لاوہ پھٹ نکلے گا ۔

چنتخب کی نا اہلی، جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ نے سیلکیٹرز کی ساکھ کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے اور اب جب یوم حساب سامنے ہے اپنے سیلکیٹر پر مدعا ڈال رہا ہے کہ ‘

‘مجھے ٹیم اچھی نہیں دی گئی ‘

یہ تو ابتدا ہے دن آ رہے ہیں سب ایک دوسرے پر زمہ داری ڈالیں گے ۔ کوئی کہے گا فلاں فیصلہ میرا نہیں اس کا تھا اور کچھ کہیں گے میں نے تو منع بھی کیا تھا لیکن فلاں نے اپنی مرضی کی ۔

یہ لوگ اتنے چھوٹے اور اور گھٹیا ہیں ایک روز پہلے وزیردفاع کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے رہے تھے اور جب مولانا فضل الرحمن ٰ نے بات چیت کی پیشکش حقارت کے ساتھ مسترد کر دی تو آج پھر ایک دن پہلے کے مولانا کو ڈیزل کہنا شروع کر دیا ۔

جی ہاں آج چنتخب جو ایک روز پہلے مولانا فضل الرحمنٰ کو انتہائی عزت اور احترام کے ساتھ سے بات چیت اور مذاکرات کی دعوت دے رہا تھا کنونشن سینٹر میں جمعیت علما اسلام کے سربراہ کو ڈیزل کہہ کر پکار رہا تھا یعنی مذاکرات کی دعوت مسترد کی تو انگور کھٹے ہو گئے اور مولانا پھر سے ڈیزل ۔اس ملک کا ایک سال کے دوران ناس مار کر رکھ دیا ہے اور اب سوا ستیا ناس کے چکر میں ہیں ۔ فوج کے خلاف ہر مارشل لا کے وقت معاشرہ کے کچھ طبقات تنقید کرتے تھے اور جمہوریت کیلئے عام طور پر پاکستان پیپلز پارٹی جدوجہد کرتی تھی ۔ اس ملک میں صرف ایک تحریک اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر چلی تھی جسیے ایم آر ڈی کی تحریک کہا جاتا ہے اور مولانا فضل الرحمنٰ کا آزادی مارچ شائد دوسری تحریک ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر چل رہی ہے ۔

ایم آر دی کی تحریک اور مولانا فضل الرحمنٰ کے آزادی مارچ میں زمین آسمان کا فرق ہے اور بہت پانی پلوں کے نیچے بہہ گیا ہے ۔ چنتخب کی نا اہلی نے اسٹیبلشمنٹ کو اس تنگ گلی میں دھکیل دیا ہے جہاں واپسی کا کوئی راستہ موجود نہیں صرف بیرکس میں ہمیشہ کیلئے واپسی اور ووٹ کو عزت دینے کا راستہ باقی بچا ہے ۔ کسی مارشل لا یا فوجی حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کو کھلے عام تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا تھا اور فوج کو ہمیشہ طاقتور مذہبی جماعتوں یا کسی بڑی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل ہوتی تھی ۔ عوام کی دال روٹی ہر فوجی حکومت میں چلتی رہتی تھی اس لئے کبھی بھی عوامی غصہ کا سامنا بھی نہیں ہوتا تھا ۔

اب تو گویا کسی نے جادو کی چھڑی گھما دی ہے ۔ہر چیز بدل گئی ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ تنہا اور اکیلی کھڑی ہے ۔ کوئی سیاسی جماعت فوج کی پشت پناہ نہیں عوامی غصہ کا یہ عالم ہے مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری نے ایک ٹویٹ کیا کر دی کہ ہمارا ہدف کوئی ادارہ نہیں صرف نا اہل حکومت ہے پورا پاکستان گویا احسن اقبال پر تلواریں سونت کر پل پڑا ۔دوسرے لفظوں میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عام لوگ اور سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کو موجودہ حالات کا زمہ دار سمجھتی ہیں اور کوئی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کر کے عوامی غصہ کا سامنے کرنے کیلئے تیار نہیں ۔

مولانا فضل الرحمنٰ ایک زیرک سیاستدان ہیں وہ جانتے ہیں اسٹیبلشمنٹ اپنے تمام پتے کھیل چکی ہے اور ماضی ایسا ردعمل ظاہر کرنے سے قاصر ہے ۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے جمعرات کے روز کھلے عام جو مشرقی پاکستان میں ہیتھیار ڈالنے کا طعنہ دیا ہے اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مولانا فضل الرحمنٰ بہت طاقتور ہو گئے ہیں اس کا مطلب اصل میں یہ ہے کہ جنرل کمزور ہو چکے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر اسٹیبلشمنٹ کا ردعمل اس کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا چکا ہے ۔

بے روزگاری ،غربت اور مہنگائی کی زمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالی جا رہی ہے ۔ چنتخب کی تمام حرکتوں کا زمہ دار بھی اسٹیبلشمنٹ کو ہی سمجھا جا رہا ہے ۔ اب تو چنتخب نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ مجھے اچھی ٹیم ہی نہیں دی گئی ۔یعنی جن پر تکیہ تھا وہ پتے بھی اب ہوا دینے لگے ہیں ۔

پاک فوج پاکستان کی فوج ہے اور ملکی سلامتی کے تحفظ کی ضمانت دار بھی ہے ۔ دنیا کے ہر مہذب ملک میں ہر محب وطن شہری اپنی فوج کو اپنا فخر سمجھتا ہے ۔ پاکستان میں فوجی جنرلوں کی 37 سال کی چار فوجی حکومتوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کو اس مخالف عوامی ردعمل کا سامنا نہیں تھا جس کا اب ہے ۔ ادارہ کی ساکھ کیوں اور کیسے متاثر ہوئی یہ کوئی مشکل سوال نہیں ۔

جب فوج کا ایک حاضر سروس جنرل ایک ایسے وزیر کے ساتھ بیٹھ کر جس کا اپنا سگا بھتیجا منشیات کیس میں ملوث ہو، ایک سیاسی جماعت کے پنجاب کے صدر یعنی رانا ثنا اللہ پر 21 کلو منشیات کا الزام عائد کرے گا تو ادارہ کی ساکھ متاثر ہو گی ۔

جب ساہیوال میں ایک بے گناہ اور معصوم خاندان کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے گا اور ملزمان کو سزا سے بچا لیا جائے تو ادارہ کی ساکھ متاثر ہو گی ۔

جب نقیب اللہ قتل کیس کے تمام ملزمان کو قانونی ہٹھکنڈوں سے صاف بچا لیا جائے گا تو ادارہ کی ساکھ متاثر ہو گی ۔

جب عام انتخابات میں ٹویٹ کی جائے گی کہ دشمن قوتوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دیں گے تو ادارہ کی ساکھ متاثر ہو گی ۔

جب تیزی سے ترقی کرتی معیشت پر چیندہ صحافیوں کو بلا کر بریفنگ دی جائے گی کہ معیشت ٹھیک نہیں اور چنتخب کی حکومت میں سچ مچ کی تباہ حال معیشت کے جواز دئے جائیں گے تو ساکھ متاثر ہو گی۔

جب انتخابات میں مخصوص لوگوں کو جیپ کا انتخابی نشان ملے گا ۔ جب بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی ۔ جب مولوی خادم حسین فیض آباد میں دھرنہ دے گا ۔ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فیض آباد دھرنہ کے فیصلہ کے بعد صدارتی ریفرنس آئے گا ۔ جب جسسٹس کے کے آغا کے خلاف بارہ مئی کے واقعات کی جے آئی ٹی بنانے کے فیصلہ کے بعد صدارتی ریفرنس آئے گا ، جب سینٹ میں چیرمین کے خؒلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنائی جائے گی تو ادارہ کی ساکھ متاثر ہو گی ۔

ادارہ کی ساکھ متاثر ہونے کا عمل تدریجی تھا لیکن چنتخب کے بے مثال انتخاب اور تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے والی معیشت نے اس عمل کو بہت تیز کر دیا ہے ۔ آج چاوں صوبوں میں اس کے ۔ یہ جو ۔۔۔۔ ہے پیچھے وردی ہے کے نعرے لگ رہے ہیں اس کی زمہ دار فوج نہیں بلکہ چند عقل مند ہیں جنہوں نے اپنے احمقانہ فیصلوں سے ادارہ کی ساکھ داو پر لگا دی ہے ۔ورنہ حقیقت میں تو نوے فیصد فوج کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں وہ اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریاں سرانجام دیتے ہیں اور ارض وطن کے دفاع کیلئے اپنی نقد جانیں قربان کرتے ہیں ۔ یہ دس فیصد عقل مند ہیں جو شہدا کی قربانیوں کو کیش کراتے ہیں اور سیاست سیاست کھیلتے ہیں ۔

ماضی میں ہمیشہ پنجاب کی حمایت حاصل ہوتی تھی اتنے عقل مند ہیں پنجاب کی مقبول قیادت کو دیوار سے لگا کر پنجاب میں بھی حمایت کھو دی ہے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو پنجاب سے محروم کرنے کیلئے ظالموں نے نعرہ بلند کیا تھا ۔

‘ جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ’

اب پنجاب میں بغیر کسی شاطر دماغ کے خود بخود نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی پر نعرہ لگ جاتا ہے تو تکلیف کیوں ؟ قوم پرستی کا کھیل خود ہی شروع کیا تھا اب تو قیمت ادا کرنے کا وقت ہے ۔

جوائینٹ چیفس اف آرمی سٹاف جنرل زبیر نے گزشتہ روز بڑھتی ہوئی قوم پرستی پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ کون سوال کرے گا کہ پختون قوم پرستی اور پنجابی قوم پرستی کے پیچھے احمقانہ فیصلے ہیں ۔

یہ کس قدر بدبخت لوگ ہیں کس طرح عوام کو گمراہ کرتے ہیں ملک کس طرف جا رہا ہے یہ سیاسی جنگوں میں مصروف ہیں ۔لاڑکانہ کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے مخالف امیدواروں کو چن چن کر تیر سے ملتے جلتے نشان دئے ۔ کسی کو تیر سے ملتی جلتی بندوق ملی اور کسی کو پینسل دی گئی ۔یہ تو وہ زہنیت اور سوچ ہے جو کبھی اپنے اقتدار کیلئے ایم ایم اے بنواتی ہے اور اسے کتاب کا نشان دلاتی ہے ۔

سیاست میں ادارہ کا کیا کام ؟ مسلم لیگ ن کے ووٹ کاٹنے کیلئے ملی مسلم لیگ بنواتے ہیں اور پھر کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کرنا ملک دشمنی اور غداری ہے ۔

مریم نواز کو قید تنہائی میں ڈال دیا ۔ آصف علی زرداری کا حوصلہ بھلے جوان ہو لیکن وہ بوڑھا آدمی ہے شوگر اور عارضہ قلب کے ہاتھوں جاں بلب ہے ۔سابق صدر ہاتھ میں گلاس پکڑنے کی طاقت بھی کھو چکا ہے ۔ پہلے گیارہ سال جیل میں ڈالا تاکہ بینظیر بھٹو کو کنٹرول میں رکھا جا سکے اور اب اخری عمر میں اس کو راولپنڈی میں ٹرائل کیا جا رہا ہے ۔ سندھی قوم پرستی کے خلاف واحد طاقتور اور توانا آواز آصف علی زرادری کی ہے کیا اسے جیل میں مار کر سندھی قوم پرستی کے جن کو بھی بوتل سے نکالنا ہے ؟

آزاد کشمیر میں کس طرح پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جذبات پیدا ہو رہے ہیں کسی کو فکر نہیں ۔ بلوچستان میں قوم پرستی کا جن پہلے سے موجود ہے ۔ پی ٹی ایم والوں نے پختون قوم پرستی کا پرچم تھام لیا ہے ۔ مذہبی طبقہ مولانا فضل الرحمنٰ کے پیچھے کھڑا ہو گیا ہے ۔ آپ کے پاس کیا باقی بچا ہے ؟ ستر فٹ کی حوروں والا ملا طارق جمیل، ،منی لانڈرنگ کے مقدمہ میں ملوث طاہر اشرفی ،مولوی خادم حسین یا پھر قندیل بلوچ کے قتل میں تفتیشی عمل سے گزرنے والا مفتی عبدالقوی ؟

ہوش کے ناخن لیں ادارہ کی ساکھ ناقص فیصلوں سے تباہ ہوئی ہے اور اس ساکھ کا بحال ہونا ملک کے دفاع اور سلامتی کیلئے بہت ضروری ہے ۔ پسپا ہو جائیں ۔ غلطیاں تسلیم کر لیں صاف اور شفاف الیکشن ہونے دیں ووٹ کی عزت کریں ملکی معیشت کو مستحکم ہونے دیں سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے دوسری صورت میں مولانا فضل الرحمنٰ کی جمعرات کے روز کی تقریر پر کوئی سزا دینے کا سوچیں گے تو لاوہ پھٹ نکلے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے