پختونخواہ کا روبہ زوال تعلیمی شعبہ

29 اگست کو پختونخواہ حکومت کی طرف سے نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا کہ تمام سرکاری جامعات میں ہر قسم کی تقرریوں اور بھرتیوں پر پابندی لگادی گئ ہے-
اس سے پہلے یونیورسٹیوں کے فیسوں میں اضافہ کیا گیا اور پختونخواہ کی یونیورٹیوں سے وظیفے ختم کیئے گئے- یہ کہا گیا کہ صوبائی حکومت کو مالی مشکلات کا سامنا ہے اور یونیورسٹیز کے پاس بھی فنڈز کی کمی ہے اس لیے یہ اقدامات اٹھانے پڑے- جامعات کی طرف سے صوبائی حکومت کو بار بار یاد دہانی کرائی گئی لیکن فنڈز نہیں دیئے گئے- دوسری جانب 26 اگست کو ہی حکومت کی طرف سے اخبار میں ایک بیان جاری ہوتا ہے کہ ایچ ای سی نے 102 اسکالرز کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیئے بھیجا تھا وہ سب کے سب غائب ہوگئے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کیساتھ واپسی کا تحریری معاہدہ ہوتے ہوئے بھی ابھی تک وہ واپس نہیں لوٹے- جس کی وجہ سے انکے پاسپورٹس منسوخ کردیئے گئے، مطلب کہ شہریت ختم کردی گئی-

اب دونوں اقدامات کا تقابلی جائزہ لیجیئے اور مجھے بتلایئے کہ جب ایسی صورت حال ہوگی، انسان کو مستقبل کے بارے میں عدم تحفظ ہوگا اور اوپر سے آپ لوگوں کی ایسی مہربانیاں تو کوئی خاک ادھر ٹھہرنا چاہے گا؟ معلوم ہے میرے 3 دوست ایسے ہیں کہ جنہوں نے تو بیرون ممالک سے پی ایچ ڈیز کی ڈگریاں لے تو آئیں لیکن پچھلے دو سال سے وہ نوکریوں کے لیئے رُل گئے ہیں- بہت دکھ ہوتا ہے کہ جب ایک پی ایچ ڈی اسکالر پرائمری ٹیچر بننے کے لیئے جتن کرتا ہے- سالانہ 3 سے 4 ہزار پی ایچ ڈیز اندرون و بیرون ملک سے ڈگری لیتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں –

ایک دوست جو پچھلے ہی ہفتے پی ایس ٹی ٹیسٹ دینے جارہا تھا نے کہا کہ بھائی حکومت اور ایچ ای سی اپنے رولز بھی فالو نہیں کررہی، ماہانہ وظیفہ، مستقل نوکری تو چھوڑیں سرکاری اداروں میں دیہاڑی پر بھی نہیں رکھ رہے- کہہ رہا تھا کہ ایک عدد پوسٹ ڈاک کی ہے لیکن دو سال بہت دھکے کھائے اب اور برداشت نہیں ہورہا، میں اب واپس باہر جارہا ہوں. اس کے مطابق اس نے جس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے اس کو ادھر آسانی سےنوکری مل جائے گی- اگر دیکھا جائے تو پچھلے ادوار کے مقابلے میں موجودہ دور میں صوبے میں تعلیم کا شعبہ روبہ زوال ہے- کمیشن اور کرپشن کی باتیں بزبان ہر عام وخاص ہے- کوئی وجن نظر نہیں آرہا- حالیہ منعقدہ این ٹی ایس کے امتحانات میں وقت سے پہلے پرچوں کا آوٹ ہونا، رشوت ستانی, اقرباء پروری وغیرہ ایسے مسائل ہیں جس سے صوبائی حکومت کی تعلیم کے شعبہ سے دلچسپی واضح ہوتی ہے کہ وہ کتنے مخلص ہیں- میں اگر بغیر کسی سیاسی وابستگی یا پسند کے بھی بات کروں تو عوامی نیشنل پارٹی کے سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ اور موجودہ ممبر پارلیمنٹ امیر حیدر خان ہوتی نے اپنی صوبائی وزارت عظمیٰ 2008 تا 2013 کے دوران صوبے کو تعلیمی میدان میں بہت ترقی دی تھی- نئے سکولز , کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام ہو یا نوکریاں , شعبہ تعلیم کے لیئے ریکارڈ ترقی یاتی فنڈز دیئے گئے تھے- ہاں یہ بھی مانا جانا چاہیئے کہ تحریک انصاف کے سابق وزیر اعلی’ پرویز خٹک کے دور میں بھی صوبے میں شعبہ تعلیم کی ترقی کے لیئے تھوڑا بہت کام ہوا- لیکن موجودہ دور میں ایک تو شعبہ تعلیم اس لیئے بھی متاثر ہو رہا ہے کہ مرکز اور صوبے میں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور وزیر اعلی’ اور ان کی کابینہ صوبے کے بجائے مرکزی سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں. سب سے زیادہ دکھ بھری بات تو یہ ہے کہ ایک میٹرک پاس شخص کو وزارت تعلیم کا عہدہ سونپا گیا ہے- کیا خاک ترقی آئے گی؟

اس کے بعد صوبائی حکومت کے فیصلے کے خلاف 29 اگست کو فپواسا FAPUASA (فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز سٹاف ایسوسیشن کی ) کا ہنگامی اجلاس پشاور یونیورسٹی پیوٹا ہال میں منعقد ہوا- اجلاس کی صدارت ڈاکٹر سرتاج عالم نے کی- اجلاس میں حکومت کی جانب سے یونیورسٹیوں میں ملازمت پر پابندی کو مسترد کیا گیا- اور صوبائی حکومت سے اپنا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا- اجلاس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ایک طرف تو بی آر ٹی جیسے منصوبے کو آئے روز فنڈز دیئے جارہے ہیں جب کہ دوسری جانب تعلیمی پالیسی نہ ہونے کے برابر ہے- یونیورسٹیز کے داخلہ فیسوں میں اضافہ کیا گیا- صوبے کے تمام یونیورسٹیوں سے تعلیمی وظیفہ ختم کیا گیا- اور اب یونیورسٹیوں میں ملازمتوں پر بھی پابندی عائد کی گئ- شرکاء نے کہا کہ 10 ارب روپے سے صوبے کے تمام یونیورسٹیز کے مالی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے- اگر بی آر ٹی پر سوا کھرب روپے لگائے جاسکتے ہیں تو یونیورسٹیوں کو 10 ارب کیوں نہیں دیئے جارہے-

اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر اپنا فیصلہ واپس لے – اگر حکومت نے اپنے فیصلے پر نظرثانی نہیں کی تو 7 ستمبر سے احتجاج شروع کیا جائے گا جس کو آہستہ آہستہ ملک بھر میں پھیلایا جائے گا- پہلے ڈاکٹرز, پھر نرسنگ اور پیرا میڈیکل اسٹاف, سکول اساتذہ اور اب یونیورسٹیز اساتذہ نے بھی احتجاج کی کال دی ہے- اگر جامعات کے اساتذہ بھی احتجاج پر نکل آتے ہیں تو ایک طرف تو یونیورسٹیاں بند ہونے سے طلباء کے پڑھائی کا حرج ہوگا تو دوسری جانب صوبے میں اور زیادہ افراتفری پھیلے گی اور امن و امان کی صورتحال بھی متاثر ہوگی- پختونخواہ حکومت کو اس معاملے پر ہنگامی بنیادوں پر عملدرآمد کے لئے اقدامات اٹھانے چاہیئے- یونیورسٹیز فیسوں میں کمی, ملازمتوں سے پابندی اور انکے مالی مشکلات ختم کرنے کے لیئے فنڈز فراہمی یقینی بنائے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے