فطرت کے آس پاس

کئی برس پہلے میں نے ایک ایسی تحریر کہیں پڑھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح انسان نے ترقی اور آسائش کے نام پر فطرت سے دُوری اور رُوگردانی کی مگر آخر کار اُسے فطرت کی طرف ہی لوٹنا پڑا کہ جو نظام ربِ کائنات نے ہمارے واسطے بنایا ہے اُس سے بہتر یا اُس جیسا کوئی سلسلہ بنانا سرے سے انسان کے بس میں ہے ہی نہیں یعنی لالے کی وہ حنا بندی جو فطرت خودبخود کرتی ہے۔

اُس کا متبادل کسی بھی سامانِ آرائش سے ممکن نہیں۔ اتفاق سے آج صبح واٹس ایپ کے پیغامات چیک کرتے ہوئے ایسی ہی ایک تحریر پھر کسی مہربان کی معرفت نظر سے گزری تو انسانی ترقی کے حوالے سے کئی خیالات ذہن میں لہرا سے گئے اُن پر گفتگو ضروری ہے اس سلسلے میں مزید کوئی بات کرنے سے پہلے ہم اس تحریر کو دیکھتے ہیں تاکہ بات کرنے اور سمجھنے سمجھانے میں آسانی ہوسکے۔

’’مٹی کے برتنوں سے اسٹیل اور پلاسٹک کے برتنوں تک اور پھر کینسر کے خوف سے دوبارہ مٹی کے برتنوں تک آجانا، انگوٹھا چھاپی سے پڑھ لکھ کر دستخطوں (Signatures) پر اور پھر آخر کار انگوٹھا چھاپی (Thumb Scanning) پر آجانا … پھٹے ہوئے سادہ کپڑوں سے صاف ستھرے اور استری شدہ کپڑوں پر اور پھر فیشن کے نام پر پینٹیں پھاڑ لینا … زیادہ مشقت والی زندگی سے گھبرا کر پڑھنا لکھنا اور پھر پی ایچ ڈی کرکے واکنگ ٹریک (Walking Track) پر پسینے بہانا…قدرتی غذاؤں سے پراسس شدہ کھانوں (Canned Food)پر اور پھربیماریوں سے بچنے کے لیے دوبارہ قدرتی کھانوں (Organic Food) پر آجانا…پرانی ا ور سادہ چیزیں استعمال کرکے ناپائیدار برانڈز (Brands) آئٹمز پر اور آخر کار جی بھرجانے پر پھر (Antiques)پر اُترآنا…بچوں کو جراثیم سے ڈرا کر مٹی میں کھیلنے سے روکنا اور ہوش آنے پر دوبارہ قوتِ مدافعت(Immunity) بڑھانے کے نام پر مٹی سے کھلانا…وغیرہ وغیرہ ۔ یہ اقتباس بھیجنے والے بھائی نے اس کے بعد ایک نتیجہ بھی نکالا ہے جو کچھ یوں ہے:

’’اس کی اگر تشریح کریں تو یہ بنے گی کہ ٹیکنالوجی نے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ مغرب نے تمہیں جو دیا اس سے بہتر وہ تھا جو تمہارے دین نے اور تمہارے رب نے پہلے سے دے رکھا تھا‘‘۔

سچ پوچھیے تو اس دلچسپ تحریر سے زیادہ یہ نتیجہ ہے جس نے مجھے اس مسئلے کو آج کے کالم کا موضوع بنانے پر اُکسایا ہے کہ یہ کم و بیش وہی اپروچ ہے جس کے مطابق ہم کسی نئی تھیوری یا ایجاد کا رشتہ فوراً اللہ کی کتاب سے ملانا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھو یہی بات چودہ سو سال پہلے ہمیںبتا دی گئی تھی۔

اس دلیل سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے نعوذباللہ ہم خالقِ کائنات کے کسی فرمان کی تائید یا سند اُس کی ہی مخلوق سے لینے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسانی دماغ اپنے مسلسل ارتقاء کے باعث اُن اصولوں سے آشنا ہوتا چلا جاتا ہے جو فطرت میں پہلے سے رکھ دیے گئے ہیں یعنی مسئلہ کسی چیز یا اصول سے تعارف کا ہے اُس کی ایجاد کا نہیں ۔اب رہی یہ بات کہ جدید انسان اپنی تمام تر ترقی کے بعد دوبارہ سے کچھ ایسے اصولوں اور طرزِحیات کی طرف واپس لوٹ رہا ہے جن کو اُس نے پرانے اور ازکار رفتہ کہہ کر چھوڑ دیا تھا تو یہ مراجعت اور بازیافت بھی اصل میں اُس کی اسی ذہنی ترقی کے باعث ہے۔

جس نے اُسے اپنی غلطی کا احساس کرنے اور دوبارہ فطری اصولوں کی طرف لوٹنے کی تعلیم اور ترغیب دی ہے سو ٹیکنالوجی کو فطرت یا قوانین الٰہی کا مخالف قرار دینا ہی دراصل بنیادی غلطی ہے کہ اصل بات کناروں پر نہیں بلکہ کہیں درمیان میں ہوتی ہے۔ فطرت کے بنائے ہوئے اصولوں پر آنکھیں بند کرکے چل دینا اور اُن میں ترقی یا اجتہاد کی کوشش نہ کرنا بھی اپنی جگہ پر خلافِ فطرت ہے۔

فرق صرف یہ ہے کہ آپ اُن قوانین کے مقابلے میں نئے اور متبادل قوانین وضع کرنے کے چکر میں نہ پڑ جائیں جس طرح سائنسدان کسی چیز کو سمجھنے کے لیے مختلف طرح کے تجربات کرتے ہیں جو ظاہر ہے سب کے سب صحیح نہیں ہوتے اور وقت گزرنے یا غوروفکر کرنے پر کسی فیصلے یا اخذ شدہ نتیجے کی غلطی سامنے آجاتی ہے اور وہ کسی نئے حل یا پرانے اور آزمودہ طریق کار کی طرف رجوع کرتے ہیں میرے نزدیک اس واپسی کو اُن کی شکست یا کسی مخصوص رویئے کی فتح قرار دینا کوئی بہت قابلِ تعریف بات نہیں بلاشبہ جدید انسان نے ٹیکنالوجی کی ترقی کے سبب کچھ غلط یا نسبتاً کمزور فیصلے بھی کیے ہیں۔

اب اگر وہ اُن سے منہ موڑ کر کسی پرانی روش پر واپس آتاہے تو اُسے اُس کی دانشمندی کے کھاتے میں ڈالنا چاہیے نہ کہ اسے معرکہ مذہب و سائنس بنا دیا جائے۔ اگر تمام پرانی چیزیں اور طرزِ معاشرت ہی دائم اور اٹل ہوتے تو ہم آج بھی غاروں میں ہی زندگی بسر کر رہے ہوتے اور یہ ہزارہا سہولتیں جنھوں نے انسانی زندگی کو آسان ، بہتر اور پُرلطف بنا دیا ہے ان کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ انسان غالباً واحد مخلوق ہے جو اپنے تجربے سے صرف سیکھتا ہی نہیں بلکہ اس کے دیے ہوئے سبق پر عمل بھی کرتا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور فطری قوانین کے ساتھ زندہ رہنے میں مسئلہ کسی ایک کی پسند یا اُس کو اختیار کرنے کا نہیں بلکہ دونوں کے درمیان مشترک عناصر کو ایک توازن میں ڈھالنے کا ہے یعنی یہاں بھی صورتِ حال کچھ کچھ مائیکل اینجلو کے اُس جملے سے ملتی جلتی ہے کہ ’’ مجسمے تو پتھروں کے اندر پہلے سے موجود ہوتے ہیں میں تو صرف اُن کے ارد گرد سے فالتو پتھر ہٹا دیتا ہوں‘‘۔ اب ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات سنگتراش کی ضرب سے کوئی ضروری نقش بھی متاثر ہوجاتا ہے سو اُسے اگر واپس اُس کی پرانی جگہ پر رکھ دیا جائے تو اسے کفارے کے بجائے اصلاح کا درجہ دینا چاہیے۔

فطرت اور فطری اصولوں میں کئی ایسی دنیائیں آباد ہیں جن سے اب تک انسان کی آشنائی نا مکمل یا غیر موجود ہے سائنس اور ٹیکنالوجی اصل میں وہ دُور بینیں اور خوردبینیں ہیں جن کی مدد سے یہ مہم جوئی اب ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے، سو یہ عمل فطرت سے لڑائی کا نہیں بلکہ اُس تک مزید رسائی کا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے