کشمیر:اب پاکستان کے پاس بہترین آپشن کون سا ہے؟

کشمیر ”شہ رگ پاکستان“کے موقف کے ساتھ پاکستانی حکومتوں نے سیاسی،سفارتی،عسکری اور انتظامی محاذ پر 1947سے آج تک جو اقدامات کیے ……اپنے بیانیے اور موقف کے تناظر میں پاکستان کی جگہ دنیا کا کوئی اور ملک ہوتا تو یہی کچھ کرتا۔

مثلاً اپنے زیر انتظام علاقوں میں کنٹرولڈ انتظامی ڈھانچے کی تشکیل۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر سے حمایت کیلئے عوامی اور عسکری تحریکوں کی بنیاد،امداداور حمایت

لائن آف کنٹرول پر محدود جنگ،سفارتی محاذ پر سرگرمیاں مذاکرات،معاہدے اور حالات کی ضرورت کے تحت ان معاملات میں کبھی تیزی اور کبھی نرمی۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنے قومی اور سرکاری موقف کے مطابق 72سال میں جو کچھ ہو سکتا تھا وہ پاکستانی حکمرانوں نے کیا۔

لیکن 5اگست 2019کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بارے میں بھارت کے آئین میں تبدیلی کے بعد حالات بدل چکے۔

اب پاکستان کے پاس تین آپشن ہیں

1۔پاکستان فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی کے زیر قبضہ جموں کشمیر چھڑائے۔

2۔بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر کے علاقوں کو بھارت کا حصہ تسلیم کرے.

3۔ اپنے زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقوں میں تشکیل کردہ بے اختیار نام نہاد حکومتوں کو متحدہ کشمیر کی نمائندہ اور بااختیار حکومت تسلیم کرنے میں پہل کرے۔

پہلا آپشن طاقت کا استعمال کر کے بھارتی قبضہ چھڑایا جائے ……اگر ایسا ممکن ہے تو بسم اللہ۔لیکن 1947سے 5اگست 2019اور اس کے بعد کی صورتحال بتا رہی ہے کہ ایسا کرنانا ممکن نہ سہی مشکل تر ضرور ہے۔پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے،حکومت پاکستان کی معاشی پوزیشن کے بارے میں ماہ اکتوبر کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ پاکستان پر مجموعی قرضہ 45ٹریلین روپے ہے عالمی حمایت بھی قابل ذکر نہیں۔ہیومن رائٹس کونسل میں پاکستان کو درخواست پیش کرنے کیلئے سولہ ممالک کی حمایت درکار تھی وہ بھی نہ مل سکی،سو پہلا آپشن فی الوقت ممکن دکھائی نہیں دیتا.

اب دیکھتے ہیں دوسرا آپشن کہ بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر پر بھارت کا قبضہ تسلیم کر لیا جائے۔ یہ عمل پاکستانی بیانیے پاکستان کے عوام کی خواہشات اور جذبات سے متصادم ہے اور اگر کہیں ادھر تم ادھر ہم پر اتفاق بھی ہو چکا ہے تو پاکستانی حکمرانوں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ عالمی سیاست میں تبدیلیاں فطرت کے تشکیل کردہ نظام کا حصہ ہیں۔

قوموں کے اتحاد پر مشتمل بلاک بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں۔آج اگر تقسیم کشمیر پر کچھ قوتوں کی طرف سے زبانی حمایت حاصل ہے ہو سکتا ہے کل حالات تبدیل ہو جائیں حمایت کرنے والی طاقتیں دوسری طرف کھڑی ہو جائیں اوربھارت اپنے اٹوٹ انگ کے دعوے کے ساتھ نیا محاذ کھول دے تو پھر کیا ہوگا۔

یہ خیال رہے کہ پاکستان کی طرف بہنے والے تمام دریاؤں کا منبع کشمیر ہے۔ بھارت کے آبی اہداف بھی پاکستان کے سامنے ہیں اور اگر بھارت سندھ طاس معاہدہ توڑ دے تو؟یہ دلیل بھارت ایسا نہیں کر سکتا اب وزن نہیں رکھتی کیونکہ بنگلہ دیش کا قیام اور 5اگست کے اقدامات ہمارے سامنے ہیں۔ یوں ماضی کے ریکارڈ اور بھارت کے عزائم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ آپشن پاکستان کے قومی مفادات سے متصادم ہے.

تیسرا آپشن اپنے زیر انتظام بے اختیار اور نام نہاد حکومتوں کو یکجا کر کے متحدہ کشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کرنے میں پہل۔اس آپشن کے حق میں سینکڑوں دلیلیں ہیں۔اقوام متحدہ کی قراردادیں اور دوطرفہ معاہدے اس لئے اس آپشن کے استعمال میں رکاوٹ نہیں کیونکہ بھارت 5اگست 2019کو ان تمام قراردادوں اور معاہدوں سے دستبردار ہو چکا ہے۔

یوں ایک ایسی ریاست کی تشکیل کیلئے پہل مکمل طور پر پاکستان اورپاکستانی قوم کے مفاد میں ہے۔جس کے پانی کے ذخائر ایک قابل احترام معاہدے کے تحت ان کے مفاد میں ہوں اورسی پیک جیسے بڑے منصوبے کو تحفظ حاصل ہو۔

اب فیصلہ پاکستان کے ارباب اختیار کے پاس ہے کہ ان کے نزدیک ہندوستان کا قبضہ بہتر ہے یا ریاست جموں کشمیر کے لوگوں پر اعتبار.اگرچہ اہل کشمیر پر اعتبار کے حوالے سے 1947سے آج تک کا ریکارڈ اتنا اچھا نہیں۔مثلاً مہاراجہ ہری سنگھ سے سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ جس کے تحت پوری ریاست پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت شامل ہو گئی تھی کو توڑ کر قبائلی حملہ یا جہاد اور 24اکتوبر کو مہاراجہ کی حکومت کے متوازی حکومت کی تشکیل‘اگر گرم کھانا کھانے کی حکمت عملی اختیار نہ کی جاتی آج مسئلہ کشمیر کا وجود تک نہ ہوتا۔

13اگست 1948کی قرارداد جس میں اہل جموں کشمیر کے پاس غیر مشروط حق خود ارادیت تھا کے برعکس 5 جنوری 1949کی قرارداد پر اتفاق جس میں اہل جموں کشمیر کا بھارت سے الحاق پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں نے تسلیم کیا۔بھارت سے سندھ طاس معاہدہ جس میں کشمیر کے تین دریاؤں پر بھارت کی عملداری پر اتفاق کیا گیا۔

آزادکشمیر کے لوگوں کا آج بھی ان دریاؤں پر حق تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔شملہ معاہدہ جس نے کشمیر کو عالمی مسئلہ سے اٹھا کر دو طرفہ مسئلہ بنا دیا۔خیر یہ وقت مل کر آگے بڑھنے کا ہے۔اب جب بھارتی حکومت اپنے زیر قبضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر چکی تو ارباب اختیار کے پاس واحد آپشن یہی ہے کہ اہل جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت کو تسلیم کرنے میں پہل کی جائے۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے، باشندگان کشمیر کی آواز کو قید نہ کیا جائے‘اس دھرتی کے لوگوں کی خواہشات کا احترام کیا جائے‘قومی آزادی کی تحریک میں رکاؤٹیں نہ کھڑی کی جائیں‘راستے نہ روکے جائیں اورجو بیانیہ ناکام ہو چکا اسے اب اپنے زیر انتظام کشمیر میں نہ آزمایا جائے۔

غیر مقبول اور ناپسندیدہ حکمت عملی کے باوجود اس دھرتی کے لوگوں کے دل و اذہان میں مملکت پاکستان سے جو محبت کے جذبات ہیں انہیں کرش کرنے کی سوچ نفرت میں بدل دے گی اور نفرت کسی کے مفاد میں نہیں ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے