پروفیسر اعجاز نعمانی کا ادبی جہاں

جی ہاں آزاد کشمیر کے شعری ادب میں نمایاں نام۔ اعجاز نعمانی نہ صرف شاعر بل کہ ایک ماہر اردو اور مدیر کی حیثیت سے شناخت رکھتے ہیں۔ آپ میرے ان محسنین میں سے ہیں جنھوں نے مجھے شعور بخشا۔ میرا اور اعجاز نعمانی صاحب کا تعلق بھی میرے محترم راجا شوکت اقبال مصور کی وساطت سے بنا۔ دو ہزار نو میں جب میں فرینڈز فوٹو اسٹیٹ پر وقت گزارتا تھا تب ایک روز شوکت صاحب نے کہا کہ آج طیبہ ہوٹل مظفرآباد پر ایک ادبی بیٹھک ہے۔یہ نشست کشمیر لٹریری سرکل کی معمول کی نشست تھی جس میں مجھے بھی دعوت دی گئی۔

تین بجے میں مقررہ جگہ پہنچا ۔ یہیں کشمیر لٹریری سرکل کے جنرل سیکرٹری اعجاز نعمانی سے پہلی ملاقات ہوئی۔حلم اور محبت کی مورت نعمانی صاحب بہت اپنائیت سے ملے۔یاد رہے اس وقت میں خود کو شاعرسمجھتا تھا اورکتاب کی اشاعت کے لیے پر تول رہا تھا۔ مسودہ کمپوز تھا جب اعجاز نعمانی صاحب سے مشورہ کیا۔نعمانی صاحب نے میرے ارادے کو بھانپ کر اور کچھ کلام دیکھ کر اپنے خاص مشفقانہ لہجے میں ہونٹوں کوگول کرتے ہوئے کہا” آپ ایم اے اردو کرنا چاہتے ہیں نا تو پہلے ایم اے کر لیں بعد میں کتاب بھی شائع ہو جائےگی۔تاہم لکھتےرہیں اور لکھنا ترک نہ کریں۔”

نعمانی صاحب کی بصیرت ہی کہوں گا اسے اور ان کا احسان ہی ہے کہ میں تائب ہوگیا۔ جب ایم اے اردوکے لیے نمل گیا تو حسن ظہیرراجا اور ظہیرعمرجیسے دوست میسر آئے۔ ان دوستوں سے پتا چلا کہ شاعری میں عروض اور اوزان بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ بس یہاں سے مجھے کسی حد تک شعری شعورحاصل ہوا اور میں نے مکمل طور پرشاعری سےتوبہ کرلی۔ کوشش کرتاتو متشاعروں کی صف میں سرفہرست ہوتاجیسا کہ ہمارے ہاں بے شمارلوگ زبردستی کے شاعر ہیں مگر مجھے میرے دوستوں نے بازرکھا جس کے لیے ان کاشکریہ۔

بات کسی اورطرف نکل گئی ، میں ذکر کر رہا تھا پروفیسر نعمانی کا کہ اگر وہ اس دن مجھے نہ ملتے اور میں صفحات کالےکر لیتا تو یقیناً یہ سب میرے لیے باعثِ ندامت ہوتا۔ اعجاز نعمانی کا یہ مشفقانہ رویہ میرے ساتھ ہی نہیں رہا، وہ سبھی کے ساتھ بہت خلوص سے پیش آتے ہیں۔ میرے کئی الفاظ ان کے طفیل درست ہوئے جیسے میں بھی دیگر کئی لوگوں کی طرح پسِ منظر پڑھتا تھا، جس پر انھوں نے اصلاح فرمائی کہ پس منظرہو گا بنا اضافت۔

پروفیسر اعجاز نعمانی کا اصل نام اعجاز احمد ہے۔12 مارچ 1969 کو آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد کے گاؤں چکار میں جنم ہوا۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی ۔اپنے خالہ زاد اور آزاد کشمیر کے نام ور شاعر وادیب پروفیسر ڈاکٹر افتخار مغل مرحوم کی صحبت ملی تو شعر کہنے لگے۔

اردو سے محبت بڑھی تو آزاد جموں کشمیر یونی ورسٹی سے ایم اے اردو کر لیا۔بعد ازاں محکمہ تعلیم میں اردو لیکچرار ہو گئے ، اپنی محنت سے ترقی پائی اور اسسٹنٹ پروفیسر بنے۔ آج کل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے طَلَبَہ مظفرآباد میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

اعجاز نعمانی کا تعلیمی سلسلہ رُکا نہیں ، اس وقت ایم فل اردو اسکالر ہیں اور علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے خریطے کے لیے تحقیقی مقالہ شمس الرحمان فاروقی کی تنقید کے حوالے سے لکھ رہے ہیں۔

اعجاز نعمانی صاحب آزاد کشمیر کے شعری منظرنامے میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔غزل سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے۔نظم میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں تاہم غزل پسندیدہ میدان ہے۔آپ نے آزاد کشمیر کے ادبی ماحول کو خوب جلا بخشی ہے۔آزاد کشمیر کی نمایاں ادبی تنظیم کشمیر لٹریری سرکل کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سےبھی کئی بڑے اور یادگار مشاعرے آپ کے شرمندہ احسان ہیں۔اپنے کالج کے ادبی مجلے دومیل کی ادارت بھی بڑی خوش اسلوبی سے کر رہے ہیں۔اکادمی ادبیات پاکستان کے آزاد کشمیر میں فوکل پرسن بھی اعجاز نعمانی ہیں۔

پاکستان کے چوٹی کے ادیب و شعرا آپ کی دعوت پر مظفرآباد آتے ہیں اور آپ کے دولت کدے پر ناشتہ کیے بغیر واپس نہیں جاتے۔ جناب احمد عطا اللہ کے بہ قول اعجاز نعمانی کے ناشتے ایک تحقیقی مقالے کے متقاضی ہیں۔اعجاز نعمانی صاحب ملک کے طول وعرض میں مشاعروں کو رونق بخشنے کے لیے بالخصوص مدعو کیے جاتے ہیں۔ آپ کا خاص جان دار لہجہ اور اس پر شین قاف پر کمال دسترس سامعین کو داد دینے پر پرمجبور کر دیتی ہے۔

نعمانی صاحب کی شخصیت اور ان کا کلام اس مختصر تحریر میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ آپ کا مجموعہ کلام ” کہے بغیر” 07،اگست 2019 کو شائع ہو چکا ہے ۔ جب کہ ایک شعری انتخاب 2004 میں ”اس گلی میں ہے بیل پھولوں کی” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ نعمانی صاحب ایک عمدہ شاعر، بےمثال نَثار، ہر دل عزیز استاد اور بڑے انسان ہیں۔

دعا ہے ہمارا یہ سرمایہ سدا پھلے پھولے۔ نعمانی صاحب کے اس شعر کے ساتھ اجازت طلب کرتا ہوں۔ یہ شعر زبان زد عام ہو چکا ہے۔

حسن اور اتنی فراوانی کے ساتھ
دیکھتا رہتا ہوں‌ حیرانی کے ساتھ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے