گوگیرہ بنگلہ

پہلی دفعہ یہاں آیا تو شدید خوف کا عالم تھا۔ جہاں سے بھی گزرا خطرات کے منڈلاتے بادلوں پر مسلسل الرٹ آتے رہے۔ اُن دنوں بین المذاہب ہم آہنگی کے وفاقی وزیر پر جان لیوا حملہ ہوا۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کی جان مشکل سے بچی۔ مگر وہ خونیں فائرنگ کی زد میں آ گئے۔ اس کے باوجود اوکاڑہ کے وکیلوں نے بے پروا گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ یہ سال 2010 کی بات ہے۔ لمبے جلوس کے ہنگام پتا ہی نہ چل سکا کہ گوگیرہ بنگلہ کب کا گزر چکا ہے۔ تب سے اب تلک پچھلے 9 سال، پروگرام بناتے بناتے گزر گئے۔ چند دن پہلے، اوکاڑہ سے ایسی دل دوز خبر آئی کہ جانا ضروری ٹھہرا۔ میں نے سٹاف سے کہا: ہم واپسی گوگیرہ بنگلہ کے راستے سے کریں گے۔ خبر کیا‘ بد خبری تھی۔

میرے دیرینہ اور جانباز دوست محمود لاشاری ایڈووکیٹ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)
بُدھ کی صبح، گھر سے نکل کر پہلا پڑائو شاہراہِ دستور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان ٹھہرا‘ جہاں کے پی کے‘ کے صوبائی حلقہ اسمبلی PK-115 درہ آدم خیل (فاٹا) کا تازہ الیکشن تنازعہ زیرِ سماعت تھا۔ 40 منٹ کے دلائل کے بعد ہم لاہور کے لئے نکل پڑے۔ راستے کا موسم مہربان تھا اور رش برائے نام سا۔ موٹر وے پر ایک سٹاپ نے سب کو تازہ دم کیا۔ اس کے بعد ہم سیدھے مال روڈ کے ایک ہوٹل پہ پہنچ گئے۔ آدھا سٹاف لاہور لاء آفس کو چل پڑا اور میں ہوٹل جم کی طرف۔ یہاں زکریا بٹ، پیر مسعود چشتی، پنجاب کے وزیرِ خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت‘ وزیرِ تعلیم ڈاکٹر مُراد راس اور دیگر دوستوں سے گپ شپ ہوئی۔ کمرے میں جا کر انٹرنیشنل پریس پر نظر ڈالی‘ جس میں اسلامی دُنیا کے تین رہنمائوں کی سمٹ کے ساتھ ساتھ عمران خان اور صدرِ ترکیہ رجب طیب اردوان کے خطاب کے چرچے تھے۔

اگلے دن صبح 9 بجے اشرف سوہنا، پیر مسعود چشتی، زکریا بٹ، الیاس خان، رائو کامران، ملک اسرارالحق، رائے تجمل حسین، اور ساجد قریشی سمیت قافلہ اوکاڑہ کے لئے نکل پڑا۔ لاہور سے مانگا منڈی اور پھر چھانگا مانگا کراس کرنے کے بعد پتوکی میں داخل ہو گئے۔ پتوکی گزشتہ کئی عشروں سے ornamental plants جنہیں آرائشی شجر کاری کے پودے بھی کہا جا سکتا ہے، کا مرکز ہے۔ یہاں کی نرسریوں کے پودے whole sale میں کراچی سے لے کر پشاور تک ٹرانسپورٹ ہوتے ہیں‘ جہاں کی مقامی نرسریاں انہیں پرچون ریٹس پر فروخت کرتی ہیں۔ ایک واقفِ حال نے بتایا کہ پتوکی میں ایک ایکڑ زمین کا ٹھیکہ 50/55 ہزار روپے سے لے کر 75/80 ہزار روپے سالانہ تک ملتا ہے‘ لیکن نرسریوں کے علاقے میں، جو مین G.T روڈ سے دونوں طرف 10/12 کلومیٹر تک پھیل چکا ہے‘ یہی ٹھیکہ 4 سے 5 لاکھ روپے فی ایکڑ کے درمیان تک پہنچ چکا ہے۔ یہاں آرائشی گملوں اور پودوں کا سمندر دکھائی دیا۔ پتوکی سے اوکاڑہ تک اس بات پر دل بہت رنجیدہ ہوا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین مکئی اور دیگر فصلوں والی شاداب highlands بے ڈھنگی ہائوسنگ کالونیوں کے نرغے میں ہیں‘ مگر نہ کوئی پوچھ گچھ ہے نہ ہی ٹائون پلاننگ۔

تقریباً ڈھائی گھنٹے بعد ہم اوکاڑہ بازار کے وسط میں جا پہنچے‘ جہاں محمود لاشاری مرحوم کی رہائش گاہ واقع ہے۔ مرحوم کا صاحب زادہ بلاول ہمارے استقبال کے لئے باہر آیا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ پی ٹی آئی کے مقامی ممبران، اوکاڑہ بار ایسوسی ایشن کے صدر رائو عبدالغفور، کابینہ کے بعض ارکان، اور تین سابق صدور لالہ جاوید گجر، رانا شوکت اور رائو عبدالمجید ساتھیوں سمیت موجود تھے‘ جنہیں سب بڑے رائو صاحب کہتے ہیں اور وہ وکلاء سیاست میں کنگ میکر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ بلاول کے ہمراہ بیگم محمود لاشاری سے اظہارِ تعزیت کیا اور مرحوم کی مغفرت اور درجات میں بلندی کی دعا بھی۔ گھر کے دوسرے حصے میں مہمان خانہ تھا۔ جہاں شہر کی متعدد معزز اور سیاسی شخصیات کی گفتگو بھی سُننے کو ملی۔

حیران کُن بات یہ تھی کہ تقریباً سبھی کہہ رہے تھے‘ نواز لیگ کے حامی کاروباریوں نے اپنی انویسٹمنٹس مارکیٹ سے واپس اُٹھا لی ہیں کیونکہ اُنہیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ن لیگ کا سُنہری دور حسین شام کی طرح جلد واپس لوٹ کر آنے والا ہے۔پوٹھوہاری علاقے کے دیہاتی وسیب میں کہتے ہیں کہ ماتم چاہے کہیں کا بھی ہو وہ ہر کسی کے اپنے اپنے درد جگا دیتا ہے۔ محمود لاشاری کے بچے دیکھ کر مجھے اپنا بچپن اور والدِ محترم کی اچانک رحلت کا منظر یاد آ گیا۔ میں نے محمود لاشاری کی فیملی سے کہا: جس گھر سے والد کا سائبان اُٹھ جائے‘ اس گھر کے یتیموں اور بیوہ کے سر پر مالکِ دو جہاں اپنی شفقتوں اور مہربانیوں کا سایہ کر دیتے ہیں۔

دن کے کھانے کا بندوبست اوکاڑہ ریسٹ ہائوس میں تھا۔ حجرہ شاہ مقیم والے علی ریاض کرمانی منتظم تھے۔ کرمانی پنچاب بار کونسل کے رُکن بھی ہیں۔ یہاں شہری انتظامیہ سے حال احوال ہوا۔ ڈپٹی کمشنر اوکاڑہ مستعد خاتون، مریم خان بھی ملیں۔ ان سے اسلام آباد تعیناتی کے زمانے سے شناسائی ہے۔ شہر میں خواتین کی ویلفیئر اور وزیرِ اعظم عمران خان کے ویژن پر بننے والی ”پناہ گاہ‘‘ پر اچھی خبریں سُنیں۔ یہاں سے پی ٹی آئی رہنما اشرف سوہنا کے ڈیرے پر گئے جو نہر کنارے واقع ہے۔ پی ٹی آئی کا جلسہ نُما اجتماع تھا جسے پریس کانفرنس کا نام دیا گیا۔ واپسی کے لئے اوکاڑہ بائی پاس کا راستہ چُنا جس کی وجہ صوفی بزرگ کرماں والا کے مزار پر فاتحہ خوانی تھی۔ یہاں سے صمصام بخاری کے بیٹے بیرسٹر ذیشان بُخاری ہمیں گھر لے گئے‘ جہاں یوتھ کی بڑی تعداد جمع تھی اور کچھ کاروباری شخصیات بھی۔

چائے کے بعد ذیشان نے ہمیں اپنے شکاری دادا کا میوزیم دکھایا جو بلا شُبہ حیران کر دینے والا تجربہ ثابت ہوا۔
محمود لاشاری مرحوم کے گھر کی بیٹھک پر وکلائ، ریسٹ ہائوس میں انتظامیہ، اشرف سوہنا کے ڈیرے پر میڈیا اور سیاسی ورکرز، صمصام بخاری کے گھر نوجوان اور تاجران یک زبان پائے۔ لوگوں کو اپنے وزیر اعظم پر یقین ہے کہ وہ 5 سالہ آئینی مُدت پوری ہونے پر ملک کا رُخ تبدیل کر دیں گے۔ کہیں ٹیکس کلچر متعارف کروانے کا ذکر آیا اور کہیں 36 سالہ گندگی کی بھل صفائی کے عزم کا تذکرہ ہوا۔

دن کے تیسرے پہر بنگلہ گوگیرہ روانہ ہوئے جہاں جنگِ آزادی کے عظیم ہیرو رائے احمد خان کھرل کا گائوں جھامرہ واقع ہے۔ شہید رائے احمد خان کھرل 1803 میں پیدا ہوئے۔ جب 1857 کی جنگِ آزادی کے دوران پنجاب میں بھی بغاوت کی لہر اٹھی تو مقامی فرنگی اسسٹنٹ کمشنر برکلے نے گوگیرہ کے حریت پسندوں کو گرفتار کر لیا۔ دریائے راوی کے پار سے رائے احمد خان کھرل نے گھُڑ سوار دستے کے ساتھ گوگیرہ جیل پر حملہ کیا اور تمام قیدی کامیابی سے رہا کروا لیے۔ اس لڑائی میں تقریباً پونے چار سو فرنگی سپاہی مارے گئے۔ کمالیہ کے دو مقامی سرداروں نے رائے احمد خان کھرل کی مخبری کر کے غداری کی۔

گوگیرہ کے معرکے میں رائے احمد خان کھرل شہید ہوئے۔ مُراد فتیانہ کے ہاتھوں برکلے کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ میں گوگیرہ میں ہوں آج یہاں نہ برکلے ہے، نہ اُس کی قبر کا نشان‘ نہ فرنگی راج، نہ ہی غیر مُلکی بارود کا دُھواں۔ مجھے گوگیرہ میں رائے احمد خان کی خوشبو محسوس ہوئی۔ میں نے اُسے آواز دے کر سلامِ عقیدت پیش کیا۔ میرا ایمان ہے کہ رائے احمد خان کھرل نے میرے سلام کا جواب دیا۔ شہید زندہ ہوتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے