اس وقت اپنے عروج پر ہے جب ’’روشنیوں کا یہ شہر‘‘ اپنے زوال کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔عشروں پہلے ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام شاید ’’چنگاری‘‘ تھا۔ کراچی کے حوالہ سے اس فلم کا ایک گانا بہت مقبول ہوا جس کے بول کچھ اس طرح تھے’’اے

روشنیوں کے شہر بتابے شرمی ہے عریانی ہےیہ دور بڑا طوفانی ہےہے کس نے بھرا یہ زہر بتااے روشنیوں کے شہر بتا‘‘ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔گانے کے بول میں اپنی یادداشت بلکہ کمزور یادداشت کے زور پر لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جو یقیناً سو فیصد درست نہیں ہوں گے لیکن مفہوم سو فیصد کچھ ایسا ہی تھا اور غلط تھا۔ شاعر نے بے تحاشا مبالغہ سے کام لیا تھا کیونکہ یہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے پہلے کا ’’نارمل‘‘ زمانہ تھا جب شہر بھی نارمل تھا جبکہ حالیہ بے شرمی اور عریانی اصلی اور حقیقی، اس لئے کہ سو فیصد ’’جمہوری‘‘ اور ’’سیاسی‘‘ ہے۔جب تک ’’مرد آہن‘‘ الطاف حسین کا آہنی پنجہ اور ڈنڈا سر پر تھا، مجال ہے جو کبھی کسی نے سر اٹھایا ہو یا چوں کی آواز بھی سنائی دی ہو۔

سارے جنگجو تیر کی طرح سیدھے رہتے تھے۔ مثالی ڈسپلن موجود تھا اور جو کچھ مرضی ہوتا ہو نظم و ضبط پوری طرح نافذ تھا اور اسی لئے میں نے کالم کے شروع میں عرض کیا کہ اندر سے ہم ڈنڈے کے ہی یار ہیں۔ ہمیں جمہوریت نہیں آمریت ہی راس ہے کہ صدیوں کی غلامی کے بعد یہی کچھ ہمارے DNAکا غالب حصہ ہے۔میں نے جان بوجھ کر کسی کا نام نہیں لیا کہ میرے لئے سب ہی قابل احترام ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کی عزت کریں نہ کریں، میں ان کی عزت کرتا ہوں اسی لئے اپنے پروگرام ’’میرے مطابق‘‘ میں بھی یہ اپیل کی تھی کہ خدارا! بنیادی ادب آداب کا تو خیال کریں اور اگر کراچی پر قبضہ کے جنون میں جنگجوئی کے بغیر بالکل ہی گزارہ نہیں ہو سکتا تو اس لڑائی مار کٹائی، دھینگا مشتی، گالی گلوچ کی حدود کا تعین ہی کر لیں لیکن نہیں ….. ہماری تو شاید نفسیات ہی برباد ہو چکی کیونکہ جسے دیکھو کراچی کی ’’اقتصادی اہمیت و مرکزیت‘‘ پر ہی فوکس کرتا ہے حالانکہ اس شہر کو اخلاقی جمہوری حوالوں سے بھی ایک ’’ماڈل‘‘ ہونا چاہئے لیکن افسوس اسے بزکشی کا میدان بنا دیا گیا۔ جہاں دیکھو کراچی کی سڑکوں پر کچرے کا ذکر ہے جبکہ میرے نزدیک سڑکوں کے بجائے سوچوں میں کچرا زیادہ تباہ کن اور تکلیف دہ ہے۔

خدا اس شہر کو دونوں قسم کے کچروں سے نجات دلائے اور محفوظ رکھے لیکن اگر یہی کچھ ’’جمہوریت کا حسن‘‘ ہے تو سوائے کڑھنے کے میرے جیسا آدمی کیا کر سکتا ہے جس کے ہاتھ میں کوڑا نہیں صرف قلم ہے۔دوسرے موضوع کا تعلق بھی ’’جمہوری اقدار‘‘ اور ہمارے اجتماعی کردار کے ساتھ ہے۔ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی یعنی ایل ڈی اے نے لیٹ آنے والے ملازمین کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے تو دیر آید درست آید۔ ڈائریکٹر جنرل محمد عثمان معظم شاباش اور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آپ نے اس ’’غیراہم‘‘ اور ’’غیر ضروری‘‘ معاملہ پر توجہ دی تو دو باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ نماز صرف ثواب کیلئے ہی نہیں پڑھی جاتی، یہ انسانی کردار سازی کیلئے ایک ایسا کثیر الجہتی، کثیر المقاصد اور محیر العقول روحانی پیکیج ہے کہ سمجھ کر پریکٹس کی جائے تو پوری قوم کی کایا پلٹ جائے۔

نماز نظم و ضبط، تمیز و ترتیب، طہارت و پاکیزگی، بھائی چارہ، مساوات اور یکسوئی ہی نہیں ’’پابندیٔ اوقات‘‘ بھی سکھاتی ہے ورنہ یہ محاورہ کبھی وجود میں نہ آتا کہ ’’ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں‘‘ اس حوالہ سے چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ رنگ، نسل، مذہب، زبان، کسی تہذیب کی عمر یا خطہ نہیں…. قوموں کے عروج و زوال پر ریسرچ کرنے والوں نے قوموں کے ’’عروج‘‘ کے جن نو (9)بنیادی اصولوں پر مکمل اتفاق کیا، اس میں PUNCTUALITYیعنی پابندیٔ اوقات بھی شامل ہے جس کا ہمارے بڑوں کو بھی شعور نہیں۔

ڈی جی ایل ڈی اے کی یہ پہل کاری قابل داد ہے۔ اسے یقینی بنائیں کہ عبادت سے کم نہیں کیونکہ جو شخص کام کے اوقات میں ڈنڈی مارتا ہے وہ کام چور اور حرام خور ہے جسے ڈنڈے کی زبان میں سمجھانا پڑے تو سمجھائیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی چاہئے کہ ہر سرکاری دفتر میں ’’پابندیٔ اوقات‘‘ کو یقینی بنائیں کہ بہت سے مثبت اور تعمیری کام ایسے بھی ہیں جنہیں کرنے کیلئے نہ پیسہ چاہئے نہ ہی مین پاور…. صرف ہوشمندی اور دردمندی کی ضرورت ہے ورنہ جمہوریت بہترین انتقام تو ہے ہی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے