نیند کیا مانگتے کبوتر سے

ایمیزون کے جنگلات میں آگ لگنے کی ایک وجہ خراب شاعری بھی ہے۔ایک منٹ ! میری دماغی حالت کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے میری دلیل سن لیجیے۔

دیکھیے اس دنیا کے جنگل تیزی سے کاٹنے کی تین بڑی وجوہات ہیں ایک تو درخت کاٹ کر ان سے چارکول تیار کیا جاتا ہے۔دوسرا سبب جنگلات کاٹ کے زراعت کے لیے زمین صاف کی جاتی ہے۔تیسرا سبب کاغذ کا حصول ہے۔ کاغذ مخصوص درختوں کے گودے سے تیار کیا جاتا ہے۔یہ کاغذ دفتری و تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اور ایک بڑی مقدار شعری مجموعے شایع کرنے میں استعمال ہو جاتی ہے۔

ان میں سے اکثر شعری مجموعے ایسے ہیں کہ نہ شایع ہوتے تو ادب کی زیادہ بہتر خدمت ہو جاتی۔جنگلات کی کٹائی سے زراعت کے لیے جو زمین حاصل ہوتی ہے اس پر تو پھر بھی کوئی نہ کوئی مفید فصل کاشت ہو جاتی ہے۔مگر درخت سے حاصل ہونے والے کاغذ پر جو زمین مصرعے بونے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اکثر ایسے بے ڈھنگے پن سے برتی جاتی ہے کہ اس زمین کو دوبارہ استعمال کرنا بھی ممکن نہیں رہتا۔

وہ دور گیا جب سو پشت سے ہے پیشہِ آبا سپاہ گری لکھنے کے باوجود غالب کے لیے شاعری ہی ذریعہ ِ عزت و اتراہٹ ہوا کرتی تھی۔اب تو یہ صورت ہے کہ عربی شاعری کی جنم بھومی سعودی عرب میں بھی شاعر زرا سا سیاسی بحر سے خارج ہوا نہیں کہ اسے کوڑے پڑے نہیں۔تین برس پہلے اشرف فیاض نامی ایک نوجوان شاعر کو عدالت سیاسی شاعری کے جرم میں سو کوڑوں کی سزا دے چکی ہے۔اس کے بعد بحرین اور مصر سے بھی ایسی ہی اطلاعات آ چکی ہیں۔

ہم نہ انسانی حقوق کے وکیل ہیں اور نہ ہی کسی ملک کے قوانین کے ناقد۔مگر دکھ اس پر ہے کہ جس زمین نے امراالقیس ، النبیغہ ، زہیر ابی سلمہ ، الخنسہ ، اروا ، امر ابنِ خلتوم ، حارث ابنِ حلیزہ ، المحلل جیسے عربی ساز شاعروں کو جنم دیا ، جس ریت سے قصیدہ اور ہجوگوئی کی اصناف بگولے کی طرح اٹھیں ، جہاں قبائلی منافقتوں اور فرسودہ روایات پر حملہ آور آوارہ گرد ملنگ شاعر گروہِ سلوک کے نام سے جانے جاتے تھے ، جہاں راویوں کا باقاعدہ ایک طبقہ پیدا ہوا کہ جس کا کام ہی یہ تھا کہ وہ اعلیٰ شاعری کو حفظ کرکے قریہ قریہ عام لوگوں تک شرح کے ساتھ پہنچائے (بعد ازاں یہی روایت حفظِِ قرآن میں ڈھلی )۔

وہ سرزمین جہاں شاعر قبیلے کی پہچان اور اس کا فخر ہوا کرتا تھا ، وہ شعرا کہ جو سال بھر عکاظ کے میلے کا انتظار کرتے تھے تاکہ تیغِ مصرعہ سے زجال برپا کرکے مخالفین کے اشعار قلم کردیں اور سب سے افضل کلام کو کعبے میں لٹکایا جاتا تھا اور جو کلام کعبے میں لٹک جاتا تھا وہ پھر معلقات کے نام سے صحرا کے کونے کونے میں زبان در زبان سفر کرتا تھا۔اس زمین سے جب یہ خبر آئے کہ کسی شاعر کو بے وزن مصرعے کے بجائے سیاسی شاعری پر سزا سنائی تو دکھ تو ہوتا ہے۔

شاعر کو یقیناً سزا ملنی چاہیے مگر سیاسی و انتظامی و نظریاتی وجوہات کے سبب نہیں۔کیونکہ شاعری کی اپنی مملکت ہے اور اس کے اپنے قوانین و رسوم و رواج ہیں۔

ہاں ہمیں ہرگز ہرگز کوئی اعتراض نہ ہو اگر کوئی جج کسی شاعر کو کسی کی زمین بلا اجازت چرانے کے جرم میں بھاری جرمانے کی سزا سنا دے ، یا کوئی ایسا مصرعہ کہنے پر شہر بدر کردے کہ

ہم اہلِ ہجر سے کرنے لگے ہیں دار و رسن یا پھر ایسے شعر پر جائیداد کی قرقی کا اعلان ڈھولچی سے پٹوا دے کہ ،

ہم تو سورج کے انتظار میں تھے

نیند کیا مانگتے کبوتر سے

یا پھر کسی ایسے شعر پر انسدادِ تخلیقی دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلائے کہ

کھڑکی سے بھاگتی تھی دلہن حادثات کی

گھوڑا لیے کھڑا تھا پتیلی حیات کی

یا پھر کسی ایسی نظم لکھنے والے کا سر قلم کروا دے کہ ،

کل میرے شوق کا طوطا انتظار کی سبز مرچیں کھا گیا

رقابت کی غلیل بھی آخر نیم کی شاخ سے بنتی ہے

مگر مچھ نے درخت پے چڑھ کے خودکشی کرلی

مچھلی پانی پیتے ہوئے مر گئی

پادری عیسائی ہوگیا

خانقاہوں کے کبوتر وٹس ایپ استعمال کیوں نہیں کرتے

محبت کی روٹی تو جل چکی

اب ہم ہنی مون کے نوالے کس طرح کھائیں گے

چلو جھینگر کی ناؤ پر بیٹھ کے وہاں چلتے ہیں

جہاں دھوپ مینڈکوں پے وارنش کر رہی ہے

خیال کو اپاہج بنانے کے جرم میں شاعر کے ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان قلم رکھوا کے کسی قلمی جلاد سے بھنچوا کر ہاتھ کو لنجا کرنے کی سزا بھلے فوجی عدالت ہی کیوں نہ دے ہمیں کوئی خوشی ہوگی۔مسلسل خراب شاعری کی پاداش میں قلم اور کاغذ کے تاحیات استعمال پر پابندی کی سب ہی حمایت کریں گے۔پیشہ ور ادبی نقادی کی وہی سزا ہونی چاہیے جو غیر قانونی قحبہ گری کی ہوتی ہے۔جو شاعر میٹر اور وزن کا ٹیسٹ پاس کیے بغیر نثری شاعری میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے اسے پانچ برس گھریلو نظربندی کی سزا پر بھی کوئی ابرو خم نہ ہوگی۔

اب آپ کہیں گے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ اچھی شاعری کیا ہوتی ہے، بری شاعری کسے کہتے ہیں۔کونسی شعری صنف کس صنف سے افضل یا گھٹیا ہے ، تخلیق کسی بھی شکل میں ہوا اسے کسی ایک یا چند سانچوں میں کیسے پابند کیا جاسکتا ہے۔برے اور اچھے خیال کی قانونی تشریح کیونکر ممکن ہے۔

فاضل جج نے خود کس قدر شاعری پڑھی ہے اور اگر فاضل جج یا اس کا والد ، بیوی یا اولاد خود بھی شاعری کرتے ہیں تو وہ غیرجانبداری سے کیسے فیصلہ دے سکتا ہے۔میری استدعا ہوگی کہ عدالت ملزم شاعر پر مقدمہ چلانے کے عمل میں اس طرح کے تخریبی خلطِ مبحث کو سنی ان سنی کردے اور اگر بحثیے عدالتی وارننگ کے باوجود ٹر ٹر سے باز نہ آئیں تو ان پر بھی فساد فی الارض کی کوشش کی فردِ جرم عائد کردی جائے۔

کیونکہ اس طرح کے مباحثے خراب شاعری اور شاعروں کے ہوتے سوتے عناصر صرف اس لیے چھوڑتے ہیں تاکہ ناقص شعریت کی بیساکھیوں پر عزت کمانے والے یونہی دندناتے رہیں اور من ترا حاجی بگویم تو میرا حاجی بگو کا دھندہ چلتا رہے۔

جو عناصر یہ دلیل دیتے ہیں یا دیں گے کہ خراب شاعری و شاعر کا تعین اور درجہ بندی دنیا کے کس قانون کے تحت کون سی عدالت کر سکتی ہے۔ان سے بس اتنا سوال ہے کہ آپ کے ہی ایک گروہ نے کس قانون کے تحت میر ، غالب ، انیس، اقبال اور فیض کو اردو کے پنج شعری قرار دیا ہے اور دوسرا گروہ کس قانونی برتے پر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اردو میں اگر غالب کے بعد کوئی شاعر ہے تو وہ ن م راشد ہے۔اور تیسرا گروہ کس قانون کی کس دفعہ کے تحت مسلسل بتاتا ہے کہ جدید اردو شاعری فیض اور راشد سے شروع ہو کر ناصر کاظمی اور فراز پر ختم ہوجاتی ہے۔اگر دھڑلے سے ادبی فتوے دیے جا سکتے ہیں تو پھر عدالت انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت خراب شاعری کرنے والوں کو قید اور جرمانے کی سزا کیوں نہیں دے سکتی۔

بخدا اس مضمون سے کسی بھی ہما شما کی دل آزاری یا دلداری مقصود نہیں۔مقصد بس اتنا ہے کہ کسی طرح ماحولیاتی آلودگی اور عالمی درجہِ حرارت میں کمی کے لیے ادب کے ممکنہ کردار کی جانب توجہ دلائی جا سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے