کیا سعودیہ میں سیاحوں کواسلام کی تبلیغ درست ہے؟

لوگوں نے کچھ مبلغین اور اماموں کی رائے پر مبنی کتابچے تقسیم کیے ہیں جن میں سعودی معاشرے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے جاری کیے جانے والے نئے سیاحتی ویزے پر آنے والے غیر مسلم سیاحوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں – اس رائے کے بعد لوگ علماء کی اس رائے کی حمایت و مخالفت کرنے والےدو گرپوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کی طرف دعوت دینا انبیائے کرام کا کام ہے ، اس لئے کہ انبیاء بھی اس کام سے منسلک رہے ،یہ عظیم کام ہے ، لیکن اس کام کے کرنے کی جو شرائط اور تقاضے ہیں ان پر سب پورا نہیں اترتے ، خاص طور پر آج کل جب مد مقابل تہذیب یافتہ ، باعلم ہو اور اس کے پاس دلائل بھی موجود ہوں ، جن کے متعلق مبلغ کا نہ جاننا اسے کمزور اور شرمندہ کر سکتا ہے جو خود اسلامی دعوت کے لیے نقصان کا سبب ہو گا-

مزید یہ کہ ہمارا ملک اپنے جغرافیائی سائز کے لحاظ سے ایک براعظم کی طرح ہی ہے ، اور یہاں سنی ، شیعہ ، صوفی اور اسماعیلی جیسےخیالات رکھنے والے مختلف فرقے موجود ہیں ، لہذا ایسی صورتحال میں ہر فرقے کے پیروکار اپنے آپ کو اپنے فرقے کی تعلیمات کے مطابق غیر ملکی سیاحوں کو مدعو کرنے کا حق سمجھتے ہیں ، ملک کے مہمانوں جو مذھب میں ہم سے مختلف ہیں ،ان کے ساتھ ہمارے ہاں تبلیغ کے حوالے سے نئے تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں –

تب سے یہ سوال میرے ذہن میں آیا ہے جب سے میں نے یہ سنا ہے کہ یہ خاص طور پر مغربی ممالک کے لوگوں کو مدعو کیا جائے ، اور دعوت کے لیے یہ پوچھا جائے کہ وہ کہاں سے ہیں ؟ وہ بھی ایسے میں جب وہ ایک لمبے عرصے سے ہمارے درمیان پہلے سے ہی موجود ہیں – کیا ایسا ممکن نہیں کہ یہ دعوت ہر نماز کے اجتماع بعد ایشین برادری یا ان لوگوں کو دی جائے جو کفیل اور کمپنیوں کے مستقل ویزے پر ہیں اور جن میں سے بہت سارے اس طرف متوجہ بھی ہوتے ہیں –

اس وقت جب سعودی حکومت سیاحت کے ویزے جاری کر رہی ہے ایسے میں اس طرح کی حرکت کیوں کی گئی ؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاحت کے عظیم معاشی منصوبے میں خلل ڈال کر اس عظیم قومی منصوبے کو خراب کیا جائے ؟

اپنے آپ کا موازنہ کریں اگر آپ بیرون ملک سفر کر رہے ہوں اور کسی ایسے شخص سے ملیں جو عقیدے میں آپ سے مختلف ہو اور وہ آپ کو اپنے مذہب کی کسی عمل کی دعوت دے ایسے میں آپ اسے اپنی مذہبی عقائد میں مداخلت یا مذہبی توہین سمجھیں گے نا –

ہمارا معاشرے کا باہر کے لوگوں کے ساتھ فکری اور ثقافتی تعلق نیا ہے ایسے میں ہمارا کوئی بھی ایسا عمل سیاحوں کو ہمارے ملک میں سیاحت کے تجربے کو دہرانے سے خوفزدہ کرے گا اور ان کے پیچھے آنے والے لوگوں میں ہمارا منفی تاثر جائے گا –

وہ کیا کہا جاتا ہے
first impression is the right impression,

یعنی پہلا تاثر ہی اصل تاثر ہے ، اور اگر ہمارے ملک میں آنے والے پہلے سیاح مطمئن ہوتے ہیں یا ہم انہیں خوش کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پوری دنیا کے ذہنوں میں وہ ہی تصویر چھپ جائے گی جو آج ہے یعنی سعودی عرب ایک چھوٹا سا گاؤں ہے – لہذا سعودی عرب میں سیاحت کو انتہائی نفیس و پرکشش ہونا چاہیے تاکہ سیاح مذہبی ، سیاسی ، تاریخی یا یہاں تک کہ قومی بحث و مباحثے میں شامل ہوئے بغیر آسانی سے انجوائے کر سکیں –

ریاست کے مطابق وزارت اسلامی امور مقامی طور پر ” دعوت اور رہنمائی ” کی ذمہ دار ہے اور اسی نے مبلغین کو لائسنس دیا ہے ، جس کو یہ حق ہے کہ وہ ان لوگوں پر پابندی لگائے جو مقامی طور پر تبلیغ کے مجاز نہیں ، وزارت ایسی جگہیں مختص کر سکتی ہے جہاں کتابچے اور سیاحوں کے پوچھنے پر بنیادی معلومات میسر ہوں ، سرکاری فون نمبر کے ذریعہ ان کے سوالات کے جوابات دیئے جائیں – ہم خدا کو پکارنے کے بہانے لوگوں کا تعاقب کر کے ان کی رازداری میں اپنی ناکیں پھوڑ لیتے ہیں – اس غیر قانونی عمل میں دعوت کے نام پر مشکوک مقاصد اور اہداف شامل ہوسکتے ہیں!

اسلام کو معاملات میں عملی طور پر ایسا سلوک بنائیں جو سیاح دیکھیں کیوں کہ مشرقی ایشیاء میں اسلام کے مبلغین کی اخلاقیات ہی تھیں جن سے اسلام پھیلا –

ایک حقیقی موقع ہے کہ وہ لوگ اسلامی یونیورسٹیوں اور تبلیغی اداروں میں داخل ہوئے بغیر دیانتداری ، خلوص ، اچھے سلوک اور اخلاقیات کے ذریعہ اسلام کی تعریف کریں اور اس کا اعتراف کریں۔

یہ مضمون سعودی اخبار الوطن میں‌ 13 اکتوبر 2019 کو شائع ہوا . الوطن کے شکریے کے ساتھ آئی بی سی اردو کے قارئین کے لیے اس کا ترجمہ شائع کیا گیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے