خدمت میں کشمیری تجاویز

مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم جاری ہے‘ تو حکومت ِپاکستان کی جدوجہد بھی جاری ہے۔ ظلم کے خلاف تازہ کامیابی محترمہ مشیل باشلے کا بیان ہے۔ وہ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے شعبے کی کمشنر ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ محترم شاہ محمود قریشی نے جنیوا میں باشلے سے ملاقات بھی کی اور فورم سے خطاب بھی۔ باشلے نے اس موقع پر کہا: مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی‘ نیز مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کشمیریوں کی مشاورت اور شمولیت اہم ہے۔ انہوں نے انڈیا کی ریاست آسام کے حوالے سے بھی بات کی اور بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ وہاں کے لاکھوں لوگوں کوگرفتار نہ کرے اور ملک بدر نہ کرے‘ بلکہ انہیں تحفظ فراہم کرے‘ اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ نے ”انسانیت کو اوّلیت دو‘‘ کے سلوگن کو دنیا بھر میں انسانیت کے دروازے پر دستک دینے کا سلوگن بنا دیا ہے اور کہا ہے کہ کشمیریوں کی زبان بندی بھی ختم کی جائے اور کرفیو کا بھی خاتمہ کیا جائے۔

قارئین کرام! باشلے کا تعلق لاطینی امریکا کے ملک چلّی سے ہے۔ یہ ملک جنوب مغرب میں ایک لمبی پٹی کی طرح بحرالکاہل کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کلو میٹر کا لمبا ساحل رکھتا ہے۔ باشلے یہاں دو ہزار دو میں وزیر صحت اور پھر 2004ء تک دو سال کے لئے وزیر دفاع رہیں۔ وہ ڈاکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے Pediatrics میں میڈیکل سرجری میں سپیشلائزیشن بھی کر رکھی ہے۔ نیشنل اکیڈمی آف سٹرٹیجی اینڈ پالیسی میں ملٹری سٹرٹیجی کی تعلیم بھی حاصل کر رکھی ہے۔ وہ یو ایس کے ڈیفنس کالج کی بھی تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ 2006ء سے 2010ء تک اور پھر دوسری مدت کیلئے 2014ء سے 2018ء تک چلی کی خاتون صدر رہی ہیں۔

یکم ستمبر 2018ء کو انہیں یو این انسانی حقوق کمیشن کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ یہ عہدہ انہیں بین الاقوامی معیار پر اس خدمت کے صلہ میں دیا گیا کہ انہوں نے ہر عورت‘ ہر بچہ اور ہر انسان کے حقوق کے لئے بڑا کام کیا ہے۔ یو این میں انسانی حقوق کا شعبہ 1993ء میں قائم کیا گیا تھا۔ باشلے اس کی اب ساتویں کمشنر ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے محترمہ باشلے سے درخواست کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پامالیوں کی تحقیقات کیلئے فوری طور پر غیر جانبدار کمیشن بننا چاہیے۔ محترم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا یقینا اگلا ٹارگٹ یہی ہوگا کہ (1) مذکورہ کمیشن بھی بن جائے‘ (2) ڈاکٹروں کی ٹیم اور ادویات بھی وہاں پہنچ جائیں ‘(3)غذائی سہولیات بھی یو این کی سطح پر وہاں پہنچائی جائیں ‘(4) محاصرے‘ کرفیو اور ظلم کا خاتمہ ہو ‘(5) کمیشن آزادانہ کام کرے اور مظالم سے دنیا آگاہ ہو اور معاملہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کی جانب جائے۔

شاہ محمود قریشی سے ملنے کا دو بار اتفاق ہوا۔ ایک اس وقت جب پاکستان میں دہشت گردی ہو رہی تھی۔ فرقہ واریت بھی پھن پھیلائے کھڑی تھی۔ تب محترم قاضی حسین احمد رحمہ اللہ کی صدارت میں لاہور کے ایک ہوٹل میں ملی یکجہتی کا پروگرام ہوا تھا۔ شاہ محمود قریشی‘ پیر سید ہارون علی گیلانی‘ خواجہ معین الدین محبوب گوریجہ جیسی شخصیات موجود تھیں۔ میں نے تجویز پیش کی کہ مسلمانوں پر مسلمانوں کی طرف سے کافر‘ مشرک اور گستاخ رسول کے فتوے لگانے کی منبر و محراب سے حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ میری اس تجویز کو تمام شرکاء نے سراہا۔ محترم شاہ محمود قریشی نے خصوصی طور پر سراہا تھا۔ وہ ایسے سیاستدان ہیں کہ جن کی زبان سے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا ‘ مگر جب وہ اہل کشمیرکا مقدمہ لڑتے ہوئے جنیوا میں خطاب کرتے ہیں تو انداز جنگ ہوتا ہے۔ ساتھ شائستگی بھی لئے ہوتا ہے۔ میں نے مشیل باشلے کا تعارف اس لئے لکھا ہے کہ وہ ایک ہمدرد‘ تجربہ کار‘ پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ ان کے ذریعے ہم انسانیت کے حوالے سے اہل کشمیر پر روا ظلم کی داستانوں کو دنیا بھر میں پھیلا کر انڈیا کا بھیانک اور اصلی سیاہ چہرہ دینا کو دکھلا سکتے ہیں۔ حقیقت میں یہ اسی مہم کا نتیجہ ہے کہ انڈین فوج کے دو سابق لیفٹیننٹ جنرلز اور دو دیگر آفیسرز کینیڈا کے ہائی کمیشن میں وہاں کی شہریت کے حصول کے لئے گئے تو کینیڈا نے ان کی درخواستوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ تم لوگ کشمیر میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر چکے ہو۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ کینیڈا کے پاس انڈین فوج کے ان افسران کی فہرست موجود ہے‘ جنہوں نے وہاں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ایک بار مجھے جنرل حمید گل مرحوم کے ساتھ لاہور سے اسلام آباد تک اکٹھے سفر کا موقع ملا تو انہوں نے یہ بات کہی تھی کہ ہمیں مقبوضہ جموں اور کشمیر میں موجود فوج کے ان افسران اور جوانوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہیے‘ جنہوں نے ظلم کیا ہے ‘تاکہ آنے والے وقتوں میں ان پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ محترم شاہ محمود قریشی کی وزارت خارجہ کو اپنے ملکی اداروں‘ حقوق انسانی کی تنظیموں اور دنیا بھر کے حکومتی اداروں سے ایسے ظالموں کی فہرستیں حاصل کرنا چاہیں اور پھر ان کو مشتہر کر کے ان کا چہرہ دنیا کو دکھانا چاہیے۔ ان پر عالمی عدالت میں جنگی جرائم کے مقدمات کی تیاری کرنی چاہیے۔ چند ایک معروف ظالموں کے بارے میں میری تجویز ہے کہ قدم اٹھا دینا چاہیے ‘تاکہ باقی افسران کو خوف لاحق ہو جائے۔ میری تیسری تجویز یہ ہے کہ ایسے ظالموں پر دنیا بھر کے ان ملکوں میں پابندیاں لگوائی جائیں‘ جو حقوق انسانی کی پاسداری میں ایک نام رکھتے ہیں۔ جیسا کہ کینیڈا نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی صاحب اور ان کی وزارت کے لئے میری آخری تجویز۔ آخری کتاب قرآن حکیم کے حوالے سے ہے جو انسانیت کے آخری رسول حضرت محمد کریمؐ پر نازل ہوا۔ اس میں انسان کیلئے انسان کا لفظ 65مرتبہ آیا ہے۔ اس میں انسان کی منفی جبلت کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ میں نے انہیں سارے قرآن سے اکٹھا کیا تو 9کی تعداد کو پہنچا ہوں۔ ملاحظہ ہو؛ -1 ظلوم: حد سے بڑھ کر ظلم کرنے والا‘ -2 قتوراً: اپنے زیر کفالت اولاد اور لوگوں پر زندگی تنگ کر دینے والا‘ -3 ھلوعاً: گھٹیا اور تھوڑے دل والا ؛(جو کسی کو اس کا حق تک نہ دے)‘ -4جزوعاً: دہائیاں مچانے والا؛ شور شرابا کرنے والا؛ (مودی اور انڈیا کے میڈیا کی دہائیاں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں‘ انہی سے ڈر کر عمران خان اور شاہ محمود کہتے ہیں کہ انڈیا خود کوئی پلوامہ کرے گا اور پھر دہائیاں دے کر ظالم اپنے آپ کو مظلوم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرے گا)‘ -5 منوعاً: خیر کو انسانیت سے روکنے والا؛ (آج جموں و کشمیر اور انڈیا کے مسلمانوں‘ مسیحیوں‘ سکھوں اور دلتوں سے ہر طرح کی خیر اور بھلائی روکی جا رہی ہے) ‘-6 کفار: پرلے درجے کا ناشکرا: (جی ہاں! اقتدار کی نعمت کا تقاضا اپنے خالق کا شکر ہے ‘مگر یہاں ظلم کر کے ناشکری کا اظہار ہے)‘ -7 عجولاً: جلد بازیاں کرنے والا (370اور 35A‘پھر کرفیو؛ آسام سے 19لاکھ انسانوں کی شہریت کا خاتمہ وغیرہ کی جلد بازیاں)‘ -8 جدلاً: سخت جھگڑالو (سارے انڈیا میں اس وقت سوا ارب انسان جھگڑالو بنا دیئے گئے ہیں کہ جو گائے وغیرہ کے نام پر گلی گلی جھگڑ رہے ہیں)‘ -9جولاً: سراسر نادان‘ کم عقل‘ بے وقوف۔

قارئین کرام! اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا حرکتوں سے محفوظ ‘استثناء لوگوں کا بھی تذکرہ فرمایا ہے۔ ایسے لوگوں چار خوبیوں کے حامل ہیں؛ وہ انسانیت کے ہمدرد ہوتے ہیں۔ -1اپنے خالق کی عبادت کرنے والے -2 زندگی کی سہولتوں سے محروم اور مانگنے والے لوگوں کو دینے والے -3 قیامت پر ایمان رکھنے والے -4 رب کریم کی سزا کا خوف رکھنے والے۔ جی ہاں! تجویز یہ ہے کہ محترمہ مشیل باشلے کے سامنے قرآن کی روشنی میں مودی اور اس کے ظالم ساتھیوں کی 9عدد خصلتیں ثبوتوں کے ساتھ رکھی جائیں اور پاکستان میں اہل پاکستان کی چار خصوصیتیں بھی رکھی جائیں کہ جہاں تمام اقلیتیں محفوظ و مامون ہیں۔ مقبوضہ ا ور آزاد کشمیر کا موازنہ بھی پیش کیا جائے۔ ایسی جدوجہد کو جاری اور تیز رفتاری کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ کشمیر پاکستان بن کر رہے گا۔ (انشا اللہ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے