کال کوٹھڑی میں قید پاکستانی اسکالر جسے دنیا نے بھُلا دیا.

فُل برائیٹ اسکالر جنید حفیظ چھہ سال سے پاکستان کی ایک جیل میں قیدِ تنہائی کاٹ رہے ہیں۔ ان پر توہین مذہب کا الزام ہے جس سے وہ اور ان کے گھر والے مسلسل انکار کرتے آئے ہیں۔

جنید حفیظ کا تعلق پنجاب کے شہر راجن پور سے ہے۔ وہ دو ہزار دس میں امریکا کی جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑے شوق سے واپس پاکستان آئے۔

ملتان کی بہاالدین ذکریا یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے لیکچرار کی اسامی آئی تو انہوں نے بھی درخواست جمع کرادی۔ اُس وقت انہیں یونیورسٹی کی اندرونی سیاست کا اندازہ نہ تھا۔ جنید کے والد حفیظ النصیرکے مطابق اسلامی جمیعت طلبا سے وابستہ لڑکوں نے انہیں اس اسامی کے لیے درخواست دینے سے منع کیا تھا کیونکہ بقول ان کے، وہ اپنے کسی بندے کو وہاں لگوانا چاہتے تھے۔

حفیظ النصیرکے مطابق، ”جنید کے باز نہ آنے پر سن دوہزار تیرہ میں انہوں نے میرے بیٹے کے خلاف مذموم مہم چلائی، اُس کے خلاف پیمفلٹ بانٹے، اُس پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا، اُسے احمدی اور امریکی ایجنٹ قرار دیا۔‘‘

مذہبی جنون کے دباؤ کے سامنے حکومت بے بس نظر آئی اور پولیس نے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فُل برائیٹ اسکالر کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ اگر ان پر الزام ثابت ہوتا ہے تو انہیں سزائے موت ہو سکتی ہے۔

توہین مذہب کے قوانین پاکستان کو برطانوی حکمرانوں سے ورثے میں ملے۔ لیکن جنرل ضیاء کے دور میں ان میں نئی روح پھونک دی گئی۔ سزائیں سخت کی گئیں اور "اسلامائیزیشن” کے نعرے کے تحت قانون کے غلط اور بے دریغ استعمال کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

پچھلے تیس برسوں میں اس متنازعہ قانون کے تحت پاکستان میں ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ مقدمات درج ہوئے ہیں، جبکہ درجنوں لوگوں کو محض الزام کی بنیاد پر ہی قتل کردیا گیا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، پاکستان میں کسی پر توہین مذہب اور توہین رسالت کا الزام ہی ایک طرح کا "ڈیتھ وارنٹ” ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد ملزمان کی جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔

اسی لیے جب جنید حفیظ پر بُرا وقت آیا تو ان کے جاننے والوں میں کافی لوگوں نے خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اکثر وکلاء نے جنید حفیظ کا مقدمہ لینے سے گریز کیا۔

ایسے میں ملتان میں انسانی حقوق کمیشن کے سرکردہ رہنما راشد رحمٰن جنید کی مدد کو آئے۔ انہیں جیل کے اندر پہلی پیشی پر سرکاری وکلاء کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں کہ وہ اگلی پیشی پر نظر نہیں آئیں گے۔ اور ہوا بھی یہی۔ ایک روز دو مسلح افراد ان کے دفتر میں داخل ہوئے اور فائرنگ کرکے انہیں موت کی نیند سُلا دیا۔

پاکستان میں سپریم کورٹ نے حال ہی میں وجیہ الحسن نامی شخص کو توہین مذہب کے الزام میں سترہ سال قید کے بعد رہا کیا۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو دس سال قید تنہائی میں گزارنے کے بعد معصوم قرار دے کر رہا کیا۔ جنید حفیظ کے والد کو امید ہے کہ ایک دن ان کا بیٹا بھی رہا ہو گا۔

اس ماہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بار پھر جنید حفیظ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ جولائی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی ایک بیان میں پاکستان پر جنید حفیظ کی رہائی کے لیے زور ڈالا۔

لیکن پاکستان میں حکومت ہو یا اعلیٰ عدلیہ کسی کو اس کیس کی سُست روی کی بظاہر پرواہ نہیں۔ سرکاری وکلاء کیس کی پیروی کرنے میں مختلف بہانوں سے تاریخ پہ تاریخ لیتے آئے ہیں۔ پچھلے چھہ برس میں اس کیس کے جج سات بار تبدیل ہوچکے ہیں۔

امریکا کی جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی میں پاکستان کے جنید حفیظ کا نام شاید آج بھی دنیا کے مایہ ناز اسکالروں کی فہرست میں آویزاں ہو۔ لیکن سینٹرل جیل ملتان کی کال کوٹھڑی میں تنہا بیٹھا وہ لیکچرار دن گن رہا ہے کہ کب یہ تاریک رات ختم ہوگی اور اسے بھی انصاف ملے گا۔

[pullquote]بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو [/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے