انجام مختلف کیسے ہوگا؟

پی ٹی آئی کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس کے ساتھ ایسا کیا ہوا ہے کہ پائوں کہیں رکھتے ہیں اور جا کہیں پڑتے ہے اور ان کے اپنے فالورز اور ووٹرز بھی اس کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔
اس میںکس کا قصور ہے؟

ایک تو وہی روایتی جواب دیا جاسکتا ہے کہ سارا قصور عوام کا ہے جو ستر سالوں کا گند ایک سال میں صاف کرنے کے خواہش مند ہیں اور صبر نام کی چیز نہیں ہے‘ لہٰذا چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی شور مچ جاتا ہے۔ ممکن ہے اس بات میں صداقت ہو‘ لیکن سوال یہ ہے کہ عوام ایسے کیوں ہوگئے ہیں‘ وہ راتوں رات اپنے مسائل کا حل کیوںچاہتے ہیں؟ اس کے لیے ہمیں عمران خان صاحب کے بائیس برسوں کی تقریروں کو پھر سے سننا اور سمجھنا ہوگا ۔ عمران خان لوگوں کو یقین کرا بیٹھے تھے کہ وہ راتوں رات چیزیں درست کر دیں گے ۔ زرداری نواز شریف یا بینظیر بھٹو کو کچھ بھی کہیں ‘وہ الیکشن کے دنوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی بات نہیں کرتے تھے۔ اگر کرتے بھی تو لوگوں نے یقین نہیں کرنا تھا‘ کیونکہ وہ اس سے پہلے اقتدار میں آچکے تھے اور لوگ دیکھ چکے تھے کہ وہ جو کہتے ہیں اس کے برعکس ہی کرتے ہیں ۔

لوگ اگرچہ انہیں ووٹ دیتے رہے لیکن یقین کم ہی تھا کہ وہ بہت بڑا چمتکار کر گزریں گے۔ نواز شریف کی تقریروں کا زیادہ تر زور اس پر ہوتا کہ پیپلز پارٹی نے کیسے ملک کو لوٹا اور ہم لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے‘ یا پھر اکانومی کو آسمان پر لے جائیں گے‘ جبکہ پیپلز پارٹی کا نعرہ زیادہ تر نوکریاں دینے تک محدود تھا یا بھٹو کی پھانسی ۔ ان دونوں نے کبھی ملک کے اصل مسائل پر بات نہیں کی کہ ادارے ختم ہوگئے ہیں‘ انہیں دوبارہ کیسے اپنے پائوں پر کھڑا کریں گے۔ ملک کی اکانومی نیچے جارہی ہے‘ جبکہ ان خاندانوں کا اپنا کاروبار آسمان کو چھو رہا ہے۔ ان دونوں کو اداروں کی مضبوطی سوٹ نہیں کرتی تھی‘ کیونکہ انہوںنے کرپٹ اداروں کے ذریعے ہی کمائی کرنی تھی ۔ انہیں اچھے افسران سوٹ نہیں کرتے تھے جو ان کی راہ میں رکاوٹ بنیں۔ مجھے یاد ہے 2013 ء میں چین کے دورے میں نواز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں ہم صحافیوں سے کہا تھا کہ انہیں اب سینئر بیوروکریٹس کی ضرورت نہیں ہے‘ انہیں اب نوجوان اور go getters قسم کے بابوز چاہئیں‘ جو ان کے کہنے پر کام کریں‘ انہیں رولز نہ سمجھائیں ۔ جن نوجوان افسران کو وہ ماڈل کے طور پر لائے وہ دونوں آج کل نیب کی قید میں ہیں۔ ایک کا نام فواد حسن فواد ہے اور دوسرا احد چیمہ ہے۔ ان نوجوان افسران نے اپنی ٹیم تیار کی جس نے ہاؤس آف شریف کو دولت اکٹھی کرنے کے نئے نئے طریقے بتائے۔ ایک دن میرے دوست ارشد شریف نے سٹوری بریک کی کہ کیسے چینی کمپنی کو پراکسی کے طور پر استعمال کر کے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے چیئرمین شاہد تارڑ نے قطر میں سیف الرحمن کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کیے کہ سکھر کراچی موٹر وے کا ڈھائی ارب ڈالرز کا ٹھیکہ انہیں دیں گے۔ سامنے چینی اور پیچھے ہاؤس آف شریف اور ان کے فرنٹ مین تھے۔ جب سکینڈل آیا تو فواد حسن فواد ٹی وی چینل پر بیٹھ کر اس ڈرٹی ڈیل کا دفاع کررہے تھے اور شرط یہ رکھی کہ اس میں وہ رپورٹر نہیں بیٹھے گا جس نے یہ سکینڈل بریک کیا تھا ۔ ارشد شریف آج بھی نئے نئے سکینڈلز بریک کررہا ہے جبکہ فواد حسن فواد عرصہ ہوا نیب کی قید میں ہے۔

عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم‘ دونوں یہ سب کچھ دیکھ بھی رہے تھے اور اس کا فائدہ بھی اٹھارہے تھے کہ کیسے میڈیا شریف حکومت کو ایکسپوز کررہا ہے اور وہ اپنی تقریروں میں مزید جوش خطابت کا شکار ہوتے گئے۔ جوں جوں ہاؤس آف شریف لاہور اور اسلام آباد میں بیوروکریسی کے ذریعے طاقت پکڑتا گیا‘ عمران خان کے نعروں میں شدت آتی گئی کہ وہ ایسی گورننس متعارف کرائیں گے کہ دنیا دیکھے گی۔ عمران خان کو ایک بڑا ایڈوانٹیج اپنے مخالفوں پر یہ تھا کہ وہ اس سے پہلے اقتدار میں نہیں آئے تھے‘ لہٰذا وہ جو بھی چاہتے دعویٰ کرسکتے تھے۔ ان کے مخالفین کے پاس ایسا کوئی ایڈوانٹیج نہیں تھا‘ کیونکہ پیپلز پارٹی کو وہ پانچ برس پاور میں دیکھ چکے تھے‘ جبکہ نواز شریف بھی تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تھے۔ یوں عمران خان روزانہ کی بنیاد پر جوش کواوپر لے گئے۔ شریف اور زرداری یہ نہ جان سکے کہ دنیا بدل رہی ہے‘ انہیں بھی بدلنا ہوگا ۔ پرانے ہتھکنڈوں سے حکومت نہیں چل پائے گی۔ نئی نسل اب سوشل میڈیا پر بیٹھی ہے‘ جو آسانی سے اپنے بزرگوں کی طرح وضع داری اور لحاظ نہیں کرتی۔ وہ نوجوان کسی کو بھی شک کا فائدہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔

اب مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان وزیراعظم بن کر اسی سوچ کے ساتھ چل رہے ہیں جو کبھی نواز شریف اور زرداری کی تھی ۔ وہ بھی یہ سوچ کر حکمرانی کررہے ہیں کہ وہی کرو جو من بھائے‘ لوگوں کی پروا کون کرتا ہے۔ انہوں نے ہر وہ وعدہ توڑا ہے جو عوام سے کیا تھا ۔ ان کی بھی شریف خاندان کی طرح سوچ بن گئی ہے کہ کیا فرق پڑتا ہے۔ یہی سوچ کر پیپلز پارٹی پنجاب سے ہاتھ دھو بیٹھی اور شریف خاندان بھی پنجاب میں الیکشن ہار گیا ۔ پاکستان کی قسمت کے فیصلے پنجاب کرتا ہے‘ کیونکہ یہاں بارہ کروڑ لوگ آباد ‘ہیں‘ جہاں ایک سو چوالیس سے زائد سیٹیں ہیں اور جو پنجاب سے جیت جائے وہ اسلام آباد پر حکومت کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے بہت سارے مہربان ناراض ہوجائیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی بھی اگر کرپشن‘ بیڈ گورننس کے خلاف کوئی ردعمل آتا ہے تو وہ پنجاب ہی سے آتا ہے۔ یہ نہیں کہ پنجاب میں کرپشن نہیں ۔ کرپشن بہت ہے‘ کیونکہ اس کا بجٹ بڑا ہے‘ لیکن ابھی بھی یہ پنجاب کا میڈیا ہے جو کرپشن کے خلاف رپورٹنگ کرتا رہتا ہے اور اسے ایشو بنائے رکھتا ہے۔ میں نے کم ہی باقی صوبوں کی لیڈر شپ کو کرپشن کے خلاف بات کرتے دیکھا ہے۔ اگر بات کی بھی ہے تو صرف منہ زبانی‘ لہٰذا عمران خان کا اوپر آنا ایک فطری سی بات تھی ۔ عمران خان نے سمجھ لیا تھا کہ وہ اب اصولوں کے ساتھ سیاست نہیں کرسکتے‘ انہیں رومن کی طرح وہی کرنا ہوگا جو روم میں کیا جاتا ہے۔ شریفوں اور زرداریوں کی کرپشن ا ور بیڈ گورننس سے تنگ آئے عوام نے بھی یہ سوچ کر آنکھیں دوسری طرف کر لیں کہ چلیں عمران خان کو موقع دیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اس موقع سے فائدہ اٹھا سکے؟ مجھے یاد ہے جب وزیراعظم بننے کے بعد ان کی ٹی وی اینکرز سے پہلی ملاقات ہوئی تو لگ رہا تھا کہ وہ سب کو سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ ہم ان کے ماڈل آف گورننس کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ کریں ‘نہ کہ پرانے انداز میں رپورٹنگ کریں‘ جس طرح زرداری اور شریف دور میں کرتے رہے۔ ہم سب کواندازہ ہوگیاتھا کہ عمران خان کے کچھ اور ارادے ہیں‘ اس لیے وہ سو دن مانگ رہے ہیں کہ انہیں کچھ نہ کہا جائے‘ حالانکہ ہم ان کی باتوں اور نعروں سے یہ توقع کیے بیٹھے تھے کہ وہ ہم سب سے کہیں گے کہ آپ لوگ پہلے دن سے ہی میرے پہلے فیصلے سے ہی مجھے جج کریں۔ وہ دراصل وقت مانگ رہے تھے ‘جب انہوں نے اپنے قریبی دوستوں اور ملازمین کو نوازنا تھا ا ور بہت سارے یو ٹرن لینے تھے۔ دوستوں اور پارٹی کے ڈونرز کو مشیر بنا کر کابینہ میں لانا تھا اور سیاسی اتحادیوں کے نالائق افسران کو اعلیٰ پوسٹنگزدینی تھیں۔ عمران خان یہ بات بھول گئے تھے کہ ان کا ووٹ بینک پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سے بہت مختلف ہے۔ وہ ایک سال تک انتظار کرتے رہے‘ لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ ان کے ساتھ بھی وہی کھیل کھیلا جارہا ہے جو ان سے پہلے شریف اور زرداری کھیلتے رہے تھے۔ یوں عمران خان‘ جن پر اعتماد تھا کہ وہ درست بندے کو درست جگہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ نے بیوروکریٹس کی وہ کلاس متعارف کروائی کہ اب پورے پنجاب میں پارٹی کو جگہ نہیں مل رہی جہاں یہ جا کر چھپ جائے اور اپنے ووٹررز اور فالورز سے جان چھڑائے۔

عمران خان صاحب سے بھی اپنے ووٹرز اور فالورز کو سمجھنے میں وہی غلطی ہوئی ہے جو زرداری اور شریف نے کی تھی ۔ ان دونوں نے اپنے ووٹرز کے ردعمل کو سنجیدہ نہیں لیا ۔ شریف اور زرداری کا انجام ہمارے سامنے ہے ۔ اب عمران خان بھی اپنے فالورز اور ووٹرز کو اسی طرح سنجیدہ نہیں لے رہے بلکہ اپنی غلطیوں پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ جب غلطیاں ایک جیسی ہوںگی تو زرداری اور شریفوں سے انجام کیسے مختلف ہوسکتا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے