ڈرائیور، راستہ بدلو

مسافر ڈرائیور سے۔ ڈرائیور صاحب، راستہ بدلو، آگے سڑک خراب ہے اس راستے پر چلنا ممکن نہیں رہا۔

ڈرائیور۔ میں کئی سالوں سے اسی راستے پر گاڑی چلا رہا ہوں، راستہ مشکل ضرور ہے مگر مجھے ان مشکل راہوں سے نکلنا آتا ہے۔

مسافر۔ میں نے بھی یہ راستہ دیکھ رکھا ہے اس بار پتھر زیادہ ہیں، لینڈ سلائیڈنگ نے آگے جانا مشکل بنا دیا ہے، بہتر ہے راستہ بدل لو۔

ڈرائیور۔ مجھے کوئی اور راستہ آتا ہی نہیں، میرا دماغ اسی راستے پر کام کرتا ہے، میں اسی راستے سے گاڑی کو نکال لوں گا۔

مسافر۔ آپ کی نیت اچھی ہے، آپ کو تجربہ بھی ہے مگر دنیا کے راستے بدلتے رہتے ہیں اگر ایک رستہ بند ہونے لگے تو دوسرا اپنا لیتے ہیں وگرنہ پرانے راستے پر چلنے میں نقصان ہی نقصان نظر آ رہا ہے۔

ڈرائیور۔ آپ خواہ مخواہ گھبرا رہے ہیں، ہمارے ذہن بن چکے ہیں، اسی راستے کی تیاری اور مہارت ہے۔

مسافر۔ کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی راستہ نہ بدلنا اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔ ہیوسٹن کے جلسے کے بعد ٹرمپ ثالث کیسے بن سکتا ہے وہ تو خود فریق ہے، جس دروازے کو آپ کھٹکھٹا رہے ہیں وہ دروازہ کوئی اور کھلوا چکا ہے۔

ڈرائیور۔ افغانستان کی کنجی ہمارے پاس ہے، ٹرمپ کی مجبوری ہے کہ ہمارے ساتھ بنا کر رکھے تاکہ ہم اسے وہاں سے نکلنے میں مدد دیں۔ ہمارا راستہ ٹھیک ہے، ٹرمپ پھنسا ہوا ہے۔

مسافر۔ مودی کو شہ دے کر اور پاکستان کو بھارت کے دبائو میں رکھ کر بھی تو افغانستان کا حل نکل سکتا ہے، ہو سکتا ہے ٹرمپ جان بوجھ کےیہ کر رہا ہو۔آپ 70سال سے پاکستان کی گاڑی چلا رہے ہو مگر اب گاڑی کے لئے نیا راستہ نکالنا پڑے گا، امریکہ ہمارے خلاف اچھے عزائم نہیں رکھتا، بھارت اسے بھڑکاتا ہے ہم چین پر سو فیصد انحصار نہیں کر سکتے کیونکہ اس طرح ہم مغربی دنیا سے کٹ جائیں گے، مسلم امہ صرف ملنے ملانے میں ٹھیک ہے، وہ ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں۔

ڈرائیور۔ آپ لوگوں کو نہ ڈرائیونگ کا علم ہے نہ حکمت عملی کا، ہم چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے ہم پہلے سے بہتر جا رہے ہیں۔ مسلم امہ کے لئے پاکستان بھی مجبوری ہے، ہماری طاقت کا ہر ایک کو علم ہے، وہ ہماری طاقت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں مگر ہم کسی اور ملک کے چکر میں نئے تنازعے میں الجھنا نہیں چاہتے۔ یہ سب مفادات کی جنگ ہے۔ آپ اپنے مشورے رہنے دیں ہم اس صورتحال پر مسلسل غور کر رہے ہیں، کوئی نہ کوئی بہتر حل نکالیں گے۔

مسافر۔ صورتحال اس سے بری ہو نہیں سکتی۔ اندرونی اور بیرونی محاذ دونوں پر ہی بدترین حالات ہیں، اکانومی تباہ، بزنس مین اور بیورو کریٹ ناراض، شرح سود ناقابلِ یقین حد تک زیادہ، افراط زر سے مہنگائی کا طوفان اور دوسری طرف بیرونی محاذ پر انسانی حقوق کی قرارداد پیش کرنے کے لئے 16ووٹ تک حاصل نہ کر سکنا بہت بڑی رسوائی، اور اب سب سے بڑھ کر ہودی مودی نے ہیوسٹن میں جو تماشا لگایا اور ٹرمپ نے جس طرح تالیاں بجائیں اور ہاں میں ہاں ملائی اس سے پرانا بیانیہ پٹ گیا اور اب نئے بیانیے کی اشد ضرورت ہے۔

ڈرائیور۔ وہ تو ابھی خان نے بھی کہا ہے کہ دنیا ہمارے بیانیے کو نہیں مان رہی، خان بڑا اچھا مقدمہ لڑ رہا ہے، ترکی ہمارا ساتھ دے رہا ہے، سعودی ولی عہد نے خان کو اپنا ذاتی طیارہ دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ہمارا ساتھ دے رہی ہیں، حوصلہ نہ ہاریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔

مسافر۔ آپ کی باتیں کھوکھلی ہیں، آپ جو دعوے کرتے ہیں وہ پورے نہیں ہوتے، سعودی اور اماراتی جپھیاں آپ کو ڈالتے رہے لیکن ووٹ آپ کو نہیں دیئے ایسا کیوں؟

ڈرائیور۔ ان کے اپنے معاشی مفادات ہیں۔ باقی ہمیں اپنی حکمت عملی کو ازسر نو مرتب کرنا چاہئے خان تو کہہ رہا ہے کہ ہمیں اپنے بندے کشمیر کے اندر نہیں بھیجنا چاہئیں۔ خان تو چاہتا ہے کہ اس خطے میں امن ہو۔

مسافر۔ کچھ لوگ عجیب ہوتے ہیں جب طالبان سے لڑنے کی ضرورت تھی تو وہ صلح کی بات کرتا تھا، اب کشمیر کے لئے لڑنے کا وقت ہے تو وہ امن کی بات کر رہا ہے، دنیا میں جنگ اور امن دونوں حقیقت ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت صحیح حکمت عملی کیا ہونی چاہئے۔

ڈرائیور۔ ظاہر ہے کہ جنگ تو کوئی آپشن نہیں اس سے تباہی آئے گی۔

مسافر۔ جنگ لڑنےکا کون کہہ رہا ہے مگر جب سخت ردِعمل دکھانے کا وقت ہے اس وقت امن کے راگ الاپنے کی کیا ضرورت ہے، جب پاک فوج طالبان سے جنگ لڑ رہی تھی، اسکولوں کے بچے دہشت گردی کا شکار ہو رہے تھے اس وقت طالبان سے صلح کی بات غلط تھی اور آج جب کشمیر میں آگ لگی ہے امن کے نعرے لگانا سراسر حماقت ہے۔

ڈرائیور۔ کشمیر کاز پر قوم متحد اور متفق ہے، جو بہترین حکمت عملی ہو سکتی ہے وہ اپنائی جا رہی ہے۔

مسافر۔ ڈرائیور صاحب، گاڑی صحیح راستے پر چل رہی ہو تو لمبا راستہ بھی کٹ جاتا ہے مگر راستہ ہی غلط اپنا لیا جائے تو وہ کبھی منزل پر نہیں پہنچاتا۔

ڈرائیور۔ آپ بتائیں کیا کریں۔

مسافر۔ غداری کے فتوے نہ لگائیں، کھلی بحث کی اجازت دیں، پاکستانی اذہان حل نکال لیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے