ایکشن ان ایڈآف سول پاورریگولیشن

[pullquote]سول پاور آرڈیننس کالعدم قرار[/pullquote]

خیبرپختونخواحکومت کو ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی اورقانونی مشیروں کی جانب سے کوتاہیوں کے باعث صوبے میں نافذ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس اور بل کے متعلق شدیدہزیمت کاسامناکرناپڑا، جب پشاورہائیکورٹ نے اسے مکمل طو رپر کالعدم قرار دیدیا۔

[pullquote]خصوصی سکروٹنی کمیٹی[/pullquote]

پشاورہائیکورٹ نے جمعرات کے روز خیبرپختونخواکے بندوبستی اورقبائلی اضلاع میں نافذ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کو نہ صرف کالعدم قرار دیا ،بلکہ احکامات جاری کئے کہ تمام حراستی مراکز کو تین دن کے اندر پولیس کی تحویل میں دئیے جائیں ، آئی جی پی کو جاری ہدایت نامے میں کہاگیاہے کہ وہ ایک خصوصی سکروٹنی کمیٹی بنائیں اور صوبے کے بندوبستی اورقبائلی اضلاع میں نافذ ایکشن ان ایڈآف سول پاورکے تحت گرفتارافراد کی جانچ پڑتال کرے اوران میں سے اگرکوئی مجرم نہیں تو انہیں فوری طو رپر رہاکیاجائے اور باقی ملزمان کے کیس فوری طو رپرمقامی عدالتوں میں پیش کئے جائیں اورصوبے میں تمام ان حراستی مراکز کا خاتمہ کیاجائے، جو اس قانون کے تحت بنائے گئے تھے.

[pullquote]ایکشن ان ایڈآف سول پاور آرڈیننس اوربل کیاہے ؟؟[/pullquote]

2011ء میں ملاکنڈڈویژن یعنی پاٹا اور قبائلی اضلاع یعنی سابقہ فاٹامیں سکیورٹی فورسزکی جانب سے گرفتار کئے گئے افراد کو قانونی کور دینے کےلئے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اوراس وقت کے صدرمملکت آصف علی زرداری نے ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن لاگوکیاتھا ،اس سے قبل پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس اعجازافضل نے ایک کیس کی شنوائی کے دوران حکومت سے جواب طلبی کی تھی کہ سوات اورقبائلی علاقوں میں بے تحاشالوگوں کو گرفتارکیاگیاہے، ان کو کس قانون کے تحت تحویل میں لیاگیاہے اورانہیں کیوں عدالت میں پیش نہیں کیا جارہاہے ! جس کے بعد اس وقت کے صدرزرداری نے اگرچہ ریگولیشن 2011ءمیں نافذ کیا،لیکن انہوں نے اس میں وضاحت کی کہ یہ قانون 2008ءکے بعد گرفتارافرادپرلاگوہوتاہے.

[pullquote]نوٹیفکیشن[/pullquote]

20جولائی 2011 کو خیبرپختونخواکے سیکرٹری داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کیاجس کے تحت ملاکنڈڈویژن میں 9 حراستی مراکزقائم کئے گئے ہیں ،12اگست 2011کوسیکرٹری داخلہ نے دوسرانوٹیفکیشن جاری کیاجس کے تحت قبائلی اضلاع میں34حراستی مراکز قائم کئے گئے ،قبائلی اضلاع میں پولیٹیکل ایجنٹ کے لاک اپس اورایف سی کے تمام قلعوں کو حراستی مراکز کا درجہ دیاگیا، جس کے بعد وہاں گرفتارافراد کورکھاجاتا،صدارتی ریگولیشن کے تحت ایک انٹرنمنٹ اتھارٹی قائم کی جائے گی، جوگرفتارافرادکے متعلق فیصلہ کرے گی، اس قانون کے تحت تمام انٹرنمنٹ سنٹر زکونوٹیفائی کیاگیا ایک اوورسائیڈبورڈقائم کیاگیا،جس میں دوسویلین اور دوفوجی افسران کیسزکے متعلق فیصلہ کرتے تھے.

[pullquote]گرفتاریاں[/pullquote]

اس ریگولیشن میں یہ بھی کہاگیاتھا کہ اگر کوئی افسر اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی ، اس قانون کے تحت ہزاروں افرادکوملاکنڈڈویژن یعنی پاٹا اور قبائلی اضلاع یعنی سابقہ فاٹامیں گرفتارکیاگیااورانہیں حراستی مراکز میں رکھاگیا،حکومت کی جانب سے 2013ءمیں لاپتہ افرادکے کیس میں ایک رپورٹ پیش کی گئی کہ انٹرنمنٹ سنٹرزمیں دوہزارسے زائدافرادموجود ہیں ۔

[pullquote] حراستی مراکز[/pullquote]

ایکشن ان ایڈآف سول پاورریگولیشن میں سکیورٹی اداروں کو اختیاردیاگیاتھا کہ وہ کسی بھی شخص کو لامتناہی مدت کےلئے حراستی مرکزمیں رکھ سکتاہے ،اورکہاجاتاہے کہ 2008میں گرفتارکئے گئے کئی افراد اب بھی ان حراستی مراکز میں پڑے ہوئے ہیں ۔

[pullquote]حکومت کی غلطیاں [/pullquote]

ایکشن ان ایڈآف سول پاورریگولیشن کے متعلق حکومت سے غلطیاں کہاں ہوئیں؟؟

25ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت وزارت قانون اورمحکمہ قانون کے کسی بھی افسرنے اس جانب نشاندہی ہی نہیں کی کہ پاٹااورفاٹاکے خاتمے یعنی صدارتی اختیارات ،سرچشمے آرٹیکل247کے خاتمے کے بعد ان حراستی مراکزکےلئے کون ساقانون ہوگا؟

مئی2018ءمیں آرٹیکل247کے خاتمے اور 25ویں آئینی ترامیم کی منظوری سے قبل اس وقت کے صدر ممنون حسین نے فاٹاانٹرم گورننس ریگولیشن قبائلی اضلاع میں نافذ کیا ،لیکن دو ماہ بعد عدالت نے اس قانون کو کالعدم قرار دیدیاجس کے بعد خیبرپختونخواحکومت نے سابق فاٹااورپاٹا میں سکیورٹی فورسز کے حراستی مراکز کو قانونی کوردینے کےلئے صوبائی اسمبلی سے ایکشن ان ایڈآف سول پاوربل منظورکرلیا .

اس قانون کی منظوری کئی ماہ بعد حکومت کواندازہ ہواکہ قبائلی اضلاع اورسابق پاٹا سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اب خیبرپختونخواکاحصہ ہیں ،وہاں علیحدہ قوانین کو نافذ نہیں کیاجاسکتاجس کے بعد رواں سال پانچ اگست کو خیبرپختونخواحکومت نے گورنرکے ذریعے ایکشن ان ایڈآف سول پاورآرڈیننس منظورکیا،جس کو پشاورہائیکورٹ نے جمعرات کے روز کالعدم قراردیدیا۔

کابینہ کے ایک اہم وزیر کے مطابق ایکشن ان ایڈآف سول پاور بل اورآرڈیننس حکومت نے عجلت میں منظورکئے تھے، اس کےلئے کسی قسم کی تیاری نہیں کی گئی تھی اور اس وقت حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیاجائے گا،انہوں نے کہاکہ ہماری حکومت فیصلوں پر یوٹرن لیناجانتی ہے، ہوسکتاہے سپریم کورٹ میں چیلنج ہی نہ کیاجائے.

ہماری حکومت میں محکمہ قانون کی نااہلی سامنے آئی ہے جس پر وزیراعلیٰ نے وزیرقانون کے سامنے محکمہ قانون کے اعلیٰ افسروں کی سرزنش کی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے