’آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے!‘

پولیس نے صلاح الدین کو رحیم یار خان سے حراست میں لیا تھا اور یکم ستمبر کو یہ بات سامنے آئی کہ دورانِ حراست وہ ہلاک ہو گئے ہیں
وقت ایک سا نہیں رہتا۔ گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ جُڑا وقت احساس دلاتا ہے کہ ہر گزرتا وقت آپ کا نہیں تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔

وقت حقیقت بھی ہے اور سراب بھی۔ وقت تعبیر بھی ہے اور خواب بھی، وقت راحت بھی اور عذاب بھی، وقت صبح صادق بھی اور تاریک رات بھی۔

وقت کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ جیسا بھی ہو گُزر جاتا ہے، نہ ادھار رکھتا ہے اور نہ حساب چکاتا ہے بلکہ آہستہ آہستہ، دھیرے دھیرے احساس کی سب کھڑکیاں دروازے کھول دیتا ہے، نا سمجھ میں آنے والی گتھیاں سلجھنے لگتی ہیں۔

فہم و ادراک پر لگی گرہیں کھلنے لگتی ہیں اور سب سے اہم دلوں پر لگی مہریں ٹوٹنے لگتی ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے میں سب کچھ ہی تو بدل گیا ہے، جاتے وقت نے کتنا ہی نقصان کر دیا ہے اس کا اندازہ تک نہیں لگایا جا سکتا۔

رویے بدل گئے ہیں،نظریے تبدیل ہو گئے ہیں، سوچوں پر پہرے بڑھتے جا رہے ہیں، زبانوں پر تالے راج کر رہے ہیں، سوچ محبوس ہو رہی ہے، فکر غلام بن رہی ہے، دلیل بے جان اور جہالت اٹل ہوتی نظر آتی ہے۔ اختلاف جرم اور اتفاق غلامی تعبیر ہو رہا ہے۔

اتنی آوازیں ہیں کہ کوئی آواز نہیں، اتنے الفاظ ہیں کہ کوئی معنی نہیں، بے تحاشا شور بے تحاشا خاموشی کو جنم دے رہا ہے اور گھمبیر خاموشی حد سے زیادہ شور بڑھا رہی ہے۔

سب اردگرد مگر تنہائی کا راج ہے۔ اس قدر تنہائی کہ خود سے ڈر لگتا ہے۔۔ بے حد اپنوں سے بھی غیریت اور غیروں کا تو مت پوچھیے۔

یہ اچانک کیا ہو گیا کہ اختلاف کی گنجائش نہیں بچی؟ صرف سیاسی قیادت ہی نہیں ہم سب اپنی اپنی مصلحتوں میں جکڑے جا رہے ہیں۔ اس قدر ’عملیت پسندی‘ تو کبھی نہ تھی۔

ہر ایک اپنے اپنے کٹہرے میں کھڑا ہے، اپنی سزا سننے کا منتظر مگر نہ وکیل پر یقین نہ انصاف پر ایمان۔ ہر شخص، ہر ادارہ اپنی اپنی ساکھ بچانے کی کوششوں میں سرگرداں۔۔۔ پھر بھی ساکھ نہیں بچ رہی۔

معاشرہ برداشت کی آخری حد پر ہے اور برداشت کی آخری نسل بھی یہی ہے۔ ذرا سوچیے کہ سانس روکنے کی کوشش میں کتنے ہاتھ پاؤں چل رہے ہیں۔

کسی نے کچھ دن پہلے کہا کہ جلد انسانوں کی جگہ روبوٹ لے لیں گے، میں ہنس پڑی کہ ابھی کیا ہمیں انسان سمجھا جا رہا ہے۔ یہ ہے حسن ظن۔

ہم سب روبوٹ ہو چکے ہیں۔ جذبات، احساسات سے عاری روبوٹ۔ اسپاٹ چہرے لیے بولتے، ہاتھ پاؤں ہلاتے روبوٹ، دماغ کی جگہ پروگرام فیڈ کراتے ہوئے اور دائیں بائیں دیکھنے کی بجائے ناک کی سیدھ میں چلتے روبوٹ۔

ہمارے دماغوں میں فٹ پروگراموں میں سب کچھ ہے۔۔۔ نہیں ہے تو یہ کہ وقت کی رفتار کو کیسے قابو میں رکھنا ہے۔

ایک سوال بار بار پوچھا جا رہا ہے کہ اب آگے کیا ہو گا؟

اس کا جواب ہے خوف۔۔۔ لیکن ٹھہریے اس خوف سے نکلنے کی ایک تدبیر ہے اور وہ یہ کہ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی جائیں، سوال کیے جائیں، خواب تراشے جائیں، تعبیریں ڈھونڈی جائیں، قفل توڑے جائیں، نارمل ہو جائیں، کھل کر قہقہے لگائیں یا کھل کر رو لیں، کچھ تو منافقت توڑیں، کچھ تو زندگی جی لیں۔

اور ہاں تالے لگانے والوں، سوچ محبوس کرنے والوں، خوف سے ڈرانے والوں کے لیے اب بھی وقت ہے کہ وقت کی بات مان لیں۔۔۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ گونگا بہرہ معاشرہ صلاح الدین کی طرح سوال کے جواب میں سوال ہی پوچھ لے کہ آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے