ایمان مضبوط ہو گا، منطق ہماری ذرا کمزور ہے

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی یا سپیشل حیثیت جو ہندوستانی آئین میں درج تھی پاکستان اُسے مانتا نہیں تھا۔ پاکستان کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا کہ یہ خصوصی حیثیت ایک ڈھکوسلا ہے جس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ ہم کہتے تھے کہ اصل مسئلہ کشمیر میں استصواب رائے کا ہے اور جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے نہ ہو باقی سب حربے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے متراف ہیں۔ اب جبکہ نریندر مودی حکومت نے وہ سپیشل حیثیت ختم کر دی ہے تو ہم کس چیز پہ احتجاج کر رہے ہیں؟

اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو کچھ ہندوستانی حکومت نے کیا وہ درست ہے لیکن ماضی کی ہماری پوزیشن کو اگر سامنے رکھا جائے تو ہمارے اب کے نکتۂ احتجاج پہ چھوٹا سا سوال ضرور اُٹھتا ہے۔ ہم نے کبھی ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370‘ جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کو سپیشل سٹیٹس کا درجہ دیاگیا‘ مانا ہی نہیں تھا۔ ہم نے اس آرٹیکل میں کبھی کوئی اچھائی نہ دیکھی تھی۔ نہ ہی ہم نے اس قانون کو پسند کیا جس کے تحت غیر کشمیری مقبوضہ کشمیر میں نہ جائیدادیں خرید سکتے نہ نوکریاں حاصل کر سکتے تھے۔ ہم نے ان قوانین کو بھی ڈھکوسلا قرار دیا۔ اب ہم احتجاج کر رہے ہیں کہ کشمیر کے سپیشل سٹیٹس کو نریندر مودی حکومت نے ختم کر دیا۔ ہمارے دیرینہ مؤقف اور اب کے مؤقف میں تھوڑا سا تضاد نظر آتا ہے۔

ہمارا احتجا ج صرف ایک نکتے پہ بنتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پہ ہندوستانی افواج اور دیگر سکیورٹی ادارے ظلم ڈھا رہے ہیں۔ اس ظلم کو اجاگر کرنا نہ صرف ہمارا حق ہے بلکہ ہماری ذمہ داری بھی۔ اور کچھ ہم کشمیریوں کے لئے کر سکیں یا نہ کر سکیں‘ اتنا تو ہمیں کرنا پڑتا ہے۔

لیکن یہ جو ہم نریندر مودی کی تشبیہ ایڈولف ہٹلر سے کر رہے ہیں اس میں ایک مسئلہ ہے۔ ہٹلر نے جو کچھ جرمنی کے اندر کیا یا جو اُس کی پالیسی یہودیوں کے ساتھ تھی اُس سے تب کی دنیا کو زیادہ گلہ نہ تھا۔ ہٹلر نے جرمنی میں نازی پارٹی کی ڈکٹیٹرشپ قائم کی، تمام اپوزیشن پارٹیوں کو کچل دیا اور یہودیوں کو ٹارگٹ کیا‘ لیکن تنقید کی بجائے اُسے بڑا دبنگ لیڈر سمجھا گیا۔ جب پہلی جنگ عظیم کے معاہدوں کو توڑتے ہوئے ہٹلر نے جرمنی کی فوجی قوت بڑھانا شروع کی تب بھی مغربی طاقتوں نے احتجاج نہ کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے معاہدوں کے تحت جرمنی کا انڈسٹریل علاقے‘ جسے رُوہر (Ruhr) کہتے ہیں‘ کی حیثیت ایک غیر فوجی (Demilitarized) علاقے کی تھی‘ یعنی وہاں جرمنی کوئی فوجی دستے تعینات نہیں کر سکتا تھا۔ اقتدار میں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہٹلر نے جرمن فوجی دستے علاقہ رُوہر میں بھیج دئیے۔ فرانس اور برطانیہ یہ اقدام بھی پی گئے۔

ہٹلر نے اور بھی بہت کچھ کیا۔ 1938ء میں اُس نے آسٹریا کو ہڑپ کر لیا۔ گو اُسے اس اقدام میں عوامی تائید حاصل تھی… یعنی آسٹریا کا ایک بہت بڑا حصہ اس اقدام کے حق میں تھا… جو ہوا زورِ بازو سے ہوا۔ جرمنی کی فوجی طاقت نہ ہوتی تو آسٹریا کا ادغام نا ممکن تھا۔ پھر ہٹلر نے اپنے ارادے چیکو سلواکیہ کی طرف موڑے اور یہ مطالبہ کیا کہ وہاں کے جرمن سپیکنگ علاقے جنہیں سیوڈیٹن لینڈ (Sudetenland) کہا جاتا تھا‘ جرمنی میں شامل ہو جائیں۔ میونخ کانفرنس میں برطانیہ اور فرانس نے ہٹلر کا یہ مطالبہ مان لیا۔ یعنی ان ممالک نے ہٹلر کو چیکوسلواکیہ پہ چھری پھیرنے کی اجازت دے دی۔ ہٹلر نے البتہ سیوڈیٹن لینڈ پہ اکتفا نہ کیا اور پور ے چیکو سلواکیہ پہ قبضہ کر لیا۔ تب جا کے برطانوی وزیر اعظم نیول چیمبر لین کی آنکھیں کھلیں۔ جب ہٹلر نے پولینڈ کے جرمن نژاد علاقوں کا مطالبہ کیا تو برطانیہ اور فرانس نے اعلان کیا کہ پولینڈ پہ جارحیت کی صورت میں وہ پولینڈ کے ساتھ ہوں گے۔ جب ہٹلر نہ رُکا اور پولینڈ پہ حملہ کر دیا تو دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی۔

کہنے کا مطلب یہ کہ ہٹلر کے خلاف مغربی طاقتوں نے اقدام تب ہی لیے جب وہ یورپ کے امن کیلئے خطرہ بن چکا تھا۔ دوسرا نکتہ یہ کہ تقریروں اور قراردادوں سے ہٹلر کا کچھ نہ بگڑا۔ ہٹلر کو شکست ہوئی تو فوجی قوت سے۔ وہ بھی تب ممکن ہوا جب ایک وسیع تر اتحاد ہٹلر کے خلاف بن چکا تھا۔

اس سرگزشت سے واضح ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ یا کسی اور ادارے کی ہزار قراردادیں ہندوستان کا کچھ نہیں کر سکتیں۔ اول تو ایسی قراردادیں ہونی نہیں لیکن دلیل کے طور پہ مان بھی لیا جائے کہ عالمی رائے عامہ ہندوستان کے خلاف ہو گی تب بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال محض قراردادوں سے نہیں بدلے گی۔ ایک زمانہ تھا جب دنیا کی رائے عامہ فلسطینیوں کے حق میں تھی۔ آج عالم یہ ہے کہ عرب دنیا زبانی کلامی تو فلسطینیوں کے ساتھ ہے لیکن اُن کے لئے کوئی عملی اقدام کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ہم تو ویسے بھی تنہا ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ صرف ہم کھڑے ہیں اور وہ بھی ایک حد تک۔ اور ہمارے ساتھ صحیح معنوں میں کوئی نہیں۔ امریکیوں کے خلاف ویت نامیوں نے بے مثال قربانیاں دیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ویت نام کو روس اور چین کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ہم نہ ویت نام ہیں اور نہ کوئی روس اور چین ہمارے ساتھ ہیں۔ چین ضرور حلیف ہے لیکن ایک حد تک۔

مزید برآں یہ جو واویلا ہم کرتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان نیوکلیئر طاقتیں ہیں اور دنیا کو اس امر کا نوٹس لینا چاہیے‘ تب ہی معنی رکھتا ہے اگر ہم اعلان کریں کہ کشمیریوں کے لئے ہم جنگ کا خطرہ مول لینے کیلئے تیار ہیں۔ لیکن ہم تو صاف کہہ رہے ہیں کہ جنگ کوئی آپشن نہیں۔ اور ہم اس چیز کے بھی خلاف ہیں کہ کوئی جنگجو تنظیم مقبوضہ کشمیر میں عسکری کارروائیاں کرے۔ یہ بڑی دانش مندی سہی لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ اگر ہمارا یہ مؤقف ہے تو ایٹمی جنگ کا خطرہ کہاں سے آ گیا؟ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال تب ہی قابل تصور ہے جب دونوں ممالک میں جنگ چھڑ جائے۔

اگر ہم نے جنگ کرنی نہیں تو جنگ تب ہی ممکن ہے اگر ہندوستان ہم پہ حملہ کرے۔ ایسا وہ کرے گا جب اُس کے عزائم مقبوضہ کشمیر تک محدود ہیں؟ مطلب یہ کہ آئے روز ہمیں ایٹمی جنگ کے خطرے کی دھمکی نہیں دینی چاہیے۔ اس کا تو مطلب یہی نکالا جائے گا کہ پاکستان سے اور کچھ تو ہو نہیں رہا بس آئے روز یہ دھمکی دیتا ہے۔

بی جے پی حکومت نے جو مقبوضہ کشمیر میں کرنا تھا وہ کر دکھایا۔ یہ ہماری بھول ہے کہ یہ کوئی عجلت میں لیا گیا فیصلہ تھا۔ یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا اور اِس سے نریندر مودی کی داخلی حیثیت جو پہلے ہی مضبوط تھی اور مضبوط ہوئی ہے۔ ہندوستان میں لبرل سوچ رکھنے والے طبقات سراپا احتجاج ہو سکتے ہیں‘ لیکن ہندو اکثریت بی جے پی کے ساتھ ہے۔ جو کچھ ہوا ہے اس کے حق میں ہے۔ مشکل میں ہم پڑ گئے ہیں کیونکہ جواباً کچھ کرنے کی ذمہ داری ہم پہ آن پڑی ہے۔ فی الحال بین الاقوامی میڈیا میں مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ ایک زمانے میں فلسطینیوں کے حق میں بھی بہت کچھ لکھا جاتا تھا۔ لیکن جب یہ وقتی جذبات… اور یہ وقتی ہیں… ٹھنڈے پڑ گئے اور کشمیریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا تو ہم پہ پریشر آتا رہے گا کہ ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ ہم کیا کریں گے، کیا کر سکتے ہیں؟ تقریریں اور سطحی اقدامات اپنی جگہ، ہمارے لئے یہ مسئلہ رہے گا۔

ہمارے ارادے تو بہت بلند ہوں گے لیکن ان ارادوں کا ساتھ ہمارا حوصلہ بھی دے گا یا نہیں۔ یہ اہم سوال ہے۔ اگر آج امریکی افغانستان سے نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں تو یہ طالبان کی طویل جدوجہد کی وجہ سے ہے۔ ایسی جدوجہد کی سکت کیا ہم رکھتے ہیں؟ ہمارے لیے تو آئی ایم ایف ہی کافی ہے، اُس کا ڈر ہمارے دلوں سے جاتا نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ویت نام یا افغانستان نما جدوجہد ایک دور کی کوڑی نظر آتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے