تنازع کشمیر،غدارساز فیکٹریاں اور راہِ عمل

کشمیر کاز بھی موم کی ناک کی طرح ہے جہاں اور جب چاہا کسی بھی زاویے سے کہیں فٹ کر دیا ۔ایک وقت تھا ہم بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مسلح کے بجائے پرامن سیاسی جدوجہد کی بات کرتے تھے تو غدار شمار ہوتے تھے، آج کل ارباب اختیار ہندوستان کے خلاف کسی بھی مسلح ایکشن کو پاکستان اور کشمیر کاز سے غداری قرار دے رہے ہیں۔

کشمیر کاز کے حوالے سے ماضی کی حکمت عملی درست تھی یا آج کی اس بارے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ نظریہ ضرورت کے تحت اربابِ اختیار کی ہمیشہ حال کی پالیسی خواہ وہ غلط کیوں نہ ہوئی ہو ، ہمیشہ درست بتائی گئی اور اس کی مخالفت غداری شمار ہوئی، کرائے کی بندوق نے آج ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب اپنے لوگوں کے حق میں آزاد کشمیر سے کوئی بھی عمل غداری ہے۔

آئیے ہماری اجتماعی بے بسی کی پہلے ایک تصویر دیکھتے ہیں اور اس کے بعد آگے چلتے ہیں۔

”بس گولی مار دیں۔۔آپ ہم پر تشدد نہ کریں ، بس گولی مار دیں” ، جمعہ 30 اگست 2019 کو ذرائع ابلاغ کے معتبر ادارے بی بی سی کے سمیر ہاشمی نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی وحشت اور درندگی کی جو منظر کشی کی ہے، اسے قرطاس پر ترتیب دینے کے لیے انگلیوں کی پوریں اور قلم ساتھ نہیں دے رہے۔

سمیر ہاشمی ایک مقامی جوان کی کہانی اسی کی زبانی ضبط تحریر میں لاتے ہیں۔”انہوں نے میرے جسم کے ہر حصے پر مارا پیٹا، لاتیں ماریں، ڈنڈے مارے،بجلی کے جھٹکے دیے، تاروں سے پیٹا ، میں چیخا تو انھوں نے میرا منہ مٹی سے بھر دیا۔میں نے ان سے کہا تشدد نہ کریں، بس ہمیں گولی مار دیں کیونکہ یہ تشدد ناقابل برداشت ہے۔”

5 اگست 2019 کے ایسے ہزاروں واقعات گزرے لمحات کا حصہ ہیں۔خوراک کی بندش سے ماوں کے سینے خشک ہو چکے ہیں ، جس سے شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ادویات کی عدم دستیابی مرنے والوں کو دفنانا ناقابلِ بیان چیلنجز ہیں۔

ایسے میں اہل جموں کشمیر گفتار کے غازیوں سے کردار کی مانگ کر رہے ہیں ، اور یہاں غازی ملت ، مجاہد اول و آخر کے دیو مالائی افسانوں کو ان کی اولادیں تاریخ کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہیں۔گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرنے والے مسلح مذہبی جھتے اچانک جنت الفردوس اور حوروں سے بیزار ہو کر اپنی زندگیاں بچارہے ہیں۔

وہ جو کہتے تھے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے ، اب ان کی شہ رگ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان تک محدود ہو گئی ہے ، وہ جو کہتے تھے کہ ہم کشمیر کے لیے ایک ہزار سال تک لڑیں گے، ایک ہزار سکینڈ بھی نہ لڑ سکے ، وہ جوکہتے تھے کشمیر ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے ، آج ڈر کے مارےان کا خون بھی منجمد ہو چکا ہے ۔ اور اب یہ کہا جا رہاہے کہ ”اِس طرف سے کوئی بھی مداخلت ہندوستانی فوج کے خلاف کوئی ایکشن غداری ہو گا”۔واہ غداری بھی کیا چیز ہے ۔ کل مسلح جدوجہد کی مخالفت غداری تھی ، آج اس کی حمایت غداری ہے .

ارباب اختیار جن کے پاس یہ خطہ(آزادکشمیر) اور مسئلہ کشمیر ہے ، ان سے یہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ سری نگرکو طاقت کے زور پر چھڑائیں، اگر ایسا نہیں کر سکتے تو متبادل کے طور پر موثر حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے آزادکشمیر کے لوگوں سے جبر کا کوڑا ہٹائیں۔

آپ کا شہ رگ کا بیانیہ جموں کشمیر پر بھارتی قبضے کے بعد ویسے بھی ختم ہو چکا. اقوام متحدہ کی قراردادیں، شملہ معاہدہ یہ سب کچھ تو ہندوستان ختم کر چکا۔جس کے جواب میں سفارتی مہم بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی ۔ محدود سفارتی تعلقات ،تجارت کی معطلی، دھواں دار بیانات ، ٹویٹ، دھکمیاں کوئی بھی فعل کارگرنہ ہو سکا۔

اسی غیر یقینی اور مشکل صورتحال میں ایک راستہ جموں وکشمیر کی حکومت کا قیام اور اسے تسلیم کرنا ہے ، ایسی ریاست جس سے آپ کا تعلق لازم و ملزوم کی طرح ہو، جس کی معیشت آبی وسائل اور ہائیڈل پراجیکٹ میں آپ شراکت دار ہوں اور جو آپ کی بہترین دوست ہو ۔کیا ہندوستان اس سے بہتر ہے ؟؟؟

ایک ایسی حکمت عملی جس کا ڈراپ سین تقسیم کشمیر اور ہندوستانی قبضے کی صورت میں سامنے آیا، جس کا ایندھن ہمارے لوگ بنے اور جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے اور جس کی قیمت اہل جموں کشمیر کے علاوہ 22 کروڑ پاکستانی بھی ادا کر رہے ہیں ، وہ ناگزیر کیوں؟

ایک دوسرا راستہ بھی ہے پاکستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اقوام متحدہ کی سفارشات کے مطابق اقدامات کرے اور پھر سیکورٹی کونسل میں جائے کہ ہم نے عمل کر دیا ہے ، اب ہندوستان بھی اس پر عمل کرے . ایسی صورت میں ریاست جموں کشمیر کے تمام مکاتب فکر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

ہاں اگر ارباب اختیار کے نزدیک بھارتی قبضہ ہمارے حق خودارادیت سے زیادہ معتبر اور دل پسند ہے ،تو الگ بات ہے ، لیکن یہ یاد رکھیے کہ وہ کردار کبھی نہیں بھولتا، جو ساری زندگی محبت کا دعویٰ کرے اور مشکل وقت پر چھوڑ دے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے