ایک اچھے بچے کی کتھا

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے وہاں کرفیو نافذ ہوئے مہینہ بھر ہونے کو آیا۔ وادی سے نہ خبر آتی ہے نہ یہاں کی خبر وہاں جاتی ہے۔ ایک منحوس سناٹا مسلط ہے۔ جس میں ان سنی چیخیں ہیں اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ۔

وزیر اعظم صاحب نے فرمایا کہ مسلمانوں کے خلاف ہندو ہمیشہ ہی سے سازشیں کرتے آئے ہیں اور یہ سب بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔ ہم بڑوں کی بات مانتے ہیں ہم نے مان لی۔ پھر انھوں نے فرمایا کہ جمعے کو آدھے گھنٹے کے لیے قوم سگنلز پر رک جائے اور دنیا کو بتا دے کہ ہم کشمیر کے ساتھ ہیں۔

ہم ایک اچھے بچے کی طرح قریبی سگنل پر جا کے کھڑے ہو گئے۔ کافی لوگ جمع تھے اور نعرے لگ رہے تھے،پاکستان زندہ باد، کشمیر بنے گا پاکستان۔

نعروں پر غور کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی۔ نعرے لگانے والوں کا جذبہ دیکھنے والا تھا۔

ان نعروں سے دنیا کو یہ بتا کر کہ ہم کشمیر کے ساتھ ہیں لشتم پشتم گھر آئے۔

پھر معلوم ہوا کہ وزیر اعظم نے نیو یارک ٹائمز میں ایک کالم بھی لکھا ہے۔ یقین جانیے خوشی ہوئی کہ نہ صرف ان کو کشمیریوں کے دکھ کا احساس ہے بلکہ وہ دنیا کو مودی کی اصل شکل بھی دکھا رہے ہیں۔ ایک عوامی وزیر اعظم کی یہ ہی شان ہوتی ہے۔

کوئی متکبر شخص ہوتا، مودی کی طرح کا تو اخبار میں ہم گھسیٹا نویسوں کی طرح کالم لکھنے کی بجائے، بڑی طاقتوں سے گٹھ جوڑ کرتا، انھیں باور کراتا کہ دنیا کی بہتری اسی میں ہے کہ کشمیر کا مسئلہ یوں حل کر لیا جائے۔

وزیر اعظم صاحب نے بجا طور پر یہ بھی فرمایا کہ دیکھنا انشاء اللہ مودی کا تکبر میں کھیلا گیا یہ آخری پتہ ہی کشمیر کی آزادی کا باعث بنے گا۔

آپ ذرا صوفیانہ شان دیکھیے۔ مودی کی طرح نہیں کہ جا کر عرب ملکوں سے، میڈل وصولتا پھرے، امریکی صدر کا ذرا رعب نہ مانے بلکہ اس کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کے ہنسے۔ چھچھور پن تو دیکھیے اس کا۔

یہ احتجاج، شنید ہے کہ ہر جمعے دہرایا جائے گا۔

یہ ہوتا ہے جمہوری اور پروقار حکومتوں کا طریقہ۔ کچھ عاقبت نا اندیش کہتے ہیں کہ اپنے ہی ملک میں احتجاج کس سے کر رہے ہیں؟ بیرون ملک پاکستانی احتجاج کریں تو کوئی بات بھی ہو۔

ان کے لیے یہ ہی کہوں گی کہ آپ بھی مودی کی طرح تکبر میں مبتلا ہیں۔ زمین تو اللہ کی ہے ساری۔ تیرا ملک، میرا ملک کیا ہوتا ہے؟ احتجاج ہی کرنا ہے نا، ہم کہیں بھی کھڑے ہو کر کر لیں گے۔ اس باریک نکتے کی سمجھ ان دنیا داروں کو کہاں آتی ہے۔

مزید کچھ چھوٹے برتن چھلکے اور کہنے لگے کہ یہ احتجاج تو کمزور لوگ کرتے ہیں، حکومتیں فیصلے کرتی ہیں اور عالمی رائے عامہ کا دباؤ ڈالتی ہیں کہ اپنے ہی لوگوں کو سڑک پر کھڑا کر دیتی ہیں؟

اب ذرا ان کی حماقت دیکھیے۔ دنیا کے پاس ہم کیا منہ لے کر جائیں گے جب تک ہم پہلے اپنے ملک میں احتجاج نہ کر لیں۔

ایک اور صاحب اتنے بے وقوف کہ کہنے لگے، مودی نے جو کچھ کیا وہ اس کی جماعت کے منشور کا حصہ تھا۔ وہ ان لوگوں کے آگے جواب دہ تھا جنھوں نے اسے اس کا منشور سمجھ کر ووٹ دیا۔ آپ کی جماعت کا منشور کیا تھا؟ انتخابات جیتنے کے بعد آپ نے کشمیر کے لیے کیا کرنا تھا؟

اب یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ انتخابات میں منشور کون پڑھتا ہے؟ ہمارا اصل مسئلہ کشمیر کب تھا؟ ہمارا مسئلہ تو کرپٹوں کا منہ کالا کرنا تھا۔

یہ کہنے کی دیر تھی کہ تنک کر بولے تو ہو گیا ان کا منہ کالا اور ساتھ ہی ہم سب کا بھی۔

یہ بات ہمیں بہت بری لگی۔ ہم نے ان کا نام یاد کر لیا ہے، شکایت لگائیں گے اور مار پڑوائیں گے۔

کشمیر کے لیے ہم بے حد سنجیدہ ہیں اور ہر شہر میں ایک سڑک کا نام کشمیر پر رکھ رہے ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کے دماغ میں اگر ذرا برابر بھی عقل ہو تو وہ اس امر کے پیچھے چھپی حکمت جان کر کانپ جائیں۔

ایک ذریعے کے مطابق پاکستان میں 371 شہر ہیں۔ ہر شہر میں ایک سڑک کشمیر کے نام ہونے سے ہمارے پاس 371 کشمیر آ گئے۔ آدھا کشمیر تو پہلے ہی ہمارے پاس ہے یعنی کل ملا کے ساڑھے تین سو اکہتر کشمیر۔

مودی بے وقوف آدھے کشمیر کے بھی تین ٹکڑے کر بیٹھا ہے ۔ گویا اس کے پاس دو بٹا تین ، دو بٹا تین ،دو بٹا تین کشمیر بچا۔

بہت حساب دان ہو گا یہاں آ کے مار کھا گیا۔ اب حاسدوں کو کون سمجھائے کہ ہم کس سمجھداری سے برسوں پر پھیلے اس مسئلے کو نہ صرف حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ قومی وقار سلامت رکھنے کی بھی کوشش جاری ہے۔

یوں بھی سب ہی جانتے ہیں کہ ہم زبان کے میٹھے، بات کے پکے اور بردباری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ہمارا یہ ہی رویہ ملک کے اندرونی معاملات کے لیے ہے اور یہ ہی لہجہ ہم بیرونی معاملات کے لیے اختیار کرتے ہیں۔

ابھی خبر ملی کہ بین الاقوامی میڈیا بھی کشمیر پر خبریں دے رہا ہے اور بی بی سی تک نے کشمیر کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی ہے۔ کیا عقل کے اندھوں کو یہ سب نظر نہیں آ رہا؟ اس سے پہلے کبھی کشمیر پر کہیں کوئی بات ہوئی؟ اب فضول کی بحث کوئی کرنا چاہے تو اس کے منہ ہم کیا لگیں۔

یہ سب باتیں کرتے کرتے مجھے اپنے کالج کی کینٹین والا وقت یاد آ گیا ۔ جلی حروف میں لکھ کر لگا رکھا تھا ’کشمیر کی آزادی تک ادھار قطعی بند ہے۔‘ یوں ہی دھیان آیا کہ اب ہمارے اقدامات کو دیکھتے ہوئے اس نے یقیناً یہ گتا اکھیڑ پھینکا ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے