ایک قدیم کہانی کا جدید روپ

جب شیر کمزور ہوگیا اور باقی جانور اتنے منہ پھٹ ہو گئے کہ کچھار کے آگے سے گزرتے ہوئے پھبتیاں کسنے لگے تو رہی سہی عزت بچانے کے لیے ایک دن شیر نے تمام جانوروں کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ اب آپ اس قابل ہو گئے ہیں کہ جنگل کا انتظام خود چلا سکیں۔

شیر نے کہا آپ جسے چاہیں حکمران منتخب کر لیں اور اگر کبھی میرے مشورے کی ضرورت پڑے تو حاضر ہوں۔ میری خواہش ہے کہ آپ مل بیٹھ کر ایک نیا آئین مرتب کر لیں تاکہ اس آئین کے تحت ہر پرند، چرند اور درند اس جنگل میں خود کو آزاد اور محفوظ تصور کر سکے۔

چنانچہ تمام جانوروں کی اسمبلی ہوئی۔ درندوں نے دلیل دی کہ شیر نے بھی درندہ ہونے کے سبب ہی جنگل کا انتظام کامیابی سے چلایا ہے لہٰذا حقِ حکمرانی انھی کا ہونا چاہیے جن کے دانت نوکیلے اور تیز دھار ہوں۔ چرندوں کے نمائندے نے کہا کہ ہماری تعداد بھی کم نہیں اور چونکہ ہم دوسرے جانوروں کا شکار نہیں کرتے لہٰذا باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں رہے تو جنگل کے باسی خود کو زیادہ محفوظ تصور کریں گے۔

پرندوں نے دلیل دی کہ چونکہ وہ درندوں اور چرندوں کے مقابلے میں اڑنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں لہٰذا اگر کسی بیرونی دشمن نے اس جنگل پر حملہ کرنے کی ٹھانی تو انھیں پہلے سے پتہ چل جائے گا کہ دشمن کس سمت سے آ رہا ہے اور اس کی تعداد و طاقت کتنی ہے۔ چونکہ وہ اڑ سکتے ہیں لہٰذا مصیبت کے وقت ساتھ کے جنگلوں سے بھی تیزی سے مدد مانگ سکیں گے۔ اس لیے جنگل کی قیادت اگر ان کے پاس رہے تو وہ زیادہ بہتر انتظام چلا سکیں گے۔

کئی دن کے مباحثے کے باوجود چرند، درند اور پرند کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ معاملہ پھر بوڑھے شیر کے پاس گیا۔ اس نے تینوں فریقوں کے دلائل سن کے تجویز دی کہ چونکہ آپ کے دل میں ایک دوسرے کے بارے میں حسنِ ظن کی شدید کمی ہے لہٰذا ایک ہی حل ہے کہ جنگل کو درندوں اور چرندوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے اور پرندے چونکہ اڑ سکتے ہیں چنانچہ وہ پورے جنگل میں کہیں بھی گھونسلہ بنا سکتے ہیں۔

چنانچہ حد بندی ہو گئی اور طے پایا کہ اگر کوئی درندہ یا چرندہ غلطی سے ایک دوسرے کے علاقے میں چلا جائے تو اسے تنبیہ کر کے واپس کر دیا جائے گا۔درندستان نے اپنا حکمران بھیڑیے کو چن لیا اور چرندستان نے اپنی زمامِ کار چاق و چوبند پھرتیلے بندر کے ہاتھ میں دے دی۔

ایک دن چرندستان سے ایک بکری کا بچہ غلطی سے درندستان کی حدود میں داخل ہو گیا۔ گشت پر موجود بھیڑیوں نے اسے کھا لیا۔ جب یہ خبر ایک عینی شاہد چڑیا نے بکری کے بچے کے والدین کو سنائی تو وہ بندر بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور دہائی مچا دی۔

تمام چرندے محل کے باہر جمع ہو گئے اور درندستان کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ بندر بادشاہ نے بالکونی میں آ کر رعایا کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے یقین دلایا کہ بدلہ ضرور لیا جائے گا اور ضرورت پڑی تو اردگرد کے جنگلوں میں رہنے والے چرندوں سے بھی انصاف کے لیے مدد طلب کی جائے گی۔

طوطے، مینا، چڑیا، جنگلی کبوتر وغیرہ کو ایلچی بنا کے دیگر جنگلوں کی طرف اڑایا گیا۔ کچھ دن بعد خبر آئی کہ درندستان کے سات لگڑ بگوں نے چرندستان اور درندستان کی سرحد پر بہنے والے نالے پر پانی پینے والے بھیڑ کے تین بچوں کو اغوا کر لیا۔ دو کو کھا لیا اور ایک کو زخمی کر کے چھوڑ دیا۔

چرندستان میں پھر دہائی پڑ گئی۔ چرندوں نے بندر بادشاہ کے محل تک احتجاجی جلوس نکالا۔ پوری فضا انتقام، انتقام کے نعروں سے گونج اٹھی۔ بادشاہ نے پھر بالکونی پر آ کر خطاب کیا اور خوشخبری سنائی کہ دیگر جنگلوں کے باسیوں نے ہمیں بھرپور مدد کا یقین دلایا ہے۔ اگرچہ باز اور عقاب گوشت خور پرندے ہیں مگر ان کی برادری نے بھی درندستان کی ممکنہ جارحیت کی صورت میں ہر طرح کی مدد کا وعدہ کیا ہے۔ ہمیں جوش سے زیادہ ہوش دکھانے اور درندستان کی چیرہ دستیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درندستان والے کسی بھی جنگل میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔

عین اس خطاب کے دوران ایک طوطا اڑتا ہوا آیا اور محل کی منڈیر پر بیٹھ کر چلانے لگا درندستان کی لومڑیوں نے بگلوں کے ایک خاندان کو چیرپھاڑ دیا، میں نے خود دیکھا ہے۔ مجمع آگ بگولا ہو گیا اور فضا پر درندستان مردہ باد کے نعرے چھا گئے۔

بندر بادشاہ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سے دوسرے درخت پر لٹکنا، اترنا، چڑھنا شروع کر دیا۔ وزیرِ باتدبیر سارس نے پوچھا بادشاہ سلامت یہ آپ کیا کر رہے ہیں تو بندر نے پھولی سانس کے ساتھ کہا دیکھ نہیں رہے کہ میں اس بحران کے حل کے لیے پسینہ پسینہ ہو رہا ہوں۔

بادشاہ کی ایسی انتھک محنت دیکھ کر مجمعے نے چھٹنا شروع کر دیا۔ شام کو بندر محل سے حکم جاری ہوا کہ چرندستان کی حدود میں رہنے والے تمام پرندے درندستان سے ملنے والی حدود سے کم ازکم دس کلومیٹر دور رہیں گے۔

وہ جو بھی دیکھیں گے اسے عوام کو بتانے سے پہلے بادشاہ سلامت کے وزیرِ باتدبیر سے کلیئر کروائیں گے تاکہ چرندستان میں خواہ مخواہ اشتعال نہ پھیلے اور بادشاہ سلامت بحران کا حل نکالنے کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں وہ متاثر نہ ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے