وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی!

یار مجھے یاد پڑتا ہے تم کسی زمانے میں خاصے خوددار شخص ہوا کرتے تھے، ہاں تھوڑا تھوڑا مجھے بھی یاد ہے لیکن اب تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ ’’ہونا کیا ہے؟ عقل آ گئی ہے تم نے محمود سرحدی کا وہ شعر نہیں سنا،

جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں

ہم خودی کو بلند کرتے رہے‘‘

تو گویا تم ان دنوں پھر رفعت کے چکر میں ہو؟ ’’یہ رفعت وہ نہیں، یہ بلندی کے معنوں میں ہے، وہ رفعت تو میرے زمانہ جاہلیت کی یادگار ہے۔ جب میں عشق کے چکروں میں پڑا ہوتا تھا۔ یار میں بھی کتنا بیوقوف تھا، ان کاموں میں وقت ضائع کرتا تھا جن میں دھیلے کا فائدہ نہیں تھا‘‘، ’’اب اگر کہیں عشق کرو تو ایسی جگہ کرنا جہاں چار پیسے بھی بچ سکتے ہوں‘‘۔

یہ تم نے اپنی طرف سے طنز کیا ہوگا؟ ’’میری کیا مجال ہے کہ میں تم پر طنز کروں، میں نے تو تمہارے خیالات سے فقط نتیجہ اخذ کیا ہے‘‘۔ تم نے صحیح نتیجہ اخذ کیا ہے، یہ شاعری، یہ ادب، یہ مصوری، یہ فنونِ لطیفہ سب واہیات چیزیں ہیں اب تم خود ہی بتائو جن دنوں میں ان لغویات میں الجھا ہوا تھا سوائے دن رات جاگنے کے مجھے ان سے کیا حاصل ہوتا تھا؟ لوگ عزت کرتے تھے، اب لوگ میری عزت نہیں کرتے تو اس سے مجھے کیا فرق پڑا؟ اس کا جواب تو میرے پاس نہیں ہے، تمہارے پاس میری کسی بات کا جواب نہیں ہے۔ اب میں عالی شان کوٹھی میں رہتا ہوں، قیمتی کار میرے نیچے ہے، بینک بیلنس ہے، جدھر سے گزرتا ہوں لوگ سلام کرتے ہیں۔ میں نے عزت کی بات کی تھی۔ پھر وہی عزت عزت، یہ تم جیسے احمقوں کا مسئلہ ہے چلو تم مجھے ایک بات بتائو۔

پوچھو؟ ایک عزت دار شخص جب دفتر جانے کے لئے ویگن میں بکری بن کر سفر کرتا ہے اس کی کیا عزت رہ جاتی ہے؟ جب وہ تھانے جاتا ہے اور اسے کرسی ملنے کے بجائے تھانیدار کے پائوں میں بیٹھنا پڑتا ہے تو کیا وہ پھر بھی معزز رہتا ہے؟ جب اس کا بچہ بیمار ہو تو کیا وہ عزت سے دوا خرید سکتا ہے؟ کیا بیس ہزار روپے ماہوار میں عزت ڈال کر گھر کا خرچ چلایا جا سکتا ہے؟ کیا عزت عزت لگا رکھی ہے۔ بس کرو، میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں، تمہارا مطلب یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کے حصول کے لئے انسان کو تمام اصول اور اخلاقی قدریں پس پشت ڈال کر وہ کچھ کرنا چاہئے جو اس وقت ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے؟

’’بالکل!‘‘ کیا اس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ خوش ہے؟ ’’یہ خوشی کیا ہوتی ہے؟‘‘خوشی اس چیز کو کہتے ہیں جس سے تم محروم ہو چکے ہو، یہ سب لفظی ڈھکوسلے ہیں اور غریب غربا کو بیوقوف بنانے کے لئے یہ فرسودہ اور بے معنی فلسفے بھی میرے جیسے لوگوں نے گھڑے ہوئے ہیں کہ ایک اصلی خوشی کے حصول کے لئے میں رفعت کے والدین کی منتیں کرتا رہا کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دو مگر ان کا جواب تھا کہ تمہارے پاس تو اپنا گھر تک نہیں ہے۔ اب رفعت میری زندگی میں نہیں ہے لیکن اس سے مجھے کیا فرق پڑا؟

میں بہت خوش ہوں‘‘۔ تم خوش نہیں ہو اور نہ وہ طبقہ خوش ہے جس سے تم نے اپنا ناتا جوڑ لیا ہے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کسی لمبے چوڑے فلسفے کی ضرورت نہیں، جب پورا معاشرہ مال و دولت اور سہولتوں کے حصول کیلئے مار دھاڑ میں مشغول ہو جاتا ہے، اخلاقی اور روحانی قدروں کو پامال کرنے لگتا ہے، زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کیلئے ایک دوسرے کو پائوں تلے روندتا چلا جاتا ہے تو اس کا خمیازہ تو سب کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک معاشرے کے افراد تلواریں سونت کر ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں اور اس کے جسم اور روحیں زخمی نہ ہوں، تم نے ظفر اقبال کا وہ شعر نہیں سنا!

یہ شہر وہ ہے جس میں کوئی گھر بھی خوش نہیں

دادِ ستم نہ دے کہ ستم گر بھی خوش نہیں

سنا ہوا ہے اور اس شعر پر خود ستمگروں کو داد دیتے بھی دیکھا ہے لیکن تم کہنا کیا چاہتے ہو؟

کچھ بھی نہیں، سوائے اس کے کہ ایک غیر منصفانہ نظام میں سچی خوشی نہ غریب کو حاصل ہوتی ہے اور نہ امیر کو، ایک غریب آدمی ہزار سختیاں سہنے کے باوجود گناہ آلود زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنے ضمیر کا اطمینان اور اس حوالے سے سچی خوشی کے چند لمحات پھر بھی حاصل کر سکتا ہے لیکن امیر آدمی کے لئے یہ بھی ممکن نہیں کہ اس امیر آدمی کی دولت پر مختلف محکموں کے اہلکاروں کی نظریں ہیں چنانچہ اسے اپنی دولت کی حفاظت اور اس کی افزائش کے لئے ایک ایسے حمام میں داخل ہونا پڑتا ہے جس میں کپڑے باہر اتارنا پڑتے ہیں۔ ایسے غیر انسانی ماحول میں کوئی پیشہ ور قاتل ہی خوش رہ سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ تم پیشہ ور قاتل نہیں ہو۔

میں قاتل کہاں ہوں، میں تو خود مقتول ہوں مجھے رفعت کے والدین نے …تم تو رونے لگ گئے ہو، میں نہیں جانتا یہ آنسو اس مشروب کا نتیجہ ہیں جو تم اب دن کو بھی پینے لگے ہو یا تمہیں ان کامیابیوں پر رونا آ رہا ہے جو تم نے لاکھوں زندگیوں کو ناکام بنا کر حاصل کی ہیں۔مجھے رفعت یاد آ رہی ہے، رفعت تم سے اور تم رفعت سے بہت دور نکل چکے ہو، اس کے باوجود میرے دوست، یہ آنسو سنبھال کر رکھنا، یہ تمہاری زندگی کی بہترین متاع ہیں، جس دن تم ان آنسوئوں سے محروم ہو گئے اس دن تم بالکل کنگلے ہو جائو گے اور ہو سکے تو اپنی زندگی کے اس رخ کو بھی یاد کرو جب تم اپنے اندر کی دنیا کو روشن کرنے کیلئے ایسے کاموں میں دلچسپی لیتے تھے جو دوسروں کی دنیا بھی روشن کر دیتے ہیں جن چراغوں کو تم حقیر سمجھ کر بجھا چکے ہو، تمہاری زندگی میں اُنہی چراغوں سے روشنی ہو گی!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے