’’یہ‘‘ دھرنا اور ’’وہ‘‘ دھرنا

تاریخ اتنا جلدی خود کو دھرائے گی، شاید ہی کسی کو اندازہ ہو۔ سیاسی حرکیات کا ادراک رکھنے والوں کا معاملہ مگر دوسرا ہے۔
بات یہاں سے شروع ہوئی کہ ‘سب ایک پیج پر ہیں‘ اگر سب ایک پیج پر ہیں تو عدم استحکام کا خوف کیسا؟ جب 2014ء کا دھرنا ہوا تو سب ایک پیج پر نہیں تھے۔ تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر تھیں اور تحریک انصاف دوسرے پیج پر، اگرچہ وہ بھی تنہا نہیں تھی۔ طاہرالقادری سے لے کر میڈیا تک، سب کو ان کے ساتھ صف آرا کر دیا گیا تھا۔ یہ نشانیاں تھیں غور کرنے والوں کیلئے کہ فیصلہ ساز قوتیں کس کے ساتھ کھڑی ہیں۔ نواز شریف مگر سیاسی بصیرت سے اپنا پیج بچا لے گئے۔

جب دھرنے والوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو چوہدری نثار علی خان نے طاقت کے استعمال کی اجازت چاہی۔ پارلیمنٹ اور پی ٹی وی جیسی سرکاری عمارتوں کے تحفظ کیلئے ریاست یہ حق رکھتی ہے کہ بلوائیوں کو طاقت سے روکے۔ نواز شریف صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی۔ احتجاج پسند چاہتے تھے کہ چند لاشیں ہاتھ لگیں اور یوں حکومت کے خاتمے کا جواز پیدا ہو۔ نواز شریف نے یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی۔ملک کی باگ ڈور جب سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو وہ انسانی جانوں سے نہیں کھیلتے۔ وہ جانتے ہیں کہ حکومت اور ریاست کے لیے اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی بات ہوئی تو جنرل ٹکا خان نے کہا کہ بیس پچیس ہزار افراد مار دینے سے امن آ سکتا ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔ سیاسی لوگ اس طرح نہیں سوچتے۔ وہ جانتے ہیں کہ بیس پچیس ہزار افراد کی لاشوں پر جو امن قائم ہوتا ہے وہ قبرستان والا امن ہوتا ہے، انسانی بستیوں والا نہیں۔ نواز شریف صاحب کے فیصلے نے ملک کو بڑے حادثے سے بچا لیا۔ فریق ثانی کو ناکامی ہوئی۔ یہ الگ بات کہ اس شکست کو قبول نہیں کیا گیا اور پھر نواز شریف جس پیج پر تھے، ہم نے اس کی دھجیاں سر بازار بکھرتی دیکھیں۔

اس بار ایسا نہیں تھا۔ سب ایک پیج پر تھے، الا مولانا فضل الرحمن۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے بالفعل انتخابی نتائج کو قبول کرتے ہوئے اسی پیج کا رخ کیا۔ حکومت کو تعاون کی پیشکش کی۔ فیصلہ کن قوتیں پہلے ہی اس سیاسی بندوبست کی پشت پر تھیں۔ مولانا فضل الرحمن ایک نا قابلِ ذکر پارلیمانی قوت کے ساتھ سیاسی عمل کا حصہ تھے‘ لیکن کوئی یہ نہیں مان سکتا تھا کہ وہ کبھی اُس سیاسی نظام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں جہاں ‘سب ایک پیج پر ہیں‘۔حکومت کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ خان صاحب پہلے ہی خطاب میں اپوزیشن کو للکار رہے تھے۔ احتجاج پر ابھار رہے تھے۔ کنٹینر پیش کر رہے تھے۔ دھر نے کی دعوت دے رہے تھے اور ایک ماہ کے لیے کھانے کی پیشکش بھی کر رہے تھے۔ بین السطور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ جب اُن کی ‘اساس‘ اتنی مضبوط ہے اور سب ایک پیج پر ہیں تو کون مائی کا لعل دھرنے کی جرات کر سکتا ہے؟
ایک سال نہیںگزرا کہ منظر بدل گیا۔ بظاہر آج بھی سب ایک بیج پر ہیں لیکن ملک ایک بار پھر وہیں کھڑا ہے جہاں2014 ء میں تھا؛ تاہم اس بار معاملہ کئی حوالوں سے مختلف ہے۔ ایک تو یہ کہ اُس وقت حکومت دھرنے والوں سے مصالحت کی خواہاں تھیں۔ دھرنے والوں کو کہیں روکا نہیں گیا اور وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اسلام آباد پہنچ گئے۔ انہیں بلیو ایریا تک آنے کی اجازت دی گئی۔ اس بار حکومت غیر مصالحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ کوئی ایک سیاسی کوشش نہیں ہوئی جس کا مقصد احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات ہو۔

دوسرا یہ کہ اس بار فیصلہ ساز قوتیں بظاہر حکومت کے ساتھ ہیں۔ علما، تاجر، سب طبقات کو بلا بلا کر یہ پیغام دیا گیا ہے۔ تیسرا یہ کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں دھرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ 2014ء میں ایسا نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ تھی۔ چوہدری نثار علی اور اعتزاز احسن میں تلخی کے باوجود، پیپلز پارٹی نے اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں ڈالا۔ چوتھا یہ کہ اس بار میڈیا کو یہ اجازت نہیں کہ وہ چوبیس گھنٹے اس احتجاج کے مناظر براہ راست عوام تک پہنچائے۔ اب تو مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس تک نہیں دکھائی جا رہی۔

اسباب و واقعات میں اختلاف کے باوجود، اس وقت منظر وہی ہے جو 2014ء میں تھا۔ حکومت کو قائم ہوئے ایک سال ہوا ہے اور اس کے خلاف ایک بڑی تحریک کا نقارہ بج گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب نے بتا دیا ہے کہ ان کی سیاسی قوت کے بارے میں لوگوں کے اندازے غلط تھے۔ وہ طاہرالقادری ہیں نہ خادم حسین رضوی۔ وہ کسی سہارے کے بغیر ایک سیاسی قوت ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے بیٹھیں گے اور اپنی مرضی سے اٹھیں گے؛ تاہم وہ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں کریں گے۔ فیصلہ ساز اگر چاہیں گے تو وہ ان سے معاملہ کر سکتے ہیں۔ وہ یہ معاملہ ایک خود مختار سیاسی قوت کے طور پر کریں گے۔
مولانا دراصل یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انہیں طاہرالقادری نہ سمجھا جائے۔ ان کا سیاسی وجود کسی کے رحم و کرم پر نہیں، اپنے قدموں پر کھڑا ہے۔ اگر انہیں سیاسی طور پر نظر انداز کیا جائے گا تو وہ کینیڈا نہیں جائیں گے، یہیں اپنی حیثیت منوائیں گے اور فریق ثانی کو مجبور کریں گے کہ ان کی سیاسی قوت کا اعتراف کرے۔ اس کا اعتراف ہو چکا ہے، اگرچہ بعد از خرابی بسیار۔ ممکن ہے اس بار طاہرالقادری صاحب والا کردار عمران خان صاحب کو ادا کرنا پڑے۔ لگتا یہی ہے کہ کسی ایک قربانی کے ساتھ ہی معاملہ سنورے گا۔

یہ میری یا کسی کی چاہت کا نہیں، سیاسی حرکیات کا مسئلہ ہے۔ سیاسی معاملات جب غیر سیاسی ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں تو سیاسی قوتوں کو اپنا وجود ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایسے مواقع پر عقل غالب رہے تو ملک و قوم حادثات سے محفوظ رہتے ہیں۔ بصورتِ دیگر سقوطِ ڈھاکہ جیسے حادثات جنم لیتے ہیں۔ سرِ دست تو میں عقل کو مغلوب دیکھ رہا ہوں۔ میں دھرنے کی سیاست کا قائل نہیں۔ میرے نزدیک احتجاج کا حق تو سب کو ہے لیکن نظمِ اجتماعی کو مفلوج کرنے کا حق کسی کو نہیں، الا یہ کہ کسی موقع پر اتنے لوگ سڑکوں پر ہوں کہ زندگی کے معاملات خود بخود مفلوج ہو جائیں۔ یہاں سوال مگر دوسرا ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگا دیا جائے اور ان پر سیاسی عمل میں شرکت کو ناممکن بنا دیا جائے تو سیاسی جماعتیں کیا کریں؟ یہی سوال آج کے حالات کو 2014ء سے مختلف بناتا ہے۔

2014ء میں سیاسی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ ملک میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ حکومت ہر مسئلے میں اپوزیشن کو اعتماد میں لے رہی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف وزیر اعظم ہاؤس میں کل جماعتی کانفرنس ہو رہی تھی۔ میڈیا مکمل آزاد تھا۔ انتخابی اصلاحات کا معاملہ اسی فیصد تک حل ہو چکا تھا۔ اس معاملے پر قائم پارلیمانی کمیٹی کی قیادت تحریکِ انصاف کے پاس تھی۔

آج بالکل مختلف منظر ہمارے سامنے ہے۔ اپوزیشن راہنماؤں پر سیاست اور میڈیا کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ ایک سال میں حکومت نے اپوزیشن سے کسی معاملے میں مشاورت نہیں کی۔ اگر اپوزیشن نے ہاتھ بڑھایا بھی تو اسے حقارت سے ٹھکرا دیا گیا۔ کسی مخالف پر وزیر اعظم ہاؤس کا دروازہ نہیں کھلا۔ نواز شریف کو جیل سے گرفتار کیا گیا تاکہ انہیں ایک قیدی کے حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے اور وہ کسی سے رابطہ نہ کر سکیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد سیاسی جماعتوں کے پاس کیا راستہ ہے؟ کیا اپنی بقا کی جنگ لڑنا غیر آئینی ہے؟ کیا آج کے احتجاج کو 2014ء کے احتجاج کے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے؟

سیاسی عمل اگر معمول کے مطابق نہیں ہو گا تو سیاسی جماعتوں سے بھی معمول کے مطابق سرگرمیوں کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر ملک میں سیاسی مقدمات قائم نہ کیے جائیں۔ میڈیا مکمل طور پر آزاد ہو۔ کسی راہنما کی آزادیٔ رائے کو سلب نہ کیا جائے۔ حکومت سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت پر مبنی رویہ رکھتی ہو تو پھر اپوزیشن اور سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ وہ دھرنے یا مارچ کی سیاست نہ کریں۔ اگر یہ سب کچھ میسر نہ ہو تو پھر سیاسی جماعتیں کیا کریں؟ اس سوال کا جواب سیاسی تجزیے کرنے والوں پر واجب ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے