ڈھنگ سے جینے کا طریقہ نہ آیا

کہنے کو تو آزادی ملی۔ بٹوارہ ہوا اور دو ملک معرضِ وجود میں آئے (ان میں سے ایک نے ایک اور کو بھی جنم دیا) لیکن جینے کا ڈھنگ نہ آیا۔ عداوت جو تھی تقسیم سے پہلے ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ لیکن ایسی عداوت پڑی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اَب تو اتنے زورں پہ ہے کہ آپس میں عقل کی بات بھی محال ہے۔

ایک اور اردو اخبار میں محمود شام نے خوب لکھا کہ ہندوستان اور پاکستان کو ناز اس بات پہ ہے کہ پانچ ہزار سالہ تہذیب کے رکھوالے ہیں اور دیکھ رہے ہیں ایک ایسے ملک کی طرف یعنی امریکا جو کہ اِن کے مقابلے میں تاریخی اعتبار سے تقریباً نومولود ہے۔ کچھ تصحیح کی ضرورت ہے کیونکہ جہاں ہندوستان والے پانچ ہزار سالہ تہذیب پہ ناز کرتے ہیں ہمارا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ ہم تاریخ کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری تاریخ بھی بہت لمبی ہے۔ لیکن کیسی تہذیب کی پیداوار ہیں کہ دیکھ ایک اور طاقت کی طرف رہے ہیں۔ امریکہ کے پڑھے لکھے حلقے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہاں تو اُن کے مواخذے کی بات ہو رہی ہے۔ اور ہم ہیں یعنی ہمارے لیڈران، ہندوستان کے نریندر مودی اور پاکستان کے عمران خان، جو صدر ٹرمپ کی انگلی پکڑنے کی جستجو میں نہال ہو رہے ہیں۔ کیا ہماری پرانی تہذیب اور کیا ہمارے احوال۔

ہمارے لیڈروں سے کوئی پوچھے کہ تاریخ کے اوراق میں کوئی ایک بھی ایسی نظیر ملتی ہے کہ مسئلہ اُلجھا ہوا ہو اور کسی تیسرے فریق نے اس کا حل ڈھونڈا ہو؟ باہمی چپقلشیں اور لڑائیاں خود ہی حل کرنی پڑتی ہیں طاقت کے بل بوتے پہ یا دانائی کے سہارے۔ آپس میں ہندوستان اور پاکستان بات کر نہیں سکتے اور تکیہ ہے کسی تیسرے فریق پہ۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ مقام رونے کا ہے یا ہنسنے کا۔

یہ دشمنی کہاں سے آئی، کیسے پیدا ہوئی؟ کشمیر پہ تنازعہ تو ہو گیا لیکن اس تنازعے کے باوجود شروع کے سالوں میں اتنی شدت اس میں نہ تھی۔ 1947-48ء میں کشمیر پہ جنگ بھی لڑی گئی لیکن پھر بھی عداوت اتنی گہر ی نہ تھی۔ اس کے باوجود کہ پنجاب کی تقسیم کے سبب خون کی ندیاں کیا دریا بہے تھے۔ ایک نہ ایک سطح پہ تعلقات چل رہے تھے۔ آنا جانا اتنا دشوار نہ تھا۔ بارڈر اتنے سخت نہ تھے۔ کچھ تجارت بھی چل رہی تھی۔ کام خراب ہوا تو 1965ء کی جنگ کی وجہ سے۔ اُس جنگ کی شروعات لاہور یا سیالکوٹ کے محاذوں سے نہ ہوئی تھی۔ گڑ بڑ کشمیر سے شروع ہوئی جب ہماری کوشش تھی کہ یہاں سے بھیجے گئے کمانڈو یا گوریلے مقبوضہ کشمیر میں بغاوت بھڑکانے میں کامیاب ہوں۔

ایسا نہ ہوا۔ بہت سے بھیجے گئے کمانڈو مارے گئے لیکن کسی قسم کی بغاوت نہ چھڑی۔ تب ہم نے چھمب جوڑیاں کے محاذ پہ فوجی پیش قدمی کا آغاز کیا۔ شروع کے دنوں میں پاکستان کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اور یوں لگتا تھا کہ پاکستانی دستے اخنور کے مقام پہ چند دنوں میں پہنچ جائیں گے۔ لیکن جب کامیابی بالکل قریب تھی ایک حیران کن فیصلہ ہوا۔ پیش قدمی کرنے والے دستوں کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک تھے۔ عین آپریشن کے بیچ اُن کو تبدیل کیا گیا اور اُن کی جگہ میجر جنرل یحییٰ خان کو لگایا گیا۔ بیچ دریا میں گھوڑے کون تبدیل کرتا ہے لیکن ہم نے ایسا کیا اور ایک فیصلہ کن مرحلہ تعطل کا شکار ہو گیا۔ پاکستانی پیش قدمی رُکی تو ہندوستانی فوج کو سنبھلنے کا موقع ملا۔ اُنہوں نے اپنی دفاعی پوزیشنیں مضبوط کیں اور ہمارا اچھا بھلا حملہ وہیں جا کے رُک گیا۔

معاملات یہاں تک ہی رہتے تو پھر بھی غنیمت تھی۔ لیکن ہندوستان نے لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پہ حملہ کر دیا اور یوں وہ جنگ چھڑی جس کی یاد ہر سال ہم 6 ستمبر کو مناتے ہیں۔ ہماری کہانی تو یہ ہے کہ رات کے اندھیرے میں مکار دشمن نے حملہ کیا۔ حملے سے پہلے کے واقعات کو ہم یاد نہیں کرتے۔ بہرحال اُس جنگ کے نتیجے میں لال قلعہ کیا فتح ہونا تھا یا کشمیر کی آزادی کہاں نزدیک آنی تھی، دونوں ممالک کی عداوت گہری ہو گئی۔ اُن کے درمیان دیواریں تو تھیں لیکن جنگ کے نتیجے میں وہ مضبوط اور اُونچی ہو گئیں۔ جو تعلقات تھے وہ برباد ہو کے رہ گئے۔ اُس جنگ کا ایک اور نتیجہ بھی برآمد ہوا۔

ہمارے مشرقی پاکستان کے دانشور بھائیوں نے دیکھا کہ جب ہندوستان اور پاکستان کی فوجیں برسرِ پیکار تھیں تو مشرقی پاکستان بالکل نہتا رہ گیا تھا۔ جنگ کی تمام کارروائیوں اور منصوبہ بندیوں میں مشرقی پاکستان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اِس صورتحال کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں اس سوچ کو تقویت ملی کہ اگر پاکستان کی کسی منصوبہ سازی میں اُس کی کوئی اہمیت نہیں تو یہ بہتر نہیں کہ مشرقی پاکستان اپنا الگ راستہ تلاش کرے؟ ایسے خیالات مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی سوچ کی بنیاد بنے۔ ہماری تو تاریخ بینی بڑی سیدھی اور سادہ سی ہے۔ ہر رونما ہونے والے حادثے کو ہم ہندو سازش قرار دیتے ہیں۔ المیہ مشرقی پاکستان کو بھی اس زمرے میں ڈالتے ہیں کہ ہندو سازش تھی جس کی وجہ سے علیحدگی کی شورش بھڑکی۔ باقی عوامل کیا تھے اُن پہ ہماری نظر کم ہی جاتی ہے۔

جو ہوا سو ہوا۔ کسی صدر ٹرمپ نے ہماری مدد کو نہیں آنا۔ کسی صدر ٹرمپ نے ہماری ثالثی میں نہیں پڑنا۔ ہندوستان اور پاکستان آپس میں بات کریں گے تو اُن کی اپنی سوچ اور دانائی کو ہی کارفرما ہونا پڑے گا۔ انگریز نے ہندوستان کی تقسیم کر ڈالی کیونکہ ہندوستان پہ راج اُن کا تھا۔ اب ہمارے اوپر کوئی وائسرائے نہیں بیٹھا‘ جس نے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس بلانی ہے‘ جس میں ہم نے شریک ہونا ہے۔ اپنی قسمت اور تقدیر کے وائسرائے اب ہم خود ہیں۔ گالیاں دینے سے کام چلتا تو پھر کیا فکر تھی۔ ہم کوستے رہتے اور اِس سے آگے نہ جاتے۔ لیکن کچھ معاملہ کرنا پڑے گا۔ دنیا میں بہت سی اٹل حقیقتیں ہیں لیکن جغرافیے سے بڑی حقیقت اور کوئی نہیں۔ ہم نہ اپنا ملک تبدیل کر سکتے ہیں‘ نہ اپنے ہمسایے تبدیل کر سکتے ہیں۔ کیا ہم عداوت اور دشمنی کی آگ میں جھلستے رہیں گے؟

ہاں، کشمیر مسئلہ ہے، کشمیریوں کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔ لیکن جہاں ہم ہندوستان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہاں ہم پہ یہ بھی لازم ہے کہ ہم سوچیں کہ کشمیر کا ممکنہ حل کیا ہے۔ تنازعات دنیا میں بہت ہیں لیکن عقل کا تقاضا یہی سمجھا جاتا ہے کہ جن کے ہاتھوں میں قوموں کی تقدیر ہے وہ سوچیں کہ ممکنات کی دنیا کون سی ہے۔ کیا جنگ کوئی آپشن ہے؟ تب آپشن ہوتی اگر ہماری طاقت جنگ کے تقاضوں پہ پوری اُترتی۔ کشمیر پہ ایک سے زیادہ جنگیں ہم نے لڑی ہیں۔ جو کچھ ہم حاصل کرنا چاہتے تھے وہ نہ کر سکے۔ اُلٹا کشمیر کا حل ہم سے دور ہوتا گیا۔

دوسرا یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ ہندوستان سے مل کے اِس مسئلے کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔ یہ تو کوئی حل نہ ہوا کہ ہر سال اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک زوردار تقریر داغ دی اور اپنے آپ کو یہ تسلی دی کہ ہم نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ کشمیری وہاں مر رہے ہیں‘ ہندوستانی جبر اور مظالم وہ سہہ رہے ہیں۔ تقریریں اور قراردادیں اُن کی کیا مدد کر سکتی ہیں؟ اِس نام نہاد عالمی ضمیر نے اُن کے لئے کیا بھلائی کرنی ہے؟ نریندر مودی کو ہم نے ہٹلر کہہ دیا۔ ہم نے خوب کیا۔ لیکن کیا اس سے کشمیریوں کی تکالیف اور زخموں کا کچھ مداوا ہوتا ہے؟

کہنے کو یہ ٹھیک ہے کہ یہ ایک دیرپا جدوجہد ہے لیکن تکلیف میں کشمیری بیٹھے ہیں۔ ہم پہ تو ہندوستانی مظالم نہیں ڈھائے جا رہے۔ ہمارے محض غصے سے کشمیریوں کا کیا فائدہ ہو گا۔ ضرورت لہٰذا اس امر کی ہے کہ ہم سوچیں کہ اِس مسئلے کا ممکنہ حل کیا ہے۔ غصے کا اظہار کوئی دیرپا پالیسی نہیں ہو سکتی۔ کشمیریوں کا کچھ تب ہی بنے گا جب ہندوستان اور پاکستان مل بیٹھ کر کچھ بات کر سکیں گے۔ فی الحال تو ہم غصے کی حالت میں ہیں۔ سوچ کا مرحلہ بھی کبھی آئے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے