محرم الحرام کے جلوس ، مذہبی تعصب یا انتظامی مسئلہ ؟

یہ 2003 کی بات ہے جب اس وقت کے صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی . عراق پر امریکی جارحیت کے خلاف متحدہ مجلس عمل نے ملین مارچ کا اعلان کر رکھا تھا . یہ ملین مارچ پشاور میں‌ ہشت نگری کے مقام پر رکھا گیا تھا . یہ وہ مقام ہے جس کے بعد پشاور کی پانچ بڑی یونیورسٹیاں ، تقریبا تمام بڑے تعلیمی ادارے .ریڈیو پاکستان ، صوبائی اسمبلی اور سب سے اہم شہر کے تین بڑے اسپتال واقع ہیں . میں شیخ زید اسلامک سنٹر پشاور یونیورسٹی میں بی اے آنرز کا طالب علم تھا اور فارغ وقت میں روزنامہ جنگ کے لیے رپورٹنگ کرتا تھا . اس ملین مارچ کی کوریج روزنامہ جنگ کے نمائندے گوہر علی ، اس وقت ہم نیوز کے پروگرام بڑی بات کے اینکر عادل شاہ زیب اور میں نے مشترکہ طور پر کی تھی . میری ذمہ داری سائیڈ اسٹوری کور کرنا تھا .

جلسہ شروع ہو چکا تھا . اسٹیج پر مولانا شاہ احمد نورانی ، مولانا فضل الرحمان ، قاضی حسین احمد ، مولانا سمیع الحق سمیت ایم ایم اے کی نمایاں شخصیات موجود تھیں . ان دنوں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی ایم ایم اے کے جلسوں سے خطاب کیا کرتے تھے . وہ ایم ایم اے کے حمایتی تھے اور قومی اسمبلی میں وزارت عظمی کے امیدوار مولانا فضل الرحمان کو انہوں نے ووٹ بھی دیا تھا . اس سے متعلق ایک دلچسب قصہ بھی ہے جو پھر کبھی لکھوں گا . خیر میں گلیوں کوچوں میں گھوم پھر رہا تھا . سڑکیں بند کر کے جلسہ کرنے کی وجہ سے لوگ ایم ایم اے کی حکومت کو اسی طرح نواز رہے تھے جس طرح اس وقت عمران خان صاحب کی تبدیلی کو نوازا جا رہا ہے . اسٹیج پر ایم ایم اے کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر حافظ حسین احمد صاحب کی گفتگو شروع ہو چکی تھی . میں جلسہ گاہ کی طرف واپس مڑا ہی تھا کہ سامنے دیکھا بہت سے لوگ جمع ہیں . میں تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں پہنچا تو علم ہوا کہ تینوں اسپتالوں کے راستے بند ہیں اور ایک عورت نے سڑک پر بچے کو جنم دیا ہے . اس عورت کا خاوند روتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اللہ کرے ان مولویوں کے بیویاں بھی یونہی سڑکوں پر سب کے سامنے لیٹ کر بچے پیدا کریں . مجھے اپنی سائیڈ اسٹوری مل گئی تھی جو اگلے روز روزنامہ جنگ شائع ہوئی ” تین اسپتالوں کا راستہ روک کر ایم ایم اے کا ملین مارچ ، دو عورتوں نے رکشوں سے اتر پر سڑکوں پر بچوں کو جنم دیا .

صحافیوں کے لیے اسٹیج پر جگہ بنائی گئی تھی . میں اسٹیج پر پہنچا تو لیاقت بلوچ صاحب کے ساتھ بیٹھ گیا . وہ کامیاب ملین مارچ پر بہت خوش دکھائی دے رہے تھے . میں نے انہیں سڑکوں پر بچوں کی پیدائش کے واقعات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر یہ اجتماع کیپٹن کرنل شیر خان اسٹیڈیم میں ہوجاتا تو زیادہ بہتر نہ ہوتا . انہوں نے کہا کہ بڑے کاز کے لیے چھوٹی چھوٹی قربانیاں دینی پڑتی ہیں . انہوں نے بتایا کہ پوری دنیا میں مظاہرے سڑکوں پر ہی ہوتے ہیں . اسٹیج پر ساونڈ سسٹم کا شور اتنا زیادہ تھا کہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی ورنہ میں ان کے ضرور پوچھتا کہ پوری دنیا میں لوگ کیا اسپتالوں ، تعلیمی اداروں کے راستے بند کر کے جلسوں کا انعقاد کرتے ہیں اور کیا وہاں بھی جلوسوں کی وجہ سے عورتیں بچے سڑکوں پر جنتی ہیں .

اسٹیج پر قرآن کی آیات اور احادیث پڑھ پڑھ کر سنائی جا رہی تھیں . میرا جی چاہا کہ میں اسٹیج پر دو منٹ تقریر کروں اور صرف تین احادیث سناوں کہ ” جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا انسان یا مسلمان محفوظ نہیں ، وہ ہم میں سے نہیں ” ، کاش میں انہیں سنا سکتا ہوتا کہ ایمان کے ستر درجے اور اآخری درجے راستے میں رکاوٹ ہٹانا ہے . میں انہیں بتا سکتا ہوتا کہ اس حدیث کو زرا مفہم مخالف میں پڑھیں تو کفر کے بھی ستر درجے بنتے ہیں اور پہلا درجہ راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے .

پورا سال جلسے جلوس ہوتے رہتے ہیں ، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لوگ بازار بند کرواتے ہیں ۔ ٹریفک جام کرواتے ہیں ۔ مسافروں کو تکلیف دی جاتی ہے ۔ کاروبار زندگی مفلوج ہوتا ہے ۔ ابھی ابھی یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پورے پاکستان میں احتجاج ترتیب دیا گیا ۔ اس احتجاج کے لیے سڑکیں بلاک کروائی گئیں ۔ اسپتالوں کے راستے بند کر کے شہروں کے شہر یرغمال بنا دیے جاتے ہیں۔

میرے سامنے کئی بار احتجاجیوں نے لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا ، گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا قتل ہوا تو پورے ملک میں جو کچھ ہوا ، ہم نے دیکھا۔ اے ٹی ایم توڑ ڈالے گئے ۔ پورے ملک میں جو جلاؤ گھیراؤ ہوا ، اس کا تصور کرتے ہوئے آج بھی وجود کانپ جاتا ہے ۔

اسلام آباد میں مولانا اعظم طارق کے قتل کے بعد احتجاجی مظاہرے میں راولپنڈی اسلام آبادکے مدارس کے طلبہ اور کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے کارکنوں نے ڈٹ کر توڑ پھوڑ کی جس کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔میلوڈی سینما کو جلا دیا گیا ۔ ایک شخص بھی وہاں زندہ جل گیا تھا۔

اسی طرح امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بانی ٹیم کے رکن ڈاکٹر محمد علی نقوی کے قتل کے موقع پر بھی لاہور سمیت کئی شہروں میں توڑ پھوڑ کی گئی ۔ گلگت میں تو کسی فرقے کے عالم کے قتل کے بعد پر تشدد مظاہرے معمول کی بات تھی ۔ اسی طرح راجا بازار میں محرم الحرام کے جلوس میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق ایک سازش کے تحت فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی کوشش کی گئی ۔ کئی لوگ اس میں مارے گئے ۔ جامعہ تعلیم القرآن راجا بازار ، اس سے ملحقہ مارکیٹ سمیت تین امام بارگاہیں جلا دی گئیں تھیں ۔

اسی طرح تحریک لبیک یارسول اللہ کے دونوں دھرنوں میں پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا گیا ۔فیض آباد دھرنے میں ایک پولیس اہلکار کی آنکھ چلی گئی ۔ عام لوگوں کے لیے مسائل پیدا کئے گئے ۔ لوگ اسپیکرز کے شور کی وجہ سے کئی کئی راتیں سو نہیں سکتے تھے ۔

2010 میں صوبہ سرحد کا نام بدل کر خیبر پختونخواہ رکھنے پر ہزارہ ڈویژن میں پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے ۔ گیارہ افراد پولیس کی فائرنگ سے قتل ہو گئے ۔ تین دن تک ایبٹ آباد کی مرکزی شاہراہ شاہراہ ریشم بند رہی ۔
اسلام آباد میں عمران خان صاحب اور علامہ طاہرا لقادری صاحب کے دھرنے کسے یاد نہیں جب اسلام آباد کے شہری ایک عذاب کی کیفیت کا شکار تھے ۔ عمران خان صاحب اور علامہ طاہر القادری کے مظاہرین نے پارلیمان ، پاکستان ٹیلی ویژن اور سیکرٹریٹ پر حملے کیے ، پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا ۔

پشاور میں ہی ادارہ تبلیغ اسلام میلاد النبی کے موقع پر بارہ جلسوں کا انعقاد کرتا ہے اور یہ سارے جلسے پشاور کے چوکوں اور چوراہوں میں ہوتے ہیں ۔ ادارہ تبلیغ اسلام دیوبندی مسلک کی تنظیم ہے ۔ اسی طرح بریلوی اور صوفی سلاسل کے لوگ بارہ ربیع الاول کو پورے میں جلسے جلوس کرتے ہیں ۔ سڑکیں بند ہوتی ہیں ، بازار بند ہوتے ہیں ۔

صدر ، وزیر اعظم ، چیف جسٹس ، وزیر اعلی ، گورنرز اور آرمی چیف گزرتے ہیں تو راستے بند کر دیے جاتے ہیں لیکن کسی کو کچھ نہیں ہوتا ۔ کوئی سوشل میڈیا پر بحث نہیں بنتی ، بحث صرف محرم الحرام کے جلوسوں کی وجہ سے ہی بنتی ہے ۔ وجہ ، صرف اور صرف مذہبی تعصب ، ہماری انتظامیہ اور ریاست انتظامی مسائل کو جب تک مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ نہ دے دے ، تب تک اسے بھی چین نہیں آتا ۔ جلسے جلوس شہریوں کا بنیادی حق ہے اور اس کے لیے جگہوں کا انتخاب کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ یہ سیدھی سی بات ہے ۔ انتظامیہ کا کیا فرض نہیں کہ وہ لوگوں سے مشاورت کر کے کوئی ایک لائحہ عمل ترتیب دے ۔

میں تو 2001 سے سڑکوں پر ہر قسم کی رکاوٹوں اور جلوسوں کی مخالفت کر رہا ہوں ۔اس بارے میں میرے کئی سروے ، تحقیقاتی رپورٹس روزنامہ جنگ ، ایکسپریس میں شائع ہو چکی ہیں ۔

پشاور صدر میں بیچ سڑک کے ایک مسجد بنی ہے جس سے شہریوں کو تکلیف ہوتی ہے لیکن مذہبی لوگ کہتے ہیں مسجد کو دوسری جگہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن اس ملک میں کئی ایسی مساجد ہیں جنہیں متبادل جگہ دی گئی تو قبول کر لی گئی ۔ پلاٹ کی عظمت کو دیکھ کر شریعت کے اصول بھی بدل دیے جاتے ہیں ۔ تو میری درخواست ہے کہ پارلیمان میں قانون سازی کی جائے۔ سڑکوں کے کنارے تجاوزات سمیت ہر قسم کی رکاوٹوں کا خاتمہ کیا جائے ۔ ملک میں جلسے اور جلوسوں کے لیے جگہیں مختص کی جائیں اور انہیں مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے ۔ پہلے بھی لکھا تھا کہ یہ کام آپ کو ایک دن تو کرنا ہوگا لیکن بحثیت پاکستان ہم نے طے کیا ہوا ہے کہ ہم نے ہر ٹھیک کام بھی غلط طریقے سے کرنا ہے اور ہر ٹھیک کا عوام کو ذلیل کروا کر کرنا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے