’اب اسرافیل کو صور پھونکنے کی ضرورت نہیں‘

جب 33 فیصد پاکستان سنہ 2010 کے سیلاب میں زیرِ آب آ گیا تو میں کراچی تا سکردو جہاں جہاں بھی سیلابی رپورٹنگ کے لیے پہنچا تو یہی دیکھا کہ حکام کے بار بار انتباہ، التجا اور دھمکیوں کے باوجود لوگ املاک چھوڑ کر جانے کو آمادہ نہیں تھے۔ جب پانی سر تک آ گیا تو انہی لوگوں نے واویلا مچا دیا کہ حکومت انھیں بچانے کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔

کئی دیہی علاقوں میں دیکھا کہ متاثرین امدادی کشتیوں میں تب تک بیٹھنے کو تیار نہیں تھے جب تک مقامی انتظامیہ پہلے ان کے مال مویشی نکال کر خشکی تک نہ پہنچائے۔ وہ ڈوبنے کو تیار تھے مگر ڈھور ڈنگر اور املاک پیچھے چھوڑنے کو نہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی بار بار وارننگز، درجۂ حرارت میں غیر معمولی تغئیر کے سبب سیلابوں، موقع بے موقع طوفانوں اور خشک سالی میں اضافے کا ذاتی و اجتماعی تجربہ ہونے کے باوجود ہم سب لوگوں کا اس امڈتی ہوئی ماحولیاتی قیامت کے بارے میں وہی انکاری رویہ ہے جو دیہاتیوں کا گردن گردن سیلابی پانی میں ڈوبنے کے باوجود ہوتا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ سے لے کر میرے محلے کے محمد خان درزی تک سب یہی سمجھتے ہیں کہ گرین لینڈ یا انٹارکٹیکا میں ہزاروں برس سے جمی برف کا پگھلنا ایک افسانہ ہے اور سچ بھی ہو تو میرا ہزاروں میل پرے گرین لینڈ یا انٹارکٹیکا سے کیا تعلق؟ بھلا میری گاڑی سے نکلنے والا دھواں کرۂ ارض کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ میرے دو چار پلاسٹک بیگز سے اس زمین کا حیاتیاتی حلق کیسے بند ہو سکتا ہے؟

رہی بات اگلی نسل کی تو وہ جانے اور اس کی دنیا جانے۔ موسمیاتی نظام تو قدرت کے ہاتھ میں ہے۔ بچوں کی پیدائش بھی خدائی کام ہے، زندگی اور موت بھی اوپر والے کا اختیار ہے جس کی جس طرح لکھی ہے اسی طرح آئے گی۔ یہ موسمیاتی و ماحولیاتی سائنسدان تو جانے کب سے بک بک کرتے آئے ہیں، بک بک کرتے رہیں گے۔

کوئی بھی تو سنجیدہ نہیں، جس سرمایہ دار نے پچھلے 200 برس میں اندھا دھند صنعت کاری کے ذریعے زرعی پیداوار بڑھانے کے نام پر کھیتوں میں کیمیاوی زہر پھیلا کر، عالمی ٹرانپسورٹ نظام کی بنیاد پٹرول اور ڈیزل پر رکھ کر، عمارتی لکڑی، زرعی زمین، مویشی بانی اور رہائشی بستیوں کے نام پر جنگلات کو آگ لگا کر صاف کر کے اور عوام الناس کو فیشن، فینسی خوراک اور پر آسائش معیارِ زندگی کی جعلی مانگ (کنزیومر ازم) کی جانب لگا کر ہمارے ہی مشترکہ انسانی وسائل ہمیں ہی فروخت کر کے ترقی کے نام پر کھربوں ڈالر کما لیے اب وہی سرمایہ دار اپنے ہی صنعتی، زرعی، جنگلاتی و معدنیاتی کرتوتوں کے نتیجے میں اپنا ہی پھیلایا ہوا گند صاف کرنے کے لیے گرین ٹیکنالوجی کے نام پر آنے والے عشروں میں مزید کھربوں ڈالر ہماری ہی جیب سے اینٹھنے کو تیار ہے۔

یعنی جس طرح آٹھ عشرے پہلے ہمیں سگریٹ کا عادی بنا کر کمایا اب تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے نمٹنے کے طریقوں سے میری اور آپ کی جیب ہلکی ہو رہی ہے۔

مگر انسانی نفسیات کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ اشرف المخوقات بقائی خطرات بھاپنے کے معاملے میں شیر، بندر، سانپ اور لومڑی وغیرہ سے کہیں پیچھے ہے۔ کوئی لاکھ چیختا رہے کہ کرۂ ارض کی اجتماعی ماحولیاتی تباہی میں اب صدیاں نہیں چند برس باقی ہیں لیکن کس کے کان پر جوں رینگے گی۔ ایمیزون جنگل کا ایک بڑا حصہ آنکھوں کے سامنے تباہ ہو گیا۔ کیا کسی فیصلہ ساز کی لمحے بھر کی نیند بھی خراب ہوئی؟

آپ نے صورِ اسرافیل کے بارے میں تو سنا ہی ہوگا۔ ایسا نہیں کہ اچانک سے کسی لمحے ایک خوفناک آواز سے کان کے پردے پھٹ جائیں گے اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنا شروع کر دیں گے۔

صور بہت مدہم اورمدھر آواز میں پھونکا جائے گا۔ لوگ اس آواز کی کشش کی جانب لپکیں گے اور پھر رفتہ رفتہ یہ آواز بڑھتی چلی جائے گی اور اتنی بڑھ جائے گی کہ پہاڑ اس کی فریکوئنسی سے ریزہ ریزہ ہونے لگیں گے اور پھر یہ کرۂ ارض ایک اجتماعی تابوت میں تبدیل ہو جائے گا۔

ذرا دھیان اور کان لگا کر سنیے صور پھونکا جا چکا ہے۔ یہ اسرافیل نے نہیں ہم نے پھونکا ہے اس کی فریکوئنسی سے موسم باؤلے ہو گئے ہیں، گلیشئرز پگھل رہے ہیں اور آسمان میں سوراخ ہو گیا ہے۔

اور کیا نشانیاں چاہئیں تمہیں۔ مگر تم شاید تب بھی یقین نہ کرو گے جب پانی سے باہر صرف تمہاری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے