برق گرتی ہے تو بیچارے سیاستدانوں پر!

یہ سیاستدان میری سمجھ سے بالا ہیں۔ اللہ جانے اُنہیں کس نے کہا ہے کہ وہ باعزت اور باوقار شعبے چھوڑ کر سیاست کے شعبے میں آئیں۔ ایک تو ہر وقت الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا اُن کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوتا ہے مگر اُس سے زیادہ خفیہ والوں کی اُن پر نظر ہوتی ہے۔ اُن کے دفتر میں خفیہ آلات نصب ہوتے ہیں، اُن کے بیڈرومز اور باتھ رومز میں بھی ریکارڈنگ بھی کی جاتی ہے۔ اُن کے ٹیلی فون ٹیپ ہوتے ہیں پھر اُن کی جھوٹی سچی کہانیاں میڈیا کو فراہم کی جاتی ہیں تاکہ سند رہیں اور بوقت ِ ضرورت کام آئیں۔ ’’بوقتِ ضرورت‘‘ کا مفہوم تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے یعنی جب ایک ’’داغ داغ اجالے اور شب گزیدہ سحر‘‘ کو اچانک سرکاری ٹی وی پر قومی ترانے چلنے لگتے ہیں اور پھر ایک چہرہ ٹی وی پر نمودار ہوتا ہے جس پر جلی حروف میں ’’عقلِ کل‘‘ لکھا ہوتا ہے، وہ سیاستدانوں کی وہ کرتوتیں بیان کرتا ہے جن کے سبب اسے مجبوراً اقتدار پر قبضہ کرنا پڑا ہے اور پھر جب وہ اقتدار سے رخصت ہوتا ہے تو ملک ٹوٹ چکا ہوتا ہے یا دہشت گردی، فرقہ پرستی اور شدید انتشار کے گرداب میں پھنسا دکھائی دیتا ہے۔

یہ سیاستدان عجیب لوگ ہیں، اُن کی مسلسل کردار کشی ہوتی ہے، عوام اُن پر عائد کئے گئے ہر الزام پر یقین کرتے ہیں۔ اُن کے عیوب پر کتابیں شائع ہوتی ہیں جو ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ اُن پر عائد کیا گیا الزام ابھی عدالت تک ہی نہیں پہنچتا اور ٹی وی چینلز پر ان کی تضحیک شروع ہو جاتی ہے۔ ٹی وی کے تمام کامیڈی شوز اُن کی بھد اُڑانے کے لئے ہیں، اُنہیں جی بھر کر ذلیل کیا جاتا ہے مگر یہ عجیب لوگ ہیں کبھی اس کا برا نہیں مانتے اور اگر برا مانتے بھی ہیں تو اظہار نہیں کرتے۔ صرف یہی نہیں، پھانسی بھی چڑھتے ہیں، جلاوطن ہوتے ہیں، حیلوں بہانوں سے نااہل قرار پاتے ہیں لیکن اُس کے باوجود یہ ایک دوسرے کے انجام سے ’’عبرت‘‘ نہیں پکڑتے اور سیاست کے رسے پر کرتب دکھانے میں لگے رہتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ کرپٹ ہیں، ہوں گے لیکن کیا قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کے سب کے سب ارکان کرپٹ ہیں اور یوں گردن زدنی ہیں؟ ظاہر ہے ایسا نہیں بلکہ ان میں بیسیوں ایسے سیاستدان موجود ہیں جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں لیکن ہم سب کو بحیثیت مجموعی ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ جو سیاستدان کرپٹ ہیں اور جن کی کرپشن پر عدالت مہر تصدیق ثبت کر چکی ہے اُنہیں ضرور آڑے ہاتھوں لیں لیکن سیاست کو بطور ادارہ بدنام نہ کریں۔ یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے پاکستان بنایا تھا، یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے پاکستان کے قیام کے ابتدائی دنوں میں انتہائی نامساعد حالات میں اُس نوزائیدہ مملکت کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ اُس کی حدوں میں توسیع کی۔

یہ سیاستدان تھے جنہوں نے ملک کو ایک متفقہ آئین دیا۔ یہ سیاستدان تھے جنہوں نے آمروں کے مقابلے میں پاکستان کی خود مختاری کی نسبتاً زیادہ حفاظت کی۔ یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے آمروں کے ہاتھوں ملک کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد اسے ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے تمام تر عالمی دبائو کے باوجود ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنایا۔ یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے ملک کو معاشی ترقی کی وہ راہ دکھائی جس کی پیروی انڈیا اور کوریا نے بھی کی لیکن ہم ان سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے چلے جاتے ہیں۔

میں آپ سے متفق ہوں کہ بہت سے سیاستدان کرپٹ بھی ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ بدنیت اور نااہل بھی چنانچہ انہوں نے مل جل کر ملک کو تباہی کے رستے پر گامزن کر دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تباہی کی بنیادیں بھی آمروں کے دورِ ستم میں رکھ دی گئی تھیں اس وقت ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کے ’’موجد‘‘ یہی حضرات ہیں تاہم ان مسائل کو مزید گمبھیر بنانے میں کئی حکومتوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا! سیاستدان ہمارے ہاں گالی بن چکے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس میں خود سیاستدانوں نے بھی اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ایک جماعت ایک دوسری سیاسی جماعت کے رہنمائوں کو ڈاکو، لٹیرا اور اس نوع کے دوسرے ’’خطابات‘‘ سے مسلسل نواز رہی تھی جس کے نتیجے میں ادھر سے بھی جواب آں غزل موصول ہوا اور یوں ممکن ہے بہت سوں نے ان دونوں جماعتوں کے الزامات کو صحیح مان لیا ہو۔

ایک بات مجھے اور بھی سمجھ نہیں آتی اور وہ یہ کہ کیا پورے پاکستان میں صرف سیاستدان ہیں جنہیں گالی دینے کیلئے ہمارے پاس پورا جواز موجود ہے یا کچھ دوسرے طبقات بھی اس ’’اعزاز‘‘ کے مستحق ہیں؟ آپ ان تاجروں کے بارے میں کیا کہیں گے جو اربوں کھربوں روپوں کے ہیر پھیر کے ذریعے ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھانے کے ذمہ دار ہیں، انڈر انوائسنگ ٹیکس چوری اور سیلز ٹیکس کے چکر چلانے والے قرضے معاف کرانے والے یہ سب لوگ کون ہیں؟اسمگلروں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کرکے کروڑوں پاکستانیوں کو مختلف امراض میں مبتلا کرنے والے آپ کی نظروں میں کیسے لوگ ہیں۔ جعلی ادویات بنانے والے ہماری نفرت کے کتنے مستحق ہیں۔

مسلمانوں کو اسلام کے نام پر قتل کرنے والے ’’مجاہدین‘‘ اور ان کے سرپرستوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔ میڈیا کی کالی بھیڑیں کس زمرے میں شمار ہوتی ہیں؟ کیا کبھی ان اور ان جیسے دوسرے متعدد طبقات کے حوالے سے نفرت کی مہم چلائی گئی ہے، کیا کبھی اُن میں سے کوئی پھانسی چڑھا ہے یا کسی کو نفرت کی صلیب پر لٹکایا گیا ہے۔ اِن سب کو تو چھوڑیں میں خود اور سیاستدانوں کو ہمہ وقت گالیاں دینے والے میرے جیسے بہت سے دوسرے دوست اپنے گریبانوں میں منہ ڈالیں اور پھر اللہ کو حاضر ناظر جان کر خود سے پوچھیں کہ کیا ہمارے دامن بالکل صاف ہیں؟ کتنا اچھا ہو اگر کبھی ہم لوگ اپنے بارے میں بھی سوچیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے