تاریخ اسلام کو عقائد کی بنیاد نہ بنایئے

بات سوشل میڈیا پر موجود ”تاریخی مواد“ کے حوالوں سے شروع ہوئی تھی۔ہوتا یوں ہے کہ سوشل میڈیا پہ (بالخصوص محرم الحرام کے دنوں میں)، تاریخ اسلام کی بابت، چند گمنام قسم کی پرانی تاریخی کتب کے بوسیدہ اوراق کے امیج شےئر کئے جاتے ہیں، بعض جدید”دانشوروں“ کے اقوال زریں پوسٹ ہوتے ہیں اور گاہے ”اتحادِ امت“ کے نام سے لیکچرز کے ویڈیو کلپ لگائے جاتے ہیں۔

اور ان سب کی بنیاد، محض مشکوک تاریخی افسانے ہواکرتے ہیں۔

نوجوان نسل، سوشل میڈیا پر پیش کئے گئے ان”تاریخی“حوالوں سے متاثر ہوکر، صحابہ کے کردار اور انکی سیرت بارے بدگمان ہوجاتی ہے۔صحابہ کے کردار کا مشکوک ہونا، گویا پورے دین کا مشکوک ہونا ہے۔ اس لئے کہ اسی طبقہ کے واسطے سے ہی ہم تک دین پہنچا ہے۔

لہذا ان”’تاریخی“حوالہ جات کا پوسٹ مارٹم کرنا نہایت ضروری معلوم ہوا۔یہ موضوع ایک خاصی ضخیم کتاب کا متقاضی تھا۔الکشن اور سیاست کی دلداہ قوم میں چند ہی ہونگے جو ایسے موضوعات کے لئے وقت نکالیں گے۔ خاکسار کے ذہن میں یہ خیال آیا ہے کہ تاریخی واقعات کو سچ یا جھوٹ ثابت کرنے پروقت اور توانائی صرف کرنے کی بجائے، ایسا کیا جائے کہ”’ تاریخ“ کو بطورایک سبجیکٹ زیربحث لاکر، اس پر متوازن تجزیہ کرنے کا اسلوب پیش کیا جائے تاکہ نوجوان نسل، تاریخ اسلام کا منطقی تجزیہ کرکے خود ہی حق بات تک پہنچ سکے اور اسلام کے اوّلیں شاہدین بارے بدگمان نہ ہو۔

بالفاظ دیگر، اس مضمون سے مقصود، قارئین کو تاریخ اسلام کے واقعات سنانا نہیں بلکہ تاریخ پڑھنے کے اسلوب سے متعارف کرانا ہے-

بحیثت ایک مسلم سیکولرکے، اگرچہ خاکسارنے یہ تجزیہ، اپنے ذاتی عقیدہ کی بجائے، لوجک اور منطق کی بنیاد پہ مرتب کیا ہے (مسلم سیکولر، اپنے فردی عقیدہ سے چاہے کتنی جذباتی وابستگی رکھتا ہومگر اپنی بات کوصرف دلیل سے موئد کرے گا)، تاہم اس میں ذاتی عقیدت کا رنگ بھی ضرورجھلکتا نظر آئے گا۔ کسی سے محبت ہونا اور اسکا اظہار کرنا،طبعی اور نارمل بات ہے، بس یہ کہ عقیدت کو عدل پہ غالب نہیں آنا چاہیئے۔

البتہ، اسلامی تاریخ کا تجزیہ کرنے والے، اپنے”ہم عقیدہ“دوستوں سے دوخاص باتیں عرض کرنا ہیں۔ ایک یہ کہ جب بھی” تاریخِ اسلام“ پڑھیں تو اسکو ایک مشکوک مجرم تصورکرکے، اپنی عقل کے کٹہرے میں پیش کر کے پڑھا کریں لیکن جب قرآن کو پڑھیں توپھر اپنی عقل کومشکوک مجرم سمجھ کر، قرآن کی حقانیت کی تصدیق کرتے پڑھیں،چاہے عقل مانے یا نہ مانے۔

آمدم برسرموضوع!

آپکو جب بھی تاریخ اسلام کا کوئی واقعہ پڑھنے سننے کو ملے تو ان کو چار اہم ”ٹولز“( TOOLS )کے ذریعہ پرکھا کریں۔

اس چھلنی سے گذارنے کے بعد، آپ تاریخی واقعات کو حقیقی انداز میں سمجھ سکیں گے۔تاہم، ان ٹولز پر بات کرنے سے پہلے، اسلامی تواریخ بارے ایک مختصر تبصرہ بطور تمہید آپکے سامنے رکھنا مناسب سمجھتا ہوں۔

[pullquote]تاریخِ اسلام اور پاکستانی صحافت:[/pullquote]

اسلامک ہسٹری اور موجودہ پاکستانی صحافت میں کوئی خاص فرق نہیں کہ یہاں بھی”خبر“ کو”وقوعہ “کی بنیاد پر نہیں بلکہ”پاپولیرٹی“کی بنیاد پہ رپورٹ کیا جاتا ہے۔ (جیسے چند سال قبل، ہمارا میڈیا،لال مسجد میں ہزاروں بچیوں کی جلی لاشوں کو رپورٹ کرتا رہا ہے۔ہوسکتا ہے کہ سو سال بعد، ”جنگ“ اخبار کی یہ خبر”تاریخی حوالہ“ بن جائے اور اگر کوئی ان مقتول بچیوں کا نام و پتہ پوچھنے کی منطقی جسارت کرے تو گستاخ یا وہابی قرار پائے)۔

ہمارے اکثر اسلامی تاریخ نویس حضرات،موجودہ دور کے پاکستانی اینکرز سے مختلف نہیں تھے لیکن وہ بھی اپنے بڑے ناموں کی وجہ سے اب”سند“قرار پاچکے ہیں-(اس لئے میں نے تاریخ فہمی کیلئے، چار ٹولز استعمال کرنے کی درخواست کی ہے)۔

خاکسار کی اس بات کو مثال سے سمجھنے کیلئے، حال کا ہی ایک واقعہ یاد کیجئے۔ہمارے میڈیا کا ایک معروف نام،ڈاکٹر شاہد مسعود، کروڑوں لوگوں کو اپنے کسی”سورس“ کے واسطے سے، الکشن میں دھاندلی بارے” 35 پنکچروں“ کی کہانی سناتا رہا لیکن جب عدالت میں جھوٹ کا پول کھلا تو ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ میں نے تو فلاں سے یہی سنا تھا اس لئے آگے بیان کردیا۔

اب موصوف اور عدالت، دونوں کیلئے بات ختم ہوگئی لیکن مستقبل کا کوئی نوجوان، ڈاکٹر شاہد مسعود کا حوالہ دیتے ہوئے کہے گاجناب! یہ آپکی صحافت اتنا بڑا نام ایک بات کہہ رہا ہے تو کیا وہ جھوٹ بول سکتا ہے؟۔(یہاں ڈاکٹر شاہد مسعود کا نام فقط اپنی بات سمجھانے کوعرض کیا ہے)۔ایسے کئی اور صحافی بھی ہونگے مگر چونکہ موصوف باقاعدہ عدلیہ سے غلط بیانی کی سند لے چکے تو انکا نام لیا جاسکتا ہے۔ پس ڈاکٹر موصوف جیسے ہی بعض تاریخ نویسوں کے نام، کچھ زیادہ ہی معتبر قرار پاچکے ہیں۔

مزید، آج کی صحافت کے حوالے سے یہ بھی سمجھ لیجئے کہ جسطرح آج میڈیا میں حکومتِ وقت کو”ہربرائی کی جڑ“ پینٹ کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے عوام میں ریٹنگ بڑھتی ہے، بالکل اسی طرح پرانے تاریخ دانوں کا بھی یہی حال تھا کہ اپنی ریٹنگ( یعنی عوام کو خوش کرنے )کے چکر میں، حقائق کو فسانہءعجم کی بھینٹ چڑھاتے گئے۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ اسلام کی اوّلیں حکومت کی اپوزیشن کون تھی؟ یہ یہودی تھے(کہ جن کوانکے وطن سے جلاوطن کیا گیاتھا)۔

دراصل،حضرت عمر کے دور تک یہ واضح ہوگیا تھا کہ اسلام کے ساتھ مسلح مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔حضرت عثمان کے دور سے مذکورہ اپوزیشن نے اپنی سٹریٹیجی تبدیل کی اور مسلمانوں کواندر سے توڑنے کا پروگرام بناکر، ان میں تفریق پیدا کرنے کے لئے، پراپیگنڈے کا سہارا لیا تھا۔

آپ کو اسلامی مورخین میں اکثر عجمی ملیں گے یا چند وہ عرب مصنف جو حجاز سے باہر کے ہونگے کیونکہ حجاز کے عرب، عالم کفر میں بھی کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ (یوں بھی عرب قبائل کی باہمی دشمنی ظاہر و باہر ہوتی تھی، وہ لمبی سازشیں نہیں کیا کرتے تھے)۔

ایسی لمبی پلاننگ کرنا جیسے دور دراز علاقوں میں حضرت عثمان کے خلاف جھوٹے واقعات پہ مبنی خفیہ خطوط کا پھیلانا وغیرہ، صرف یہودی ذہنیت کا کام تھا۔(نبی اکرم کے ہوتے بھی یہود نے جنگ خندق کے موقع پر اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ کا تھا)۔

اسی یہودی ذہنیت نے اسلام کی جڑ کاٹنے کے لئے تاریٰخ کو سبوتاژ کیا۔(یہاں یہودی بمعنی سازشی بھی لیا جاسکتا ہے)۔

ابتدائی عرب لوگ، لکھنے پڑھنے والے نہ تھے، انکو اپنے حافظے پر بھروسہ ہوتا تھا۔لہذا، خود صحابہ نے تو تاریخ نہیں لکھی۔لکھنے پڑھنے والے عجمی لوگ نمودار ہوئے اور ان میں اکثر کی اسلام سے وابستگی مشکوک تھی جنکا پہلا حملہ، مرکزی حکومت سے عامتہ الناس کو بدظن کرنا تھا۔شومئی قسمت، علی و معاویہ کی باہمی لڑائی میں ، ظاہری طور پر امیر معاویہ کا پلّا بھاری رہا پس، اکثر تاریخی کتب میں، امیر معاویہ کو بہت برا آدمی پینٹ کیا گیا(حالانکہ امیر معاویہ، اس عمرفاروق کی سلیکشن تھی جو انصاف کی خاطر، اپنے سگے بیٹے کو بھی سزائے موت دے دیتا ہے)۔مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت علی جیت جاتے اور حکومت بنا لیتے تو یہ دشمنان اسلام، حضرت علی کی مرکزی حکومت کے خلاف بھی ایساہی لٹریچر تیار کرتے۔ اس لئے کہ ان کا مقصد صرف مسلمانوں میں نفاق پھیلانا تھا۔

ظاہر ہے کہ ہر دور میں حکومت مخالف بات کو فطرتاً عوامی پذیرائی ملا کرتی ہے۔آج بھی دیکھ لیں، وہ اینکر اور صحافی عوام میں زیادہ مقبول ہوگا جو حکومت کے بخئے ادھیڑے۔(حکومت، اول تو اپنی طاقت کے زعم میں، اس پراپیگنڈے کی پرواہ نہیں کرتی جسکی وجہ سے الزام، حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے، دوسرے اگر حکومت اپنی صفائی دینے کی کوشش بھی کرے تو عوام لفٹ نہیں کراتے)۔

چونکہ ہر دور میں، اپوزیشن کی بات کو ہی عوامی پذیرائی ملتی ہے۔پس، بنو امیہ کے خلاف پراپیگنڈہ آسان تھا،رہی سہی کسر، واقعہءکربلا نے پوری کردی اور فتنہ سازوں نے اس دلدوز واقعہ کی آڑ میں صحابہ کے کردار پہ نامعقول جرح شروع کردی۔

جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میرے لئے،صحابہ کے مقام کا تعین کرنے کا پیمانہ قرآن ہے، نہ کہ ہسٹری۔میری درخواست فقط اتنی ہے کہ سانحہ کربلا کی آڑ میں، جمیع صحابہ کی توہین نہ کی جائے(البتہ، یزید کو صحابی ثابت کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے)۔

خود کو مسلم سیکولرگردانتے ہوئے، دوستوں کو یاددہانی کراؤں گا کہ”سیکولرزم“ میں اگر کسی شخص کیلئے، عقیدہ وذات ورنگ و صنف کی بنا کر تقدیس قبول نہیں ہے تو انہی چیزوں کی بنا پر کسی کی تذلیل و تحقیر بھی روا نہیں ہے ۔

لہذا،ایک سیکولر شخص بھلے تاریخ اسلام کو زمینی حقائق اورمروجہ منطق کے طور پر سٹڈی کرے،مگر اسکو گروہ صحابہ کی تحقیر کرنے کا ہرگز حق نہیں(سیکولرز، کسی اقلیتی گروہ کی تحقیر کو برا خیال کرتے ہیں تو دنیا کی کل آبادی کے چوتھائی حصے کے مذہبی اکابرین کی اہانت کیونکر گوارا کرسکتے ہیں؟۔ایسا رویہ رکھنے والے کواپنے دعوائے سیکولرزم پر مکرر غورکرنے کی ضرورت ہے)۔

مندرجہ بالا ضروری تمہید کے بعد، اب ان چار ٹولز کا بیان شروع تا ہے جنکی مدد سے آپ کسی تاریخی واقعہ کی حقیقت، اہمیت اور درست حیثیت کا اندازہ کرسکیں گے۔ اگر آپ چار ٹولز کی عینک لگا کر تاریخ پڑھیں گے تو امید ہے بہت سی الجھنیں رفع ہوجایں گی۔تاہم، اس ٹول کے استعمال کے بعد آپ رائے قائم کرنے میں آزاد ہیں،چاہے وہ مسلمانوں کے سواد اعظم کی جانب ہو یا دوسری جانب۔

[pullquote]1-پہلا ٹول”عام انسانی منطق“[/pullquote]

تاریخ کو سمجھنے کاپہلاٹول،”انسانی منطق“ ہے(اس لئے انسان کوعقل کی نعمت سے بہرہ ور کیا گیا کہ اسے استعمال میں لائے-(اولی الالباب)۔

چونکہ ہم عام ہسٹری نہیں پڑھ رہے بلکہ تاریخ اسلام پڑھ رہے ہیں تو واقعات کے تجزئے میں، اپنے لوجک کے استعمال کے بعد، ہم قرآن کو بھی ضرور دیکھیں گے۔اگر تاریخ کا قرآن و حدیث سے بظاہر تعارض نظر آئے تو ان میں لوجیکل تطبیق کی پوری کوشش کریں گے۔ اگریہ نہ ہوسکے تو پھر آپ کی چوائیس ہے کہ ہسٹری کو چھوڑ دیں یا عقیدہ کو ۔

مناسب تو پھر بھی یہی ہوگا کہ قرآن کے مقابل ہسٹری کو رد کیا جائے کیونکہ قرآنی اخبار کی حفاظت میں غیرمعمولی احتیاط برتی گئی ہے-(یہاں قرآن کو بطور عقیدہ کی بجائے” سٹنڈرڈہسٹری ریفرنس “ لیا جائے)۔

پہلے عرض کرچکا ہوں کہ میرا مقصود، آپکو تاریخی واقعات کی تفصیلات سے نہیں بلکہ تاریخی تجزئے کے طریقہ کار سے آگاہ کرنا ہے پس، منطق اورقرآن کی تطبیق کیسے ہوتی ہے؟ اس کے لئے ایک عام معروف تاریخی واقعہ کو مثال بناتے ہیں۔

1- ہم تواتر سے سنتے ہیں کہ اسلام سے پہلے عرب لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔اس بارے میں تاریخ میں یہ روایات بھی ہیں کہ ایک صحابی نے اپنی بچی کو زندہ دفن کرنے کا دلدوز واقعہ حضور کو تفصیل سے سنا یا تو سرکارعلیہ السلام رو پڑے۔(کہ میں اسکے لئے قبر کھود رہا تھا، وہ معصوم اپنے دوپٹے سے میرا پسینہ پونچھ رہی تھی وغیرہ)۔

2- حضرت عمر کے سخت دل ہونے کے ثبوت میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لوگ، اپنی بچیوں کودفن کرنے، انکی خدمات حاصل کرتے تھے۔

3- مکہ میں ایک قبرستان کے متعلق یہی کہا جاتا ہے کہ یہاں زندہ درگور ہونے والی بچیاں دفن ہیں۔

آخر میں،ان سب تاریخی روایات سے یہ نتیجہ نکالاجاتا ہےکہ عربوں میں عورت ایک گھٹیا ترین چیز گنی جاتی تھی۔(گویا اس تاریخی واقعہ کا ماحصل، اس دور میں عورت کی حیثیت کا تعین کرناہوا)۔

آیئے کہ اس عام واقعہ کو منطق کی سان پہ پرکھ کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہم درست نتیجہ تک پہنچے ہیں؟۔

1- اگر عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے تو پھر عرب میں اتنی عورتیں کہاں سے آئیں کہ ایک آدمی 4،4 شادیاں کرلیتا تھا؟اور اگر یہ دفن کرنا، عام رواج یا عزت کی بات تھی تو سرداران مکہ، سب سے پہلے یہ کام کرتے لیکن انکی بیٹیاں تو زندہ تھیں۔ابوسفیان کی بیٹی، حضور کی بیوی بنی۔

2- معصوم بچی والے واقعہ میں دوپٹہ کا ذکر ہے۔عرب کی بڑی عورتوں میں دوپٹے کا رواج نہیں تو بچی کا دوپٹہ کہاں سے آیا؟معلوم ہوتا ہے،کسی نے اسلام کی خوبیاں بتانے، نیک نیتی سے ایک متاثرکن واقعہ تصنیف کیا ہے۔

3- حضرت عمر، اگر اس کام کے لئے مشہور تھے توانکی بیٹی، سیدہ حفصہ کیسے بچ گئی؟ جنکی حضور سے شادی کے وقت 27 سال عمر تھی؟یعنی اسلام سے پہلے پیدا ہوئی تھیں۔

4- جہاں تک قبرستان کا تعلق ہے تو اسکی کوئی کتابی سند نہیں کہ یہ اسی کام کے لئے مخصوص تھا۔

5- اسکے علاوہ، اگر یہ کام اتنا ہی عام تھا تو تقریبا”،سوالاکھ صحابہ میں سے اور کس کس نے بیٹی دفن کرنے کا اقرار کیا؟ وغیرہ وغیرہ

جب واقعہ،منطقی چھلنی سے گذراتو مشکوک ہوگیا اور جب اصل واقعہ ہی مشکوک ہوگیا تو اسکی بنیاد پر اخذکردہ نتیجہ (یعنی عرب میں عورت گویا جانور سے بھی بدتر تھی) بھی بے حیثیت ہوگیا۔بلکہ مذکورہ نتیجہ کو تو خود تاریخ ہی سے رد کیا جاسکتا ہے۔

تاریخ ہی بتاتی ہے کہ عرب کے خاندانی لوگوں میں زنا کرنا، ایک عار تھا۔(فتح مکہ کے موقع پر ہندہ کی گفتگو ملاحظہ کیجئے)۔اگرچہ عرب مرد، عورت کیلئے ترستے پھرتے تھے، گاہے زنا بھی کرلیتے تھے مگر کبھی کسی نے عورت کا ”ریپ“ نہیں کیا تھا۔اکیلی عورت لمبے سفر پہ جاتی تو احتراماً ساتھ ہوجاتے تھے۔بلکہ عورت ایک قیمتی چیز تھی جو منہ مانگے مہر پر اپنا شوہر پسند کرتی تھی۔مطلب یہ کہ عربوں میں عام طور پر، عورت، محفوظ اور قابل عزت تھی۔(ہر وہ معاشرہ جہاں ہم جنس پرستی نہیں ہوگی، وہاں عورت کی عزت و قیمت ہوگی)۔

مذکورہ بالامنطقی بحث کے بعد، بطور خالص سیکولر، میرے لئے اس واقعہ کا نتیجہ”مٹی پا ؤ“ نکلے گا۔مگر بطور مسلم سیکولر، میرے لئے یہ اڑچن ہے کہ یہاں قرآن بطور ہسٹری کے سامنے آجاتا ہے جو ہمکو دفن شدہ بچی کا استغاثہ سناتا ہے(بائی ذنب قتلت)۔

یہ آیت بتاتی ہے کہ واقعہ ہواہے۔منطق بتاتی ہے کہ افسانہ ہے۔لہذا،ہم اس آیت کی، اور اپنی مذکورہ منطق کی تطبیق کرنے کی کوشش کریں گے۔

آپ نے سنا ہوگا،سندھ کے وڈیرے، اپنی جاگیر کو تقسیم سے بچانے کےلئے، بہنوں بیٹیوں کی قرآن سے شادی کردیتے ہیں۔اس کے بعد یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ سندھ کے جاگیرداری نظام میں عورت پاؤں کی جوتی ہے۔

تو کیا سندھ کے جاگیردار واقعی ایسا کرتے ہیں؟

اگر ایسا ہے توپھر بے نظیر سے لیکر فریال تالپور تک عورتیں کہاں کی ہیں؟

اصل بات یہ ہے کہ شاذونادر کسی نے ایسا کیا ہے مگر چونکہ ”قرآن سے شادی“ والی رسم ایسی عجیب و منفرد ہے جو اور کسی علاقے میں ہے نہیں تو کہا گیا کہ سندھ میں یوں”بھی“’ ہوتا ہے۔

وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ،”بھی“ ہٹ گیا تو جملہ ہوگیا کہ سندھ میں یوں ہوتا ہے۔(اور اگر کسی نے اس پہ اعتراض نہ کیا تو”بھی“ کی جگہ”ہی“ لگ جائے گا کہ سندھ میں یوں ہی ہوتا ہے)۔

اسکے بعد سندھیوں کے متعلق جو آراءقائم ہونگی، وہ ظاہر ہیں۔آپ ذرا، اس مثال کی اب عربوں کی مذکورہ بالا رسم پہ تطبیق کیجئے۔

لہذا، سندھ میں ”قرآن سے شادی”“اور عرب میں ”زندہ بچی کا دفن“ ایک جیسا شاذ واقعہ ہے۔

اب ایک سیکولر مسلم کیلئے اگلا سوال کھڑا ہوتا ہے کہ ایک شاذ واقعہ کو قرآن نے اہمیت کیوں دی ہے؟

تو قرآن پہ غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن، عورت ذات کی کمزوری کے پیش نظر، بعض فردی معاملات میں بھی انکا ایک مضبوط وکیل بن کر کھڑا ہوتا ہے،چاہے حضرت خولہ کاواقعہ ہو(28 پارہ کا شروع)،حضرت عائشہ کی بات ہو(سورہ نور)، حضرت مریم کا قصہ ہو یا اس زندہ درگور بچی کی بات۔(یہ ہے قرآن کا حقوق نسواں بار ے رویہ)۔

یہاں تک کے منطقی آپریشن سے مندرجہ ذیل صورتحال بنے گی۔

ایک خالص سیکولرا ٓدمی کا فوکس صرف ہسٹری ہوگی اور اس پر جرح کے بعد، اسکے لئے اس واقعہ پہ مزید غوروفکر محض وقت کا زیاں ٹھہرے گا۔

ایک خالص مذہبی آدمی کا فوکس صرف قرآن ہوگا اور وہ اس آیت کی تجوید، فضائل یا پھر اسکا کسی تعویذ میں استعمال ہی سوچا کرے گا۔

ایک فالتو آدمی (مذہبی یا غیر مذہبی) کا فوکس فقط داستان سرائی پر ہوگا اور اسے خود بھی پتہ نہیں ہوگا کہ کیوں وہ گھنٹوں اس پہ رقت آمیز تقریر کیا کرتا ہے۔

تاہم ایک مسلم سیکولر، تاریخ اور قرآن کی تطبیق کرے گا اور اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ کسی بھی زمانے میں،اگر صنف نازک پر ظلم و تعدی کیا جائے تو اسکے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی پہلی ذمہ داری،ایک مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔

قارئین کرام!

مذکورہ بالا کیس کو صرف پہلا ٹول سمجھنے کیلئے بطور مثال لیا گیا ہے۔ اگر آپ اسی طرح، ہراسلامی تاریخی واقعہ کو، عام لاجک اور قرآن کے ترازو میں برابر تولتے جائیں گے تو کافی سارارطب ویابس یہیں نکل جائےگا۔

اسکے بعد، اسی طرح اگلے تین ٹولز کو باری باری استعمال کیا جائے تو شاید تاریخی افسانہ وحقیقت میں امتیاز کرنا آسان ہوجائے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے