کیا786لکھنا صحیح ہے

ایک مفتی صاحب کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے :”عام طور پر خطوط ‘ دستاویزات اور تحریروں کے شروع میں بسم اللہ کی بجائے 786لکھ دیا جاتا ہے ‘تاکہ کاغذ زمین پر گرنے سے بے ادبی نہ ہو‘ جبکہ حدیث میں ہے؛ہر اہم کام جو اللہ کے نام سے شروع نہ کیا جائے‘ وہ ناقص ہوتا ہے‘‘ (سنن دار قطنی:884)۔ تو کیانام کے اعداد اللہ کے مبارک نام کا بدل ہوسکتے ہیں؟ ان سے وہ برکت حاصل ہوگی‘ نیز یہ کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے اعداد کا مجموعہ 786نہیں ہے ‘اگر شمسی حروف پر ال کو شمار کیا جائے ‘تو1186بنتا ہے اور نہ کیا جائے تو726بنتا ہے ۔غالباً یہ ہندوئوں کے بھگوان ہری کرشنا کے اعداد کا مجموعہ ہے اور ہندوئوں کے ساتھ معاشرت کی وجہ سے مسلمانوں میں رائج ہوگیا ہے‘‘۔
مفتی صاحب کا یہ موقف درست نہیں ہے‘ علمِ جمل کا تعلق عربی وفارسی حروف تہجی سے ہے ‘ہندی سے نہیں ہے اور سنسکرت میں ابجد کی روایت ہی نہیں ہے ‘اگر ہے تو ثبوت درکار ہے ‘ نیز یہ کہ ”بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘کے اعدادکامجموعہ ابجد کے حساب سے786ہی بنتا ہے‘اس کی تفصیل یہ ہے ”بسم:

102‘اﷲ:66‘الرحمن:329‘الرحیم:289‘ ان کا مجموعہ786بنتا ہے‘‘۔قاعدہ یہ ہے کہ لکھے ہوئے حروف کے اعدادکا حساب لگایا جا تا ہے‘خواہ حروف شمسی ہوں یا قمری‘ تشدید کی صورت میں بھی‘ چونکہ مکتوب ایک ہی حرف ہوتاہے‘ لہٰذااس کے اعداد کو جمع کر لیا جاتاہے‘لفظ اﷲ اور الرحمن پر کھڑی زبر حرف کی صورت میں نہیں ‘ بلکہ حرکت کی صورت میں ہے‘لہٰذا اس کا عددبھی حساب میں نہیں آئے گا۔ ایک المیہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی فن کا ماہر ہو یا نہ ہو‘ اس میںٹانگ ضروراڑاتاہے‘ نا صرف ماہرانہ رائے دیتاہے ‘بلکہ اپنی رائے کو حرفِ آخرقرار دیتا ہے ‘ اس معاملے سب سے زیادہ مظلوم اسلام اور شریعت ہے۔مرزا اسد اللہ غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے:؎
بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوئہ اہل نظر گئی

ابجد کے اصول کا عربی اصطلاحی نام ”جُمَل‘‘ یا ”جُمَّلْ‘‘ ہے‘نیز مفتی صاحب نے 786کے عدد کو ہندوئوں کے بھگوان ”ہری کرشنا‘‘ کے اعداد کا مجموعہ قرار دے کر اسے ایک مشرکانہ کلمہ ثابت کیا ہے ۔ گزارش ہے کہ ”ہری کرشنا‘‘ سنسکرت کا لفظ ہے‘ نہ کہ عربی کا اور ”جمل‘‘ کا حساب عربی کا ہے ‘چونکہ اردو میںعربی کے حروف بعینہٖ زیر استعمال ہیں‘ اس لیے اردو میں بھی اسے اختیار کر لیاگیاہے‘کیونکہ اردو حروفِ تہجی کے اصل مآخذ عربی اور فارسی ہیں۔ سنسکرت میں جمل کے حساب کو جاری کرنے والے یہ پہلے فرد ہیں۔ اعتبار تو اسی رسم الخط کا ہوتا ہے‘ جس کا وہ کلمہ یاحرف ہے‘ سنسکرت کی ابجد (Alphabetic) ‘ان کا رسم الخط اور تلفظ بالکل جدا ہے‘ کسی ماہر سنسکرت سے ”ہری کرشنا‘‘لکھواکر دیکھ لیجیے‘جُمل کے حساب سے سنسکرت کے بعض حروف بعینہٖ عربی اور فارسی میں استعمال نہیں ہوتے۔ مفتی صاحب کے بقول ؛بہت کھینچ تان کر اعداد کو جوڑ بھی لیا جائے تو ہری کرشنا کے اصل حروف زیادہ سے زیادہ 436بنتے ہیں‘ لیکن ؛اگر کسی کو خواہ مخواہ مسلمانوں کا ہندومت سے رشتہ جوڑنے کا شوق ہے تو یہی کہا جا سکتا ہے ؛بریں عقل ودانش ببایدگریست‘‘۔

اب دیکھیے! سنسکرت کے حروف تہجی بھ‘ پ‘ ٹ‘ ٹھ‘ جھ‘ چھ‘ دھا‘ ڈ‘ ڈھا‘ کھا‘ گ‘ گھا وغیرہ عربی میں کہاں ہیں‘ اور جن ہندی یا سنسکرت کے الفاظ میں یہ حروف تہجی استعمال ہوں گے‘کیا ان کے لیے مفتی صاحب ”جمل‘‘ کے نئے قواعد وضع کریں گے‘ کیا مفتی صاحب ناقابل تردید دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں کہ سنسکرت میں جمل کا حساب رائج رہا ہے۔

البتہ ”بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کے لیے786کے عددکا اہل علم کے ہاں استعمال کی روایت موجود ہے ۔علمِ میراث کا ایک رسالہ ہے ‘اُس کانام ہے:”مفید الوارثین مکمل‘‘ اور یہ نام بھی ”جمل‘‘کے حساب سے رکھا گیاہے‘ یعنی رسالے کا سنِ طباعت بھی1349 ھ ہے اور کتاب کے مذکورہ بالانام کے اعداد کا مجموعہ بھی1349بنتاہے‘ یہ رسالہ دارالاشاعت دیوبند‘ضلع سہارنپورسے شائع ہوا ہے اور اس کے مصنف دارالعلوم کے ایک معروف مدرس مولاناسید اصغر حسین اس کے صفحہ: 232پر لکھتے ہیں:”ایک طویل کاغذ لے کر اس کی پیشانی پر”ھوالباقی‘‘ یا”بسم اﷲ‘‘ لکھو یا بسم اﷲ کے اعداد786 لکھو‘ وغیرہ‘‘۔ امام احمد رضا قادری کی کئی کتابوں کے نام ایسے ہیں کہ نام کے اعداد کا مجموعہ سنِ تصنیف کے برابر ہے؛چنانچہ آپ کے فتاویٰ کے مجموعہ کا تاریخی نام ”العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویہ‘‘ ہے ۔امام احمد رضا قادری کی سوانح میں لکھا ہے: ”وہ جب بسم اللہ کے اعداد لکھتے تو دائیں جانب سے شروع کرتے‘ یعنی پہلے 6پھر 8پھر 7اس سے معلوم ہوا کہ وہ بھی بعض اوقات بسم اللہ کی جگہ 786لکھتے تھے۔

یہ امر مسلم ہے کہ ہر نیک اور اہم کام کا آغاز ”بسم اﷲ‘‘ سے کرنا چاہیے‘اگر وہ کام کوئی اچھی تحریر‘ تصنیف یا خط ہے تو اس کے شروع میں بھی ”بسم اﷲ‘‘ لکھنا مسنون‘ مستحب اور مستحسن امر ہے‘ اس سے اس کام اورتحریر میں برکت پیدا ہوتی ہے۔قرآنِ کریم میں حضرت سلیمان کا ملکۂ سباکے نام مکتوب کاحوالہ ہے ‘اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے: ”اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَانَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ نبی کریم ﷺ اپنے مکتوب کو اس طرح شروع فرماتے تھے :” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ‘‘ لیکن کسی تحریر یا خط کے شروع میں ”بسم اﷲالرحمن الرحیم‘‘ اس وقت لکھا جائے کہ جب ”مخاطَب‘‘ اور ”مکتوب الیہ‘‘ کے بارے میں حسنِ ظن ہو کہ وہ اس کا ادب واحترام ملحوظ رکھیں گے ‘ اسے قدموں کے نیچے یا کسی ڈسٹ بن اور کوڑے دان میں نہیںپھینکیں گے اور اگر خدانخواستہ بے ادبی کا گمان یا یقین ہوتو پھر تحریر کے شروع میں بسم اللہ ہرگز نہ لکھی جائے ‘بلکہ تحریر شروع کرنے سے پہلے زبانی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر لکھنا شروع کر دے ۔ فقہائے کرام نے لکھا ہے: اگر کفار کی بستی میں جانا ہو اورظن ِغالب ہو کہ قرآن مجید لے کر جائیں گے اور وہ ان کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اس کی بے حرمتی کریں گے‘ ایسی صورت حال میں قرآن مجید ساتھ لے کر نہ جائیں ۔

یہ عقیدہ کسی کا نہیں کہ بسم اللہ الرحمن لکھنے یا پڑھنے کی بجائے 786کا عد د لکھا جائے تو بسم اللہ کا ثواب ملے گا ‘ کیونکہ یہ عقیدہ اختیار کرنے سے سنت بسم اللہ کا ترک لازم آئے گا‘ جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ جب 786بسم اللہ کا متبادل یا اس کے قائم مقام نہیں ہے تو لکھنے کا کیا فائدہ‘آپ کو معلوم ہے کہ بعض Code Words یا اشاراتی الفاظ یا نشانات ہوتے ہیں‘ جو مسلح افواج سکیورٹی ایجنسیوںاور سراغ رسانی کے اداروں یا شعبہ جات میں استعمال ہوتے ہیں اور اس شعبہ سے وابستہ افراد کا ذہن ان کے سنتے ہی یا ان پر نظر پڑتے ہی اس مراد کی طرف منتقل ہوجاتا ہے ‘ جس کے لیے انہیں وضع کیا گیا ہے ۔ سو‘ اگر تحریر کے شروع میں 786کا عدد لکھا ہو اور اس پر نظر پڑتے ہی قاری کا ذہن بسم اللہ کی طرف منتقل ہوجائے اور وہ فورا بسم اللہ الرحمن پڑھ لے ‘ تو یہ بھی بہت بڑا فائدہ ہے ‘بے ادبی سے بھی بچ گئے اور سنت ِبسم اللہ کا اجر بھی پا لیا ۔ یہ تو طے ہے کہ 786کا لکھنا کسی کے نزدیک بھی واجب یا سنت کے درجے میں نہیں ہے اور اس کے ترک سے کوئی شرعی خرابی لازم نہیں آتی ‘ لیکن ؛اگر اس پر نظر پڑتے ہی بندے کا ذہن متوجہ ہوجائے اور وہ بسم اللہ پڑھ لے تو یہ اس جہت سے ایک مستحسن امر ہوگا۔

یہ مسئلہ کہ اعداد میں کوئی تاثیر ہے یا نہیں ‘میری نظر میں اس کے لیے کوئی دلیل شرعی نہیں ہے ‘ لیکن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سمیت دیگر متعد د مسلمہ اکابرامت تعویزات میں ان کا استعمال کرتے رہے ہیں اور ہما راان سب اکابرامت کے بار ے میں حسنِ ظن ہے کہ یہ اکابرکسی خلاف ِشرع بات پرجمع نہیں ہوسکتے ‘ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :” میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ‘‘(ابن ماجہ:3950)۔ توارث کے ساتھ اکابر وصلحائے امت کا عمل یہ بتا تا ہے کہ ان کے نزدیک یہ عمل مجرب ہے ۔

رہا یہ سوال کہ حروف کے اعداد کا تصور مسلمانوں میں کب سے متعارف تھا‘ توجواباً عرض ہے : مسلمان عہدِ رسالت میں بھی اس سے آشنا تھے؛چنانچہ علامہ بیضادی متوفی 685 نے اپنی تفسیر”انوار التنزیل ‘‘میں الٓم کی بحث میں لکھا ہے : ۔

”بعض سورتوں کے شروع میں مذکور ان حروف مقطعات سے جمل کے حساب سے بعض قوموں کی بقا کی میعاد کی طرف اشارہ ہے ‘ جیسا کہ ابو العا لیہ نے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث سے استدلال کیا ہے :” جب یہود آپ کے پاس آئے تو آپ نے انہیں ” الٓم‘ البقرہ‘‘ پڑھ کر سنائی‘انہوں نے حساب لگا یا اور کہا: ” ہم ایسے دین میں کیسے دخل ہوں‘ جس کی کل مدت ہی 71سال ہے‘‘ رسول اللہ ﷺ یہ سن کر مسکرائے ۔ یہود نے پوچھا: ”کیا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟‘‘ پھر آپ نے ”الٓمٓصٓ‘ الٓر‘ الٓمٓر‘ وغیرہ‘‘دیگر ایسی آیات پڑھ کر سنائیں تو انہوں نے کہا : آپ نے معاملہ ہم پر مشتبہ کردیا ۔ اب سمجھ نہیں آرہی کہ ہم ان میں سے کسے بنیاد بنا کر حساب لگائیں‘‘۔اس پر بحث کرتے ہوئے قاضی بیضادی لکھتے ہیں : ”رسول کریم ﷺ کا یہود کے اس استدلال کو رد نہ کرنا اور اسے قائم رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے نزدیک اصولی طور پر حساب لگا نا خلافِ شرع نہیں ہے ‘‘گویا یہ حدیثِ تقریری ہے ۔ ہمیں اصل کتب ِحدیث میں یہ حدیث نہیں ملی ‘ لیکن ”سیرتِ ابن ہشام‘‘ج:1‘ص:546پر موجود ہے۔

اس پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جمل کا حساب تو اپنی اصل کے اعتبار سے عربی نہیں ہے ‘ لیکن بعض اوقات کوئی غیر عربی چیز جب اہل عرب میں متعارف ہوجائے ‘ تو اسے قبول کر کے عربیت میں داخل کردیا جاتا ہے ؛ چنانچہ اپنی اصل کے اعتبار سے کئی غیر عربی الفاظ جیسے : ”مِشْکٰوۃ ‘سِجِّیْل ‘ قِسْطَاس‘‘قرآن میں آئے ہیں اور مفسرین نے لکھا:انہیں مُعَرَّب کردیا گیا ہے ‘یعنی انہیں عربی میں قبول کرلیا گیا ہے‘ اپنی اصل کے اعتبار سے‘ جس غیر فارسی لفظ کو فارسی میں قبول کرکے اس کا استعمال شروع کردیاجائے‘ تو اُسے مُفَرَّس کہتے ہیں‘ اسی طرح اردو میں جن الفاظ کوقبول کر کے اُن کا استعمال شروع کردیا جائے‘ انہیں مُوَرَّد کہتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے