ڈاکیےاب کیا کرتےہیں ؟

محبوب یا پیاروں کے خطوط کی وصولی کےلئے جس ڈاکیے کاشدت سے انتظارہوتاتھا،بدلتے ہوئےزمانےاور نئی ٹیکنالوجی کی آمدکے باعث ڈاکیے کی جگہ موبائل کے پیغامات اورای میل نے لے لی ہے،آج پوری دنیامیں ڈاک کا عالمی دن منایاجارہاہے جنرل پوسٹ آفس پشاورصدر کے حکام کے مطابق تقریباً20سال قبل روزانہ ایک لاکھ سے زائد خطوط لوگوں کو بھیجتے تھے یاوصول کئے جاتے تھے تاہم آج ان خطوط کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

کسی بھی ڈاکخانے کا سربراہ چیف پوسٹ ماسٹر کہلاتا ھے اور باقی لوگ اسکی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔ ڈاکخانے کا ڈاکیا ڈسٹرک میل آفس سے ڈاگ اکھٹی کر کے پھر ضلع کے باقی چھوٹے ڈاکخانوں میں پہنچاتا ھے۔

55سالہ رحمت شاہ جوجی پی اوپشاورمیں ملازم ہے ،کہتاہے کہ لوگ ڈاکیے کو خوشیاب باٹنے والے سے تشبیہ دیتے تھے ۔ خطوط عمومی طور پر خوشی کے لمحات کاتبادلہ ہوتاتھا، اس کے علاوہ مہینے کے پہلے ہفتے لوگ شدت کے ساتھ اپنوں کی جانب سے بھیجے گئے منی آرڈرزکاانتظارکرتے تھے ،آج بھی بہت سے لوگ خصوصاًفورسزکے لوگ ہزاروں کی تعداد میں اپنوں کو منی آرڈربھجواتے ہیں لیکن خطوط کا تبادلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ای میل اورموبائل کی آمد سے قبل عیدکے موقع پر لاکھوں کی تعداد میں عیدکارڈز دوست احباب اورپیاروں کوبھیجتے جاتے تھے جسکی جگہ موبائل مسیج اورای میل نے لے لی ہے ،

جی پی اوپشاورکے محمدمنصوربتاتے ہیں کہ1973 سے قبل گورنرکی تعطیل کے مواقع پرپوسٹ ماسٹرجنرل کوقائمقام گورنرکاعہدہ تفویض کرنے کارواج تھا ۔ لوگوں کی اپنے پیاروں سے ملاقات کم اور ڈاکیے سے زیادہ ہوتی تھی .

ڈاکیے کی کسی بھی محلے یامعاشرے میں اتنی ہی عزت ہوتی تھی کہ گاﺅں میں معمولی تقریب کابھی انعقادہوتاتھاتو اس میں ڈاکیہ چندگنے چنے مہمانوں میں سے ایک ہوتاتھا۔

محمدمنصوربتاتے ہیں کہ پاک چین بارڈرخنجراب کے قریب دنیامیں سب سے اونچے اے ٹی ایم کاذکرتوکیاجاتاہے لیکن کسی نے شاید دھیان نہ دیاہو ورنہ اس اے ٹی ایم سے تھوڑاآگے دنیاکاسب سے اونچا لیٹربکس بھی موجود ہے ۔

ڈاکیے کے متعلق عمومی طور پر تصورکیاجاتاتھا کہ یہ روزانہ آٹھ سے دس کلومیٹرپیدل یاسائیکل کے ذریعے اپنے مخصوص علاقے کا چکرلگاتاہے گاﺅں یا شہر کے کسی گلی یاگھرکے متعلق پوچھناہوتاتھاتو ڈاکیہ سب سے عام ذریعہ ہوتاتھا ۔

سینئرپوسٹ ماسٹر میاں عقیل الدین بتاتے ہیں کہ ماضی میں دوست احباب اورپیاروں کو جوخطوط بھیجے جاتے تھے ان میں90فیصدسے زائد کمی آئی ہے .

آج "مس مومندہ کا تصویری سفرنامہ” میں ھم آپکو مردان کے سب سے پرانے اور بڑے ڈاکخانے میں لیے چلتے ہیں۔

20یا25سال قبل گنتی کے چند پارسل بھیجے جاتے تھے آج ان پارسل کی تعداد سینکڑوں بلکہ بعض اوقات ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے اورپاکستان پوسٹ آفس اس میں اہم کرداراداکررہاہے ۔انہوں نے بتایاکہ پارسل میں تقریباًدس گنااضافہ ہوا ہے

جدیدٹیکنالوجی کاادراک کرتے ہوئے پوسٹ آفس میں اب بینک اکاﺅنٹس،سیونگ سیکشن،انشورنس،ای منی آرڈر،یوٹیلٹی بلزاوردیگرکئی سیکشن کھولے گئے ہیں جولوگوں کو سہولیات بہم پہنچاتے ہیں ،میاں عقیل الدین کے مطابق جب تک انسانی ذرائع کااستعمال ہوگا پوری دنیامیں ڈاک کا نظام قائم رہےگا ۔

پاکستان میں ڈاک کانظام آزادی سے کافی قبل برطانوی راج نے قائم کیاتھا جس کو بعدازاں ترقی دی گئی پاکستان ڈاک خصوصی مواقعوں پر ڈاک ٹکٹ بھی چھاپتی ہے جن کے شوقین شدت سے ان ٹکٹوں کوخریدکر اپنے البم کی زینت بناتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے