’مجھ سے دوستی تھی، آخری خط میں میرا ہی نمبر لکھا‘

نمبر کم آنے پر خود کشی کرنے والے زاہد کے بھائی شاہد محمود کا کہنا ہے کہ زاہد ایک حساس بچہ تھا، اس کے زیادہ دوست نہیں تھے۔ اکیلے رہنا پسند کرتا تھا۔

زاہد کے بڑے بھائی شاہد محمود نے بتایا کہ زاہد نو اکتوبر کو گھر سے کالج گئے اپنا رزلٹ معلوم کرنے اور واپس نہیں آئے۔

گذشتہ دنوں بھکر کی تحصیل منکیرہ کے ایک نوجوان نے صرف اس وجہ سے اپنی جان لے لی کیونکہ امتحانات میں ان کے نمبر کم آئے تھے۔

زاہد محمود سپیرئر کالج بھکر میں آئی سی ایس کے طالب علم تھے۔ 17 سالہ زاہد بھکر کی تحصیل منکیرہ کے نواحی گاؤں چک 215 ٹی ڈی اے کے رہائشی ہیں اور پانچ بھائیوں میں ان کا چوتھا نمبر تھا جبکہ والد نیم سرکاری افسر ہیں۔

انھوں نے اپنی جان لینے سے قبل ایک خط لکھا تھا جس میں انھوں نے خودکشی کی وجہ کچھ بتائی تھی : ’میرے پیارے ابو اور میری ماں مجھے معاف کر دینا۔ میرا رزلٹ بہت گندا آیا ہے اور جس کی وجہ سے اب کوئی عزت میری نہیں رہے گی مگر میں نے نمبر لینے کی کوشش کی تھی۔ بس مجھے معاف کر دینا۔ اللہ حافظ‘

اس خط کے ساتھ ایک اور نوٹ بھی تھا جس پر ایک فون نمبر لکھا تھا اور اس کے ساتھ تحریر تھا، ’پلیز اس کو پڑھنے والے میرے گھر بتا دو کہ میں یہاں ہوں۔‘

[pullquote]نو اکتوبر کو کیا ہوا تھا؟[/pullquote]

زاہد کے بڑے بھائی شاہد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ زاہد نو اکتوبر کو گھر سے کالج گئے اپنا رزلٹ معلوم کرنے اور واپس نہیں آئے۔

’ہم نے اسی رات پولیس میں زاہد کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کروا دی دی جس کے بعد دس اکتوبر کو ہمیں فون کے ذریعے بتایا گیا کہ زاہد کا کالج بیگ، جوتے اور ایک خط تھل نہر کے کنارے پڑا ہے۔‘

ریسکیو 1122 کی ٹیمز نے زاہد کو تلاش کرنا شروع کیا اور 13 اکتوبر کی دوپہر ان کی لاش فردوس ہیڈ میں پانی کی سطح پر تیرتی ہوئی ملی۔

شاہد محمود کا کہنا ہے کہ ان کی اور ان کے گھر والوں کی سمجھ سے باہر ہے کہ زاہد نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟

[pullquote]’اکیلے رہنا پسند کرتا تھا‘[/pullquote]

شاہد محمود کا کہنا ہے کہ زاہد ایک حساس بچہ تھا، ان کے زیادہ دوست نہیں تھے۔ اکیلے رہنا پسند کرتا تھا۔ گھر میں ’مجھ سے بہت زیادہ دوستی تھی تبھی اپنے آخری خط میں انہوں نے میرا ہی فون نمبر لکھا۔‘

زاہد کے پاس تو موبائل فون بھی نہیں تھا کبھی کسی کو فون کرنا ہوتا تو وہ میرا ہی فون استعمال کرتا تھا۔ شاہد نے یہ بھی بتایا کہ ان کے گھر کا ماحول بالکل سخت نہیں ہے بلکہ ان کے والد ایک کھلے ذہن کے مالک ہیں اور ہمیں کبھی پڑھائی کے حوالے سے سختی کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ’

انہوں نے بتایا کہ والد زاہد کی تدفین کے بعد سے چپ ہیں اور یہی بات سوچ رہے ہیں کہ آخر زاہد نے یہ حرکت کیوں کی؟

زاہد کے بھائی نے یہ بھی بتایا کہ ان کے بھائی کی موت کی خبر کے بعد سے انہیں دوسرے شہروں سے ایک دو فون آچکے ہیں جس میں والدین نے انہیں بتایا کہ ان کے بچے بھی رزلٹ اچھا نہ آنے کے کچھ دن بعد سے گھر سے غائب ہیں۔

بچوں کے نفسیاتی امراض کی ماہر ڈاکٹر مریم حیدر نے بچوں کی خود کشی کے معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ ٹین ایجرز (نوجوان) بہت حساس ہوتے ہیں اور ان سے والدین سمیت معاشرے کی بہت سے امیدیں دانستہ اور غیر دانستہ طور پر جڑی ہوتی ہیں۔ رزلٹ کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کے اچھے ہونے کا پریشر والدین کی جانب سے بھی ہوتا ہے مگر آج کل اس میں دوستوں کا پریشر بھی بہت زیادہ ہے اور وہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے۔

’دوست یا مائیں اپنے سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہیں انہوں نے یا ان کے بچوں نے اتنے اے یا اے پلس لیے یا امتحان میں اتنے اچھے نمر لیے، کسی کی پوزیشن آگئی وغیرہ ایسے میں جن کا نتیجہ اچھا نہیں وہ کیا سٹیٹس لگائیں کہ وہ فیل ہو گئے ہیں۔ اس چیز کا پریشر بچوں اور والدین میں بہت زیادہ بڑھ رہا ہے۔‘

ڈاکٹر مریم کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ اگر ان کا بچہ پڑھائی میں کمزور ہے تو وہ انہیں دوسری چیزیں کروائیں جیسے موسیقی، آرٹس وغیرہ تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ان کی طاقت کیا ہے یا ان میں کس چیز کا ٹیلنٹ ہے۔

’ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہے، ہر بچہ ٹاپر نہیں ہو سکتا کچھ بچے ایورج ہوتے ہیں کچھ ایورج سے بھی نیچے۔‘

انھوں نے کہا کہ بیشتر والدین سکول کے پہلے دن سے بچے کے وجود کی حیثیت کو اس کے امتحان کے نتیجے سے جوڑ دیتے ہیں کہ آپ کا رزلٹ اچھا ہے تو آپ بہت اچھے ہیں آپ کا رزلٹ اچھا نہیں ہے تو آپ برے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، بچوں کے رزلٹ برے ہوں تو انہیں سمجھائیں کہ وہ اور محنت کریں۔

’یہ مقابلے کا دور ہے اس میں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے آگے سے آگے جائیں اور دوسروں سے بہتر کریں اور اس چکر میں ہم بچوں کی جذباتی کیفیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘

ڈاکٹر مریم کہتی ہیں کہ والدین کو بچپن سے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟ ایک ایسا انسان جس کے نمبر اچھے آ رہے ہیں یا ایک ایسا انسان جو پراعتماد ہو اور خوش ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچے محنت نہ کریں لیکن امتحان کے نتیجے کو زندگی اور موت کا سوال نہ بنا لیں۔

ڈاکٹر مریم کہتی ہیں کہ 16، 17 سال کی عمر کے بچوں کے بیشتر والدین انہیں بڑا سمجھنے لگتے ہیں اور ان سے امید کرتے ہیں کہ وہ ایک بڑے انسان کی طرح سوچیں یا ان کا رویہ بڑے لوگوں کی طرح ہونا چاہیے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ٹین ایج میں بچوں کے دماغ کی کیمسٹری بالکل بھی اس چیز کے لیے تیار نہیں ہوتی کہ وہ خود سے صحیح فیصلے کریں یا مسئلہ حل کریں۔

اگر اس عمر کے بچوں کو بائیولوجی اور نیورو کیمسٹری کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ ان کی زندگی کا سب سے زیادہ غیر متوقع وقت ہوتا ہے، بچوں میں جسمانی طور پر تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ کے بعد ایک شخص خود کشی کے ذریعے اپنی جان لیتا ہے جبکہ دنیا بھر میں سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشی سے اپنی جان لیتے ہیں۔ 2016 میں دنیا بھر کے 15 سے 29 سال کے نوجوانوں کی ہلاکت کی دوسری بڑی وجہ خودکشی تھی۔

ڈاکٹر مریم کے مطابق: ’آپ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کون ہیں اور اس وقت میں ان بچوں کے ارد گرد لوگ جن چیزوں کو بہت اہمیت دے رہے ہوتے ہیں جیسے اچھے نمبر آنا بہت اہم ہے یا لمبے ہونا، پتلے ہونا، گورا ہونا خوبصورت ہونا وغیرہ اہم ہے تو بچے بھی انہیں چیزوں کو اہم جاننے لگتے اور اگر بچے ان خصوصیات کے برعکس ہوں تو ان میں احساس کمتری پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور بچوں کے خود کشی جیسے انتہائی قدم اٹھانے میں یہ ساری وجوہات کار فرما ہوتی ہیں۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے