جہاں ہمیں قتل کیا جائے گا

28 رجب کو آل محمد کو قافلہ مدینہ سے مکہ کی جانب نکلا ، وجہ یہ تھی کہ رسول کی آل پر وقت کے حکمرانوں نے زمین تنگ کر دی تھی۔ یہی آل رسول 8 ذوالحجہ کو حج بیت اللہ ترک کے اس وقت کعبۃ اللہ سے روانہ ہو گئے جب دنیا بھر کے مسلمان فریضہ حج کی برآوری کیلئے مکہ جمع ہو چکے تھے۔ یہاں پر بھی وجہ وہی تھی ، بیت اللہ میں حسین کو قتل کرنے کا منصوبہ تھا۔ بیت اللہ حرمت کو بچانا مقصود تھا ، حرمت کا مہینہ تھا ، سو وقت کے امام نے حج ترک کر دیا ، سوچنے کی بات ہے کہ سارے مسلمان وہاں موجود تھے ، جید صحابہ کرام کی اولادیں موجود تھیں کسی نے بھی حسین ابن علی سے نہیں پوچھا کہ ایسی کیا افتاد آن پڑی کے آپ حج چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ اور اگر کسی نے نہیں پوچھاتو کیا کوئی اہل ایمان ایسا بھی تھا جو حج کی غرض سے آیا ہو اور حسین کے ساتھ ہو لیا ہو ؟

خیر 8 ذوالحج کو مکہ چھوڑنے والا قافلہ 2 محرم الحرام کو عراق کے صحرا میں پہنچا ۔ امام حسین ؑ کا رہوار چلتے چلتے اچانک ایک صحرا میں رک گیا اور آگے نہ بڑھا۔ امام نے فرمایا یہاں قریب کوئی بستی ہے وہاں کے لوگوں کو بلا لاؤ ۔‏جب وہ لوگ آگئے امام نے ان سے پوچھا اس زمین کا نام کیا ہے ایک شخص آگے بڑھا کہا مولا اس زمین کو طف ( فرات کا ساحل ) کہا جاتا ہے ۔ امام نے پھر پوچھا کیا اس جگہ کا کوئی اور نام بھی ہے آواز آئی ! مولا اسے غاضریہ / الغادریہ بھی کہا جاتا ہے۔ امام عالی مقام نے ایک بار اور پوچھا اس زمین کا کوئی اور نام بھی ہے ؟ کہا مولا اسے شاطئی الفرات بھی کہا جاتا ہے۔ کوئی اور نام ؟ اس بار ایک بوڑھا شخص آگے بڑھا کہا مولا اسے کرب و بلا بھی کہا جاتا ہے ۔

اس امام علیہ السلام کے لبوں پر کلمہ استرجاع بلند ہوا ا! انا اللہ وانا الیہ راجعون ○۔ شبیہہ پیغمر فرزند امام حسین جناب علی اکبر آگے بڑھے پوچھا اس وقت کلمہ استرجاع بلند کیوں کر رہے ہیں بابا ؟ پوچھا بیٹا موت کیا سمجھتے ہو ؟ بابا کیا ہم حق پر نہیں ، اگر حق پر ہیں تو پھر موت سے کیا ڈرنا ، موت ہم آپ آن پڑے یا ہم موت پر جا پڑیں ، تب امام نے فرمایا یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں قتل کیا جائے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے