تحریک انصاف، آزادی مارچ اور اعلانِ جمہوریت

تحریک انصاف کا سب سے بڑا المیہ تحریک انصاف ہے۔ تحریک انصاف کی سب سے بڑی اپوزیشن تحریک انصاف ہے اور تحریک انصاف کا سب سے بڑا ماتم بھی تحریک انصاف ہے۔

ایک سال اور چند ماہ میں ہی تبدیلی کے خواب کی ایک بھیانک تعبیر کا ہمیں سامنا ہے۔ اس مختصر عرصے میں تحریک انصاف نے وہ سپنوں کا محل مسمار کر دیا ہے جس کی بنیاد بائیس سال پہلے رکھی گئی تھی۔ جس کے تحت اس ملک کی تقدیر بدلنا تھی۔ جس کے تحت ڈھائی کروڑ بچوں کو اسکولوں میں داخلے ملنا تھے۔

جس کے تحت ان مائوں کو بہتر خوراک ملنا تھی جو غذائیت کی کمی کا شکا ر ہیں۔ اسی تبدیلی کے خواب کے تحت سبز پاسپورٹ کو عزت ملنا تھی۔ جس کے تحت تین سو پچاس ڈیم بننا تھے۔

جس کے تحت ہم نے بجلی دوسرے ممالک میں برآمد کرنی تھی۔ جس کے تحت ملک سے گیس اور تیل کے ذخائر نکلنا تھے۔ جس کے تحت اصل جمہوریت آنی تھی اور ریاست مدینہ کا چلن ہونا تھا۔ ایک سال اور چند ماہ میں ہی یہ خواب چکنا چور ہو گئے اور تبدیلی کا بخار ذہنوں سے اتر گیا۔

اس ایک سال اور چند ماہ کی حکومت نے ہمیں بتایا کہ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ ایک انتخابی نعرہ تھا۔ پچاس لاکھ گھر کا خواب ایک سراب تھا۔ اس ایک سال اور چند ماہ میں ہم نے دیکھا کہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے، غریبوں کے گھر گرا دیئے گئے۔

میڈیا کی زبان پر تالے لگا دیئے گئے۔ کاروبار ٹھپ ہوگئے۔ آئی ایم ایف کے ہاتھوں ملک انتہائی کڑی شرائط پر گروی رکھ دیا گیا۔ مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا۔ مخالف سیاستدان سب پابند سلاسل ہو گئے۔ پولیس کی کارکردگی پہلے سے بدتر ہو گئی۔

آئے روز وزراء کی فہرست میں من پسند لوگ شامل کئے گئے۔ سرکاری نوکریاں دوست احباب میں ریوڑیوں کی طرح تقسیم کی گئیں۔ پشاور میٹرو اب تک مکمل نہ ہو سکی۔

ترقی کے نام پر مرغیاں اور بکریاں عوام کو پیش کی گئیں۔ احتساب کے نام پر انتقام شروع کیا گیا۔ ڈیموں کے نام پر نلکوں کا افتتاح کیا گیا۔ پچھلی حکومتوں کے کامیاب منصوبوں پر اپنے نام کی تختی لگوائی گئی اور اپنی ہر ناکامی ریاست مدینہ کے نعرے کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی گئی۔

اب جو مولانا فضل الرحمٰن ایک سال اور چند ماہ کی نویلی حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا علم بلند کئے کھڑے ہیں اس کا سارا کریڈٹ تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ اب جو اپوزیشن کی سب جماعتیں اس احتجاج کا حصہ بننے کے لئے اکٹھی ہو رہی ہیں تو اس کارنامے کا سہرا تحریک تحریک انصاف کے سر بندھتا ہے۔ اب جو مہنگائی سے پسے عوام اس دھرنے کا حصہ بننا چاہ رہے ہیں تو تحریک انصاف اس کی مستحق ہے۔

اب جو تاجر آئے روز ہڑتال کر رہے ہیں اسکی ذمہ دار تحریک انصاف ہے۔ اب جو تحریک انصاف کے وزیروں پر جا بجا ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں جو عوام میں اضطراب ہے، پریشانی ہے، اس کا بھی سارا کریڈٹ تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ اب جو میڈیا کے وہ اینکر جو اپنے آپ کو تبدیلی کا داعی کہتے تھے اب اگر وہ تبدیلی کے پرخچے اڑا رہے ہوتے ہیں تو تحریک انصاف نے ایک سال تین ماہ میں اپنے آپ کو اس تبدیلی کا مستحق ثابت کیا ہے۔

مولانا کے آزادی مارچ کے خدوخال ابھی واضح نہیں ہیں۔ ابھی اس مارچ کی تاریخ پر بھی بحث ہو رہی ہے۔ یہ دھرنا ہے یا مارچ اسکی ماہیت پر بھی بات ہو رہی ہے۔ دھرنا ہے تو کتنے دن کا ہے یہ بھی واضح نہیں ہے۔ لیکن مولانا کے مطالبات بہت واضح ہیں۔

وہ ہر قیمت پر اس حکومت کی رخصتی چاہتے ہیں۔ وہ انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں۔ وہ ان مجوزہ انتخابی اصلاحات کے بعد نئے اور شفاف الیکشن چاہتے ہیں۔ مولانا کے مطالبات میں ابھی تک کوئی غیر جمہوری بات نہیں ہے۔ سب کچھ جمہوریت کا حصہ ہے۔ اپوزیشن کو احتجاج کا حق بھی ہے اور مارچ کا بھی۔ دھرنا بھی جمہوری حق ہے اور حکومت کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی جمہوری ہے۔ انتخابی اصلاحات کا مطالبہ بھی جمہوری ہے اور نئے انتخابات کا نعرہ بھی جمہوری ہے۔

اگر اس آزادی مارچ کا رویہ جمہوری ہی رہتا ہے تو یہ کسی بھی جمہوری معاشرے کے لئے ایک سعد بات ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے جس بھونڈے طریقے سے تحریک انصاف اور اسکے ہم نوا اس آزادی مارچ کے خلاف مہم چلا رہے ہیں وہ تحریک انصاف کی پوزیشن اور کمزور کر رہی ہے۔

قارئین خود سوچیں کیا ابھی تک مولانا نے سول نافرمانی کا نعرہ لگایا ہے؟ کیا ابھی تک مولانا نے بجلی کے بل جلائے ہیں اور عوام کو بل جمع نہ کروانے پر اکسایا ہے؟ کیا ابھی تک مولانا فضل الرحمٰن نے کسی جلسے میں ’’جلا دو ، گرا دو، لڑا دو‘‘ کا نعرہ لگایا ہے؟

کیا ابھی تک مولانا نے مذہب کارڈ کھیلا ہے؟ کیا ابھی تک مولانا نےقابل احترام سیاستدانوں کی نقلیں اتاری ہیں؟ کیا ابھی تک مولانا نے نے پولیس والوں کو اپنے ہاتھ سے پھانسی دینےکی دھمکی دی ہے؟ کیا ابھی تک مولانا نے اپنےکارکنوں کو سرکاری عمارات پر حملے کا حکم دیا ہے؟ کیا ابھی تک مولانا نے لاک ڈائون کی دھمکی دی ہے؟کیا ابھی تک مولانا نے تھرڈ امپائر کی انگشت کی شہادت مانگی ہے؟

کیا ابھی تک مولانا نے اپنے سیاسی مخالفین کو گالیاں دی ہیں ؟ کیا ابھی تک مولانا نے عوام کو تشدد پر اکسایا ہے؟ اگر ان سب کا جواب نفی میں ہے تو یہ آزادی مارچ عمران خان کے دھرنے کے مقابلے میں جمہوری بھی اور وقت کی ضرورت بھی ہے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آزادی مارچ کی اس مہم کا اصل سہرا نواز شریف کے سر جاتا ہے جو آج اپنے سارے خاندان کے ساتھ جیل میں قید یہ سارا منظر دیکھ رہا ہے۔

آج جو مولانا بات کر رہے ہیں یہ وہی سول سپریمسی کا نعرہ ہے جو نواز شریف نے لگا یاتھا۔ آج جو احتجاج ہونے جا رہاہےوہ دراصل ووٹ کو عزت دو کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ وہ اعلان جمہوریت ہے جس کی منتظر یہ قوم بہتّر برس سےہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے